کواسلام آباد کا وہ سہ پہر کا لمحہ جیسے وقت تھم سا گیا ہو۔ کشمیر ہاس کے ہال میں موجود ہر آنکھ، ہر چہرہ اور ہر دل ایک مقصد سے جڑا ہوا تھا ۔کشمیر کی آزادی، انصاف، اور بھارتی ریاستی جبر کےخلاف متحد آواز۔یہ سیمینار ئی عام تقریب نہ تھی۔ یہ درد کی ایک بلند پکار تھی۔ یہ سسکتی ہوئی وادی کے ان مظلوموں کی ترجمانی تھی جو برسوں سے بھارتی ظلم و جبر کے نیچے کچلے جا رہے ہیں۔ United Voices Kashmiri and Pakistani Diaspora Confronting Oppression in IIOJK کے عنوان سے منعقدہ اس اہم سیمینار میں ہر مقرر، ہر شریک، ایک ہی جذبہ لے کر آیا کشمیری عوام کی بے مثال قربانیوں کو سلام اور ان کی آزادی کی جدوجہد کو نئی توانائی فراہم کرنا۔
*اٹھو کہ ظلمتِ شب میں چراغ جلنے لگے*
*ہم اہلِ درد ہیں، ہم سے سحر نکلے گی!*
*بھارت کی ریاستی دہشتگردی اور نسل کشی*
مقررین نے بھارت کی ریاستی دہشتگردی، بے گناہ کشمیری نوجوانوں کی ماورائے عدالت ہلاکتیں، ہزاروں حریت پسندوں کی گرفتاریاں، اور کشمیری عوام پر مظالم کی وہ داستانیں سنائیں جو نہ صرف دل دہلا دینے والی تھیں، بلکہ عالمی ضمیر کو جھنجھوڑ دینے کےلئے کافی تھیں۔ کشمیر کی مسلم اکثریتی شناخت کو ختم کرنے کے لیے بھارت نے ایک نیا حربہ اختیار کیا ۔غیر ریاستی افراد کو جعلی ڈومیسائل جاری کرنا، انہیں کشمیر کی سرکاری ملازمتوں میں گھسانا، اور یوں کشمیریوں کو ان کی ہی سرزمین پر اقلیت میں تبدیل کرنے کی خطرناک کوششیں۔
*ظلم پھر ظلم ہے، بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے*
*خون پھر خون ہے، ٹپکے گا تو جم جائے گا!*
*گھروں کا چھننا، قیادت کا قید ہونا*
شرکا نے شدید غصے اور دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بھارتی فورسز حریت قیادت کے گھروں اور جائیدادوں کو ضبط کر کے انہیں جدوجہد سے دستبردار کرنے پر مجبور کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن بھارت کو شاید معلوم نہیں کہ کشمیری قوم اپنی عزت، ایمان اور آزادی کے لیے سب کچھ قربان کر سکتی ہے، مگر غلامی کبھی قبول نہیں کرےگی۔
*میرے قاتل میرے دشمن ہی سہی*
*میرے لہو سے میرے پرچم کا رنگ تو ہے!*
*پاکستان ایک بڑے بھائی کا کردار*
جہاں ایک طرف بھارت کشمیریوں کو دبانے اور کچلنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہا، وہیں دوسری طرف پاکستان کشمیریوں کے لیے ایک سایہ دار درخت، ایک بڑا بھائی بن کر کھڑا ہے۔ خصوصی طور پر حالیہ اوورسیز کنونشن میں پاکستان کے آرمی چیف کاکشمیر کے ساتھ اظہار یکجہتی کا بیان کشمیریوں کے حوصلے کو نئی بلندیوں پر لے گیا۔ یہ بیان صرف الفاظ نہیں تھے، یہ کشمیریوں کے دل میں اتر جانے والی امید کی روشنی تھی۔
*جب تلک کشمیر زندہ ہے، وطن زندہ رہے گا*
*سچ کے ہر قافلے میں، میرا پرچم بھی رہے گا!*
*حریت قائدین کی جدوجہد کو سلام*
یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے بھارتی جبر کے سامنے جھکنے کے بجائے صبر، استقلال اور بے مثال قربانیوں کے ساتھ آزادی کی شمع کو جلائے رکھا۔ ان کی جائیدادیں چھینی گئیں، اہل خانہ کو ہراساں کیا گیا، مگر وہ اپنی جدوجہد سے ایک انچ پیچھے نہیں ہٹے۔اس درد کی تکلیف کا اندازہ مجھ جیسے مقبوضہ کشمیر سے آنے والی ہی کر سکتے ہیںجن کا سب کچھ مقبوضہ جموں و کشمیر ہو۔
نہ جھکے ہیں، نہ جھکیں گے، یہ حریت کے قافلے*
جو چراغوں سے لڑیں، ایسے طوفاں کیا کریںگے؟*
*ٓآخر میں ہم سب کا ایک ہی پیغام : جدوجہد جاری ہے*
یہ سیمینار ایک نعرے پر ختم ہوا:کشمیر بنے گا پاکستا ن یہ نعرہ صرف ایک خواہش نہیں، بلکہ ایک عہد ہے ،حریت کے سپاہیوں کا، مہاجرین کا، ماں کے ان آنسوں کا، جنہوں نے اپنے بیٹے قربان کر دیے، اور ان بہنوں کا، جن کی عصمتیں بھارتی وردی میں ملبوس درندوں نے تار تار کیں۔
*ہمیں منزل کی خبر ہے، رہِ دشوار سہی*
*دل میں ایمان ،لہومیں ہے تپش آزادی کی!*
مقبوضہ کشمیر کا درد میرے لفظوں میں اس لیے بولتا ہے کیونکہ میرا تعلق اسی مظلوم سرزمین سے ہے، جہاں ہر دل آزادی کے لئے دھڑکتا ہے اور ہر آنکھ ظلم کے سائے میں سحر کی منتظر ہے ۔ میں نے اپنی آنکھوں سے وہ سچ دیکھے ہیں جنہیں دنیا جھٹلانا چاہتی ہے، اور اسی لیے میری تحریر محض خبر نہیں، ایک عہد ہے اپنے وطن، اپنی قوم، اور اپنی شہ رگ کے لئے
*شکریہ پاکستان !*
*شکریہ مسلح افواج پاکستان!*
*شکریہ حریت کانفرنس*
*اور ہر اس شخص کا شکریہ، جو مظلوم کشمیریوں کی آواز بنا۔*