کالم

الیکشن کمیشن کا پراسرار کردار

جب بھی ان سے پوچھو، جواب آتا ہے ہمارا محدود مینڈیٹ ہے، ہم محدود مدت کیلئے آئے ہیں، یہ وہ رٹے رٹائے الفاظ ہیں جو یہ نگران لوگ آجکل روزانہ ٹی وی پر اور مختلف مواقع پر دہراتے نظر آتے ہیں لیکن اپنے اندر کی بات اپنے دل کی بات نہیں بتاتے کہ ہمارا جانے کو دل نہیں کرتا۔ بیشک آپ جس وزیر مشیر کو سن لیں، جب ان سے الیکشن کے انعقاد یا دوسرے دیگر حکومتی کاموں میں ٹانگیں اڑانے پر جب سوال کیا جاتا ہے تو بشمول نگران وزیراعظم سب کا موڈ آف ہو جاتا ہے، بحث و تکرار پر اتر آتے ہیں، آئین و قانون کی صرف ان شقوں کے حوالے دیتے ہیں جو انہیںنا جانے کے راستے دکھاتے ہیں لیکن بظاہر کہتے یہی ہیں کہ ہمارا مینڈیٹ محدود ہے۔ یہ بھی نہیں بتاتے کہ وہ اصل کس مقصد کے لئے لائے گئے تھے کہ اب ماسوائے الیکشن کے انعقاد کے سب ایشوز پر بات کرتے ہیں، ملکوں ملکوں بھاگے بھاگے پھرتے ہیں ، یہ بھی کر لیں وہ بھی کر لیں، لیکن سچ پوچھیں تو انکے ارادے نہایت ہی مخدوش لگتے ہیں، کوئی ہے جو کہیں سے انہیں آنکھ مارتا رہتا ہے کوئی ہے جو انہیں اشاروں اشاروں میں۔ لگے رہو ۔ کا سگنل دیتا رہتا ہے اور اس سارے سیناریو میں الیکشن کمیشن کے پراسرار کردار بھی بہت بڑے سوالیہ نشان ہیں جو ہمیشہ گول مول بات کرتے ہیں جو نگرانوں کوہمہ وقت آکسیجن مہیا کرتا رہتا ہے۔ یہ نگران لوگ بھی بات اسی پر ختم کر دیتے ہیں کہ الیکشن کروانا تو الیکشن کمیشن کا کام ہے، وہ جب بھی کروائیں گے ہم انہیںفیسیلیٹیٹ کر دیں گے۔ قارئین کرام لگتا تو یہ ہے اور قرائن بھی یہی بتاتے ہیں کہ نگرانوں اور الیکشن کمیشن دونوں کو اس سوال سے ایک چڑ سی لگتی ہے کہ الیکشن کیسے شفاف ہوں گے۔ ادھر سپریم کورٹ آف پاکستان کے تازہ ترین احکامات کے مطابق آئندہ انہیںعدالت عظمیٰ نہیں لکھنا پکارنا۔ بس سپریم کورٹ آف پاکستان کے نام سے لکھنا ہے۔یہ اقدام بھی اچھوتا اور قابل قدر ہے، جیسے حال ہی میں چیف جسٹس آف پاکستان نے سرکاری افسروں کے ساتھ لفظ صاحب کو بھی لکھنے پکارنے سے منع کر دیا ہے۔اچھا ہے غلامی دور کے ایک استعارے کو کسی نے تو متروک کیا۔ مجھے یاد ہے اس سے پہلے ایک سپریم کورٹ کے ہی فیصلہ پر مائی لارڈ کہہ کر ججز کو مخاطب کرنے پر پابندی عائد کردی گئی تھی۔ اسکی جتنی تعریف کی جائے کم ہے لیکن بطور وکیل اکثر دیکھتا ہوں کہ کچھ وکلاءعام سول جج کی عدالتوں میں سول ججز کو بھی مائی لارڈ پکار کر اپنا بنتا نہ بنتا ریلیف لینے کی کوشش کرتے رہتے ہیں یہ اور بات ہے کہ وہ ججز ایک دفعہ تو ادھر ادھر دیکھنے لگ جاتے ہیں کہ یہ مائی لارڈ ہے کون؟ جب سے قاضی فائز عیسیٰ چیف جسٹس بنے ہیں پہلے دن سے مجھے یقین تھا کہ وہ کچھ نہ کچھ ایسا کرتے رہیں گے جو دوسرے آج تک نہ کر سکے، مجھے یہ پختہ یقین ہے کہ وہ سپریم کورٹ آف پاکستان کو وقت کے نئے تقاضوں کے مطابق ڈھال کر تمام فرسودہ روایات بشمول عدالت ہائے میں ججز کے اٹھنے بیٹھنے کے طریقہ کار اور غیر ضروری القابات کو تبدیل کر کے ہی دم لیں گے۔ یقین فرمائیں ہماری اعلیٰ عدالتوں میں جب ایک عام سائل انکی سٹ سٹینڈ حاکمانہ اور جابرانہ رویہ دیکھتا ہے تو وہ خوف زدہ سا ہو جاتا ہے۔ جو ایک ماڈرن انصاف پسند معاشرے میں اچھی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا۔ سچ تو یہ ہے کہ ایک عام آدمی بے دھڑک ہو کر عدالتوں میں جائے، یہاں سے خوف کی بدبو نہیں بلکہ انصاف کی خوشبو آنی چاہئے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri