کالم

استحکام کا راستہ

مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف بھی وطن واپسی کے باوجود ماضی کی تلخ یادوں سے پیچھا چھڑانے میں کامیاب نہیں ہوسکے، انہوں نے ایک بار پھر ماضی کی تلخ یادوں کو تازہ کیا 1993سے لےکر 2018تک کے طویل دور کا اجمالی جائزہ پیش کیا اپنے ادوار کی حکومتی کارگردگی کا بھی ذکر کیا اور قوم سے اس بات کا بھی گلہ کیا کہ جب مجھے ہٹایا گیا تو وہ خاموش بیٹھی رہی تاہم ان کے پورے خطاب میں مستقبل کے حوالے سے ان کی ترجیحات یا منصوبہ بندی کا کوئی واضح عندیہ نہیں ملتا ہوسکتا ہے کہ وہ اس بارے 28 مئی کو ن لیگ کی صدارت کا منصب دوبارہ سنبھالنے کے بعد لب کشائی کریں پارٹی کی سینٹرل ورکنگ کمیٹی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے سابق وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ93 ءمیں ہماری حکومت کا تختہ کیوں الٹا گیا؟ پاکستان کو تباہ وبرباد کرنے والوں کا احتساب ہونا چاہیے بانی پی ٹی آئی نے پیٹھ میں چھرا گھونپا طاہر القادری ظہیر الاسلام کےساتھ لندن گئے وہاں ہمارے خلاف سازش کا جال بنا ۔میرا گلہ ہے کہ مجھے ہٹایا گیا اور قوم خاموش بیٹھی رہی، میرے پاس ثاقب نثار کی آڈیو ہے مجھے پارٹی صدارت سے ہٹانے کا فیصلہ کہیں اور سے آیا تھا 1993 میں ہماری حکومت نے ملکی ترقی کےلئے جو ایجنڈا دیا اگر اس پر عمل ہوجاتا تو آج ملک دنیا میں بہت اوپر ہوتا اور ایشیا میں سب سے آگے ہوتے مسلم لیگ ن کے قائد سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے اپنے خطاب میں ماضی کے حوالے سے جو اظہار خیال کیا اس سے پوری قوم بخوبی آگاہ ہے 1988سے لے کر آج تک ملک میں اقتدار کے حصول کی خاطر جو محلاتی سازشیں ہوتی رہی ہیں اور سیاست دان اپنے سیاسی مخالفین کو نشان عبرت بنانے کے لئے جس طرح مقتدر حلقوں کے کلائی کی گھڑی اور ہاتھ کی چھڑی بنے رہے وہ بھی پاکستانی کی سیاسی تاریخ کا ایک المناک باب ہے اور اس میں میاں نواز شریف سمیت تمام سیاست دانوں کا کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں 1988 سے لے کر 1999 تک ملک میں جو کچھ ہوتا رہا وہ آج بھی قوم کی آنکھوں میں محفوظ ہے اور اس کے بعد کے حالات بھی پوشیدہ نہیں میاں نواز شریف کی اس بات سے بھی کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ 2013 کے انتخابات کے بعد سب سے پہلے وہ بنی گالا گئے تاکہ ملک کی ترقی کے لئے اپوزیشن لیڈر کو اپنا کردار ادا کرنے کے لئے قائل کرسکیں مگر اس کے بعد جو کچھ ہوا اور ملک کو جس طرح تماشا بنایا گیا وہ ماضی قریب کی تاریخ ہے مگر بد قسمتی سے آج گیارہ سال گزرنے کے بعد ملک پھر اسی نازک صورت حال سے دوچار ہے ملک کی معاشی صورت حال اور سیاسی درجہ حرات اس وقت کس نہج پر ہیں یہ سب پر عیاں ہے ملک کی بیشتر نوجوان آبادی جو کل آبادی کا دو تہائی ہے اپنے مستقبل سے مایوس ہو کر بیرون ملک جانے کی تگ ودو میں ہے جبکہ موجودہ ملکی حالات کی وجہ سے 95 فیصد پاکستانی بے روز گاری کے خوف میں مبتلا ہیں۔ آئی ایل او کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں بے روز گاری کی شرح سات فیصد تک پہنچ چکی ہے معیشت آئے روز سیاسی ہچکولوں سے اتھل پتھل کا شکار ہوجاتی ہے سیاست میں انتقام اور ذاتی عناد کا تاثر اس بری طرح سرایت کر چکا ہے کہ ہر معاملہ اب اسی عینک سے دیکھا جاتا ہے۔ سیاسی کردار ایک دوسرے کو گنجائش دینے پر آمادہ دکھائی نہیں دیتے اگر عوام کی بات کی جائے تو ایک جانب وہ مہنگائی اور ناقابل برداشت یوٹیلیٹی بلوں سے ہلکان ہوچکے ہیں تو دوسری طرف مسلسل گھٹتی معاشی قوت معاشرے کے ہر فرد کو اضطراب میں مبتلا کر رہی ہے۔ سیاسی ناپختگی انا اور ذاتی سیاسی مفادات کے بوجھ تلے دبی سیاست اور جمہوریت دونوں خوار ہو رہی ہیں جمہوری رویوں میں انانیت اور نا اتفاقی کے نتیجے میں ملک کو بحران در بحران مسائل اور مشکلات کا سامنا ہے اور ملک کے 23کروڑ عوام بیچارگی کی تصویر بنے ہوئے ہیں ملک کی موجودہ صورت حال سیاسی قیادت سے اتحاد واتفاق کا تقاضا کر ر ہی ہے مگر صد افسوس کہ اقتدار کی حرص اور قومی کے بجائے سیاسی مفادات کی جنگ نے ان کے کان اور آنکھیں بند کر رکھی ہیں وہ وطن عزیز کو درپیش اندرونی و بیرونی خطرات سے نبرد آزما ہونے اور ارض پاک کے دشمنوں کے مذموم عزائم کو ناکام بنانے کے لئے متحد ہونے کو تیار نہیں سیاست دانوں کی باہمی لڑائی کے باعث پورا سیاسی ماحول بد نظمی اور عدم استحکام کا شکار ہوچکا ہے۔ ملک کی ڈوبتی اقتصادی نا کو بحفاظت کنارے لگانے کے لئے انتشار افراتفری اور تصادم کی نہیں افہام وتفہیم کےساتھ معاملات کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے ملک میں جاری سیاسی عدم استحکام معاشی استحکام کی راہ میں بھی سب سے بڑی رکاوٹ ہے ہمارے سیاسی قائدین کو خود احتسابی کی اشد ضرورت ہے وہ اپنی ذمہ داریوں کا احساس و ادراک کریں اور ملک میں سیاسی استحکام پیدا کرنے کے لئے اخلاص نیت کے ساتھ کوشش کریں اور ایثار کا مظاہرہ کرتے ہوئے رواداری اور برداشت کے کلچر کو فروغ دیں سرکردہ سیاسی قائدین جن سے امید کی جاتی ہے کہ وہ ملک وقوم کے حقیقی مسائل کا حل پیش کرنے پر توجہ دیں گے’ اپنی ذمہ داریوں کو پس پشت ڈال کر فریق مخالف سے حساب برابر کرنے کی سوچ کی اسیر نظر آتے ہیں جمہوریت کی بدلیاں مخصوص چھتوں پر نہیں برستیں جمہوریت سیاسی شراکت داروں میں تفریق کی قائل نہیں چونکہ قومی سطح پر ہم اس نیتجے تک پہنچ چکے ہیں کہ جمہوری طرز حکومت ہی ہمارے لئے بہتر ثابت ہوسکتا ہے چنانچہ ہماری قومی ذمہ داری بن جاتی ہے کہ اس معاملے میں خلوص اور نیک نیتی کے ساتھ ایسا ماحول تشکیل دیں جس میں جمہوری اقدات کو پروان چڑھنے کا موقع مل سکے خود سیاسی جماعتوں کو اس سلسلے میں بہت کچھ سیکھنا اور اپنی اصلاح کرنی چاہیے انہیں اس اعتماد کی سخت ضرورت ہے کہ سیاست میں مد مقابل جماعتوں کے ساتھ اینٹ گھڑے کا بیر روا نہیں سیاسی اختلاف درحقیقت حل کی تجاویز اور نظریئے کے اختلاف پر مبنی ہوتے ہیں ورنہ اصولی طور پر سبھی جماعتوں کا رخ ایک ہی منزل کی جانب ہوتا ہے اگر اس منزل تک پہنچنے کے راستوں پر اختلاف پیدا ہو تو یہ شخصی عناد اور ذاتی دشمنی کی حدوں کو نہیں پہنچنا چاہیے سیاسی قیادت کو بھی چاہیے کہ وہ وقتی مفادات سے بالاتر ہوکر ملکی حالات اور واقعات کا باریک بینی سے جائزہ لے او ریہ سمجھنے کی کوشش کرے کہ سیاسی ناچاقی عناد اور تنا نے ہمیں قومی سطح پر کس قدر نقصان پہنچایا ہے وسیع تر مفاہمت کے بغیر وطن عزیز کے مسائل مشکلات اور بحرانوں سے نکلنا ممکن نہیں مفاہمت کیلئے ضروری ہے کہ ہر فریق اپنی غلطی کو تسلیم اور خوئے انتقام سے پاک ہوکر دوسروں کے ساتھ ملکر آگے چلنے کا راستہ ہموار کرے مہنگائی معاشی عدم توازن دہشت گردی ملک کے اولین مسائل ہیں او ران کے حل سیاسی موافقت کے بغیر ممکن نہیں آئی ایم ایف سمیت کئی عالمی ادارے بھی بار بار ہمارے سیاسی قائدین کو اس بات کا احساس دلا رہے ہیں کہ سیاسی ہم آہنگی کے بغیر ہماری معیشت کا مستحکم ہونا ممکن نہی وقت آگیا ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں اپنے ذاتی اور گروہی مفادات سے بالاتر ہوکر ملک وقوم کے لئے اکٹھی ہوں اور ملک کو موجودہ صورت حال سے نکالنے کے لئے ایک وسیع البنیاد نیا عمرانی معاہدہ کریں جو آگے کی راہ عمل سجھائے ملک کے موجودہ حالات کو یونہی وقت کے رحم وکرم پر نہیں چھوڑا جاسکتا معاملات کو درست کرنے کے لئے کسی نہ کسی کو تو پہل کرنا ہوگی یہ سیاست کا نہیں درحقیقت پاکستان سے محبت اور حب الوطنی کا بھی تقاضا ہے جمہوریت حوصلہ برداشت اور عوام کی رائے عامہ کے احترام کا نام ہے اگر پاکستان نے آگے بڑھنا ہے تو سیاسی قائدین ریاستی اداروں اور ستونوں کو عدم برداشت اور میں نہ مانوں کے رویے کو ترک کرنا ہوگا ماضی کی غلطیوں کوتاہیوں ناکامیوں سازشوں کا ازالہ ویسے تو ممکن نہیں البتہ ماضی سے عبرت حاصل کرکے اور آئندہ ان غلطیوں کا نہ دھرانا کا عہد کرکے اس کا کچھ نہ کچھ مداوا ضرور کیا جاسکتا ہے سیاست مکالمے اور لچک کا دوسرا نام ہے اب بھی وقت ہے تمام سیاست دان ایک قومی مکالمے کے لئے مل بیٹھیں اگر سب سیاست دان وسیع تر قومی مفاد میں مل جل کر ملک میں خوشگوار ماحول پیدا کرلیں گے تو ہماری مشکلات میں واضح کمی ہو جائے گی اور ملک بھی انشا اللہ تعالی بحرانوں سے نکل جائے گا اس ضمن میں سب سے زیادہ ذمہ داری خود سابق وزیر اعظم نواز شریف پر عائد ہوتی ہے کہ وہ تمام سیاسی قائدین بشمول چیئرمین تحریک انصاف کے ساتھ مل بیٹھ کر ملک میں برداشت رواداری اور خوشگوار ماحول پیدا کرنے کیلئے اپنا کردار ادا کریں اس وقت ان کے سامنے دو راستے ہیں ایک روایتی سیاسی لیڈر کا راستہ جس کی سوچ اپنی ذات تک محدود ہوتی ہے اور دوسرا اپنی ذات سے اوپر اٹھ کر ملک و قوم کے مفاد کو ترجیح دینے والے حقیقی قائد کا راستہ خود ن لیگ کے مفاد میں یہی ہے کہ وہ انتشار اور انتقام کی سیاست کو خیر باد کہہ کر ملکی مسائل کے حل اور تعمیر و ترقی کے لئے قومی یکجہتی کا ایسا ماحول پیدا کرے جس سے وہ توانائی حاصل کی جاسکتی ہے جو ملکی معیشت اور مجموعی صورت حال کو بہتر بنانے کیلئے آج کی اشد ضرورت ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے