شادی ہر صحت مند مردو عورت کےلئے ناگزیر ہے کیونکہ شادی سے انسان مختلف پریشانیوں اور مسائل سے بچ سکتا ہے۔ بشری تقا ضا بھی ہے کہ ہر صحت مند انسان کو لازمی شادی کرنی چاہیے۔عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ شادی کی بہترین عمر18 سال سے25سال ہے لیکن بعض لوگ تاخیر سے بھی شادی کرتے ہیں۔ دنیا کے مختلف علاقوں میں مختلف عمروں میں شادیاںکی جاتی ہےں۔ اسلام ایک فطری مذہب ہے ، اسلام کے مطابق بالغ ہونے پر شادی کرنی چاہیے۔بعض اوقات کم سن لڑکیوں کی شادیوں کی خبریں بھی سامنے آجاتی ہیں۔کم عمری کی شادیوں سے جسمانی، معاشرتی اور معاشی مسائل پیدا ہوسکتے ہیں ۔ شادی کی کم از کم عمراٹھارہ سال ہوتو مختلف پریشانیوں اورمسائل سے بچا جاسکتا۔ بعض صاحب حیثیت اور بعض سماجی ادارے اجتماعی شادیوں کا انعقاد کراتے ہیں ، اس سے معاشرے کے غریب لوگوں کے بیٹوں اور بیٹیوں کی بھی شادیاں ہوجاتی ہیں۔ضلع میانوالی کے علاقہ ماڑی انڈس میںعلامہ افتخار حسین نقوی ہر سال اجتماعی شادیوں کا انعقاد کراتے ہیں،اس میں مخصوص مذہب یا مسلک کے جوڑے نہیں ہوتے ہیں بلکہ مختلف مسالک اور مذاہب کے جوڑوں کی شادیاں کرائی جاتی ہیں، دلہن کو مناسب جہیز دیتے ہیں اور بہترین کھانے کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے،مثالی تقریب ہوتی ہے،اجتماعی شادیوں کی تقریب میںتمام جوڑے اور شرکاءخوشی اور فخر محسوس کرتے ہیں۔خاکسار متعدد مرتبہ ان تقریبات میں شرکت کرچکا ہے، اُن پر متعدد کالم تحریر کرچکا ہے۔اسی طرح پنجاب دھی رانی (اجتماعی شادیوں کا پروگرام) ایک حکومتی منصوبہ ہے،اس پروگرام میں حکومت شادی کے اخراجات فراہم کرتی ہے۔ پنجاب دھی رانی میں شرکت کےلئے یتیم، مساکین، معذورافراد یا معذور افراد کی بیٹیاں جن کی عمر اٹھارہ سال سے چالیس سال ہو،اس میں پنجاب کا رہائشی ہونا ضروری ہے،دلہن کو بنیادی ضروری سامان پر مشتمل جہیز دیا جاتا ہے، شادیوں کےلئے ہال وغیرہ کی سہولت فراہم کی جاتی ہے، دلہن کو بنک آف پنجاب سے ایک لاکھ روپے بذریعہ اے ٹی ایم فراہم کیا جاتا ہے۔پنجاب دھی رانی پروگرام کےلئے سوشل ویلفیئر اور بیت المال دفتر میں درخواست دی سکتی ہے، جن کے رشتے پکے ہوں، دلہن، ان کے والدین وغیرہ پنجاب دھی رانی پروگرام کےلئے اپلائی کر سکتے ہیں، سرکاری ویب سائٹ پر بھی پنجاب دھی رانی فارم دستیاب ہے،شادی کی تقریبات سال کے مختلف دنوں میں منعقد کی جاتی ہیں۔ معاشی مشکلات کے باعث بعض والدین بیٹیوں کی شادی نہیں کراسکتے ہیں تو پنجاب دھی رانی پروگرام سے مستحق والدین کی بیٹیوںکی شادیاں کراسکتے ہیں ۔سماجی اور حکومتی سرپرستی میں اس طرح پروگراموںکا انعقاد قابل تعریف ہے۔اجتماعی شادیوں کا ایک پروگرام بھارت کی ریاست اترپردیش حکومت نے متعارف کروایا ،اس اسکیم کے تحت شادی پر 51 ہزار روپے دیے جاتے ہےں جس میں سے 35 ہزار روپے لڑکی کو دیتے ہیں، 10 ہزار روپے شادی کے سامان کی خریداری اور6 ہزار روپے تقریب کےلئے دیے جاتے ہےں، یہ بھی ایک اچھا پروگرام ہے مگر فراڈ کرنے والے ہر جگہ پہنچ جاتے ہیںاوراپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ حبیب جالب کا شہر ہے کہ
"یہ اعجاز ہے حسن آوارگی کا
جہاں بھی گئے داستان چھوڑ آئے”
فراڈیوں کے باعث اچھے خاصے پروگراموں کا بھی نقصان ہوجاتا ہے،نئی دہلی سے ایک خبر گردش کررہی ہے کہ بھارت کی ریاست اترپردیش میں اجتماعی شادیوں کا بڑا ڈرامہ بے نقاب ہوگیا ۔اجتماعی شادیوں کی تقریب میںفراڈ کرنے والے 2 سرکاری اہلکاروں سمیت 15 افراد کو دھر لیا گیا۔یہ تقریب25 جنوری2025ءکو منعقد ہوئی تھی جس میں568جوڑوں نے شادی کی لیکن بعد میںسامنے آنےوالی تفصیلات کے مطابق متعدد افراد کو نقلی دولہا اور دلہن بننے کےلئے پیسے دیے گئے ۔اس تقریب میں شرکت کرنےوالے 19 سالہ راج کمار نے میڈیا کو بتایا کہ اسے بھی دولہاکا روپ دھارنے کےلئے پیسوں کی پیشکش کی گئی تھی، اس نے مزید بتایا کہ میں شادی کی تقریب دیکھنے گیا تھا لیکن وہاں مجھے زبردستی بٹھادیا گیاتھا۔اس تقریب کی مہمان خصوصی بھارتی جتنا پارٹی کی خاتون رکن ا سمبلی تھی، اس کو بھی فریب میں رکھا ۔رضوان بنارسی کا شہر ہے کہ
” وفا کے نام پہ ہم نے فریب کھایا ہے،
خذف چھپا کے کسی نے گہر میں رکھا تھا”
اسی طرح اجتماعی شادیوں کا ایک فراڈریاست گجرات کے راجکوٹ میں ہوا تھا جس میں ” رشی ونش سماج” کے نام سے شادیوں کے خواہش مندوں کی رجسٹریشن کروائی تھی، اور تو اور اس میں28 جوڑوں سے ڈونیشن بھی لیا گیا ،اُن28 جوڑوں سے کم ازکم پندرہ ہزار روپے سے چالیس ہزار روپے تک ڈونیشن لیا گیا لیکن شادی کے دن ٹھگ غائب تھے۔ پدمنا نگر پولیس نے چھ افراد کے خلاف پرچہ درج کیا جس میں سے دلیپ گوہل،دیپک ہیرانی اور منیش وٹھل پارا کو گرفتار کیا ،ہاردک شیشنگیا ،دلیپ ورسندا اور مرکزی ملزم چندریش چھترالا پولیس کے ہاتھوں نہیں لگے اور فراڈیے رفو چکر ہوگئے ۔ شادی کی مذکورہ تقریب میں شرکت کےلئے 100 دلہنوں کا قافلہ گجرات سے آیا تھا،ان کو208 تحائف کا لالچ دیا گیا تھا، شادی کے منتر پڑھنے کےلئے28 پنڈے بھی آئے تھے۔اس تقریب کےلئے فراڈیوں نے متعدد صاحب ثروت سے چندہ بھی لیا تھا۔ قارئین کرام!اس طرح فراڈیوں اور ٹھگوںسے ہوشیار رہیں،فراڈیے مختلف حربے استعمال کرتے رہتے ہیں، کھبی غریبوں کی بیٹیوں کی شادی کے نام پر ڈونیشن مانگتے ہیں، کھبی مریضوں کی علاج کے نام پر پیسے بٹوارتے ہیں،کھبی تعلیم کے نام پر لوگوں کو دھوکہ دیتے ہیں، یہ نیک نام سماجی افراد اور اداروں کو بھی بدنام کرتے ہیں لہٰذاضرورت اس امر کی ہے کہ آپ ان فراڈیوں کے دھوکے اور فریب میں نہ آئیں بلکہ ان لوگوں اور اداروں کو ڈونیشن دیں ،جن کو آپ خود جانتے ہوں، آپ کی مدد اور ڈونیشن کے سب سے زیادہ حق دار آپ کے رشتے دار اور پڑوسی ہیں ، اس لیے ڈونیشن وغیرہ مستحق رشتے داروں ، پڑوسیوں، نیک نام سماجی افراد اور اداروں کو دیں۔