کالم

انسانی جانوں سے کھیلنے کامکروہ دھندہ

انسانی جان کا تحفظ ہم سب کی ذمہ داری ہے اور انسانی صحت پر ہر گز سمجھوتا نہےں کےا جا سکتا ۔وطن عزےز مےں غےر قانونی کلےنکس ،ہسپتال ،مےڈےکل سٹورز ،زائد المعےاد ممنوعہ اور غےر قانونی ادوےہ کی فروخت کی فراوانی ہے ۔ہوس زر مےں مبتلا انسانےت کے دشمن ،صحت کے نام پر موت بانٹنے مےں مشغول ہےں ۔کچھ کوالےفائڈ ڈاکٹرز بھی ان غےر قانونی اور غےر اخلاقی دھندے مےں ملوث ہےں ۔اتائےت نے خطرناک اژدھے کا روپ دھار لےا ہے ۔اتائی اس قدر دلےر ہو گئے ہےں کہ ان کے دھڑا دھڑ کلےنک کھل رہے ہےں اور جہاں نامور ڈاکٹروں کے ناموں کے بورڈ آوےزاں ہےں ۔عالم ےہ ہے کہ جو لڑکا چند دن کسی نامور ڈاکٹر کے پاس لگا لےتا ہے وہ اپنا کلےنک اور مےڈےکل سٹور کھول لےتا ہے جہاں پر ےہ ہر قسم کے غےر قانونی اور غےر اخلاقی دھندا کرتے ہےں ۔ ناظرےن ذرا غور کرےں ۔گزشتہ کچھ عرصہ پہلے لاہور مےں ہی سرکاری ہسپتال مےں شعبہ امراض دل مےں ،دل کے مرےضوں کو جعلی سٹنٹ ڈالے جا تے رہے ۔اس خبر کی تشہےر پر انکوائری ہوئی تو معلوم ہوا کہ جعلی کمپنی دس ہزار روپے مےں فی عدد جعلی سٹنٹ ہسپتال کو فروخت کرتی تھی جس کا مرےضوں سے اس زمانے مےں ڈےڑھ لاکھ روپےہ وصول کےا جاتا تھا اور افسوسناک حقےقت ےہ تھی کہ ےہ جعلی مال خرےدنے کا آرڈر دےنے والے ماہر امراض دل تھے جن کو دل کی شرےانےں کھولنے کی ذمہ داری دی گئی تھی اور وہ شرےانوں کو مزےد بند کرنے کا سامان کرنے لگے ۔اس دھندے مےں ملوث جعلی سٹنٹ ڈالنے والے ،خرےدنے والے اور سپلائی کرنے والے کسی اےک شخص کو قرار واقعی سزا نہ ملی ۔ سےاسی اثر ورسوخ اور دباﺅ کی وجہ سے ےہاں کبھی خاطر خواہ نتائج نہےں نکلے ۔گردوں کی غےر قانونی پےوند کاری مےں ملوث گروہ کے سرغنہ فواد کو گرفتار کےا گےا جبکہ اس کے گروہ مےں شامل آٹھ افراد کو پہلے ہی گرفتار کےا جا چکا ہے ۔اس مےں شبہ نہےں کہ اےسا گھناﺅنا غےر قانونی کاروبار بڑے مگر مچھوں اور پولےس کی معاونت کے بغےر نہےں کےا جا سکتا ۔ےہی وجہ ہے کہ ملزم ڈاکٹر کی گرفتاری سے قبل پانچ پولےس اہلکاروں نے اسے فرار ہونے مےں مدد دی۔ لاہور مےں کاہنہ کے علاقے مےں گردوں کے غےر قانونی ٹرانسپلانٹ کرنے کے مرکزی ملزم کو اس کے ساتھی گن پوائنٹ پر پولےس کی حراست سے چھڑا کر لے گئے ۔معزز قارئےن ماضی مےں بھی لاہور پولےس نے اےک گروہ پکڑا تھا جس نے اےک گھر کرائے پر لے رکھا تھا ۔ےہاں غربت مےں اسےر نوجوانوں کو لاےا جاتا جہاں چند ہزار کے عوض ان کا گردہ خرےد لےا جاتا۔ملزم گرفتار بھی ہوئے لےکن ان کو بھی مقدمے مےں سقم کے باعث سزا نہ ہو سکی ۔آج کے ترقی ےافتہ دور مےں بھی بازار مصر سجا ہے ۔ان گنت بے سہارا تنگ دستی کا اےندھن بنے ،مفلوک الحال انسان مجبور ہو جاتے ہےں ہر اس چےز کو بےچنے پر جو ان کی دسترس مےں ہوتی ہے ،جو بک سکتی ہے ،کسی کے جسم مےں گردہ ہے تو وہ منڈی مےں لے آئے گا ۔رگوں مےں دوڑتے لہو کا اگر کوئی خرےدار ہے تو وہ اسے پےش کرنے مےں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہےں کرے گا ،جس مال کی منڈی مےں طلب ہو گی مفلس کی مجبوری اور ضرورت اسے وہاں لے آئے گی ۔راقم کو سابق وزےر اعظم نواز شرےف کے دور کا وہ مقروض ےاد آ رہا ہے جو قرض کا سود ادا نہےں کر سکتا تھا ۔اےک روز خواجہ رےاض کی کھلی کچہری مےں پہنچا ،زنجےر عدل ہلائی ،فرےاد کنا ں ہوا کہ وہ سود ادا نہےں کر سکتا وہ اپنا گردہ بےچنا چاہتا ہے جو مےری سب سے قےمتی متاع ہے ۔وزےر اعظم سے کہو اسے خرےد لے ےا مےرا سود معاف کرا دے ۔ےہ حال سنانے کا مقصد ےہی ہے کہ قرض اور سود کے شکنجہ مےں گرفتار بے بس افراد اپنے گردے تک بےچنے کےلئے تےار ہو جاتے ہےں کےونکہ ان کے پاس کوئی دوسرا آپشن نہےں ہوتا ۔گردہ فروشی کا ناجائز کاروبار کرنے والے گروہ کے ارکان جو ڈاکٹر ہےں وہ کےسی مسےحائی کر رہے ہےں ،ڈاکٹری کا توپےشہ ہے دکھ درد دور کرنے کا ۔مسےحا تو زخموں پر مرہم رکھتے ہےں ،حوصلہ دےتے ہےں ،حوصلہ شکن نہےں بنتے ۔ےہ کےسے مسےحا ہےں جو غرےبوں اور کمزوروں کو زندہ درگور کر کے ،ےہ انسانےت کے چارہ ساز مسےحا اس انتہا کو کےوں پہنچ گئے ۔مسکراہٹےں بانٹنے والے کرب مےں تو مبتلا نہےں کرتے ۔ہمارے ہاں ڈاکٹری کا پےشہ اگر اےک طرف مسےحائی ہے تو دوسری طرف پےسہ بنانے کی مشےن بھی ہے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri