ایرانی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ وہ 22 نومبر 2025 سے بھارتی شہریوں کے لیے ویزا فری انٹری ختم کردے گا۔ 22 نومبر سے تمام بھارتی شہریوں کو ایران کا سفر کرنے یا اس کے ایئرپورٹ کو نقل و حمل کے طور پر استعمال کرنے کے لیے ویزا حاصل کرنا ہوگا۔ ایرانی وزارت خارجہ نے اس فیصلے کے حوالے سے تازہ ترین ایڈوائزری جاری کی ہے جس میں ہائی جیکنگ اور نوکری سے متعلق دھوکہ دہی جیسے نقصانات کی وارننگ دی گئی ہے۔ وزارت خارجہ نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی حکومت نے عام بھارتی پاسپورٹ ہولڈرز کے لیے ویزا ڈس کلیمر کی تنصیب کو معطل کر دیا ہے تاکہ ظالم عناصر کی طرف سے بدسلوکی کو روکا جا سکے۔ بھارتی شہریوں کو سختی سے مشورہ دیا جاتا ہے کہ وہ چوکنا رہیں اور ایسے ایجنٹس سے گریز کریں جو ویزا فری سفر یا ایران کے راستے تیسرے ممالک جانے کی پیش کش کرتے ہیں۔وزارت خارجہ نے متعدد واقعات کو نوٹ کیا جن میں بھارتی شہریوں کو ملازمت یا آگے سفر کے جھوٹے وعدوں کے تحت ایران لے جایا گیا۔ اطلاعات کے مطابق پچھلی ویزا فری پالیسی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بہت سے لوگوں کو آمد پر تاوان کے لیے اغوا کر لیا گیا۔ نئے قوانین کے تحت بھارت کو اب اپنی پروازوں میں سوار ہونے سے پہلے ایک درست ایرانی ویزا کے لیے درخواست دینا اور حاصل کرنا ہوگا۔ایران نے گذشتہ سال فروری 2024 میں اعلان کیا تھا کہ بھارتی سیاح ہر چھ ماہ میں ایک بار بغیر ویزا کے ملک کی فضائی سرحدوں میں داخل ہوسکتے ہیں۔ وہ زیادہ سے زیادہ 15 دن تک وہاں قیام کر سکتے ہیں جس میں توسیع کا کوئی امکان نہیں ہے۔بھارتی میڈیا رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ ایران کی جانب سے نئی ویزا پالیسی کی صورت میں ایران کے سیاحتی مقامات پر جانے والے بھارتی شہریوں کی ایک بڑی تعداد کے سفری منصوبوں پر اثر پڑے گا، خاص طور پر قْم اور مشہد کے شہروں کا سفر کرنے والے زائرین اس سے متاثر ہوں گے۔اگرچہ ایرانی وزارت خارجہ کے حکام کی جانب سے ویزے سے استثنیٰ کی معطلی کی وجوہات پر کوئی باضابطہ تبصرہ نہیں کیا گیا ہے، لیکن بھارت کی وزارت خارجہ نے ایران کے اس فیصلے پر اپنا رد عمل ظاہر کرتے ہوئے ایران کا سفر کرنے والے سیاحوں کے لیے ایڈوائزری جاری کی ہے اور اس ویزاـفری سہولت کے خاتمے کا سبب بھی بیان کیا ہے۔وزارت خارجہ نے ایڈوائزی جاری کرتے ہوئے لکھا کہ بھارت کی توجہ ان متعدد واقعات کی طرف مبذول کروائی گئی ہے جن میں بھارتی شہریوں کو ملازمت کے جھوٹے وعدوں پر یا تیسرے ممالک لے جانے کی راہداری کی یقین دہانیوں پر ایران روانہ کیا گیا ہے۔’اس میں مزید کہا گیا کہ ‘ان عام بھارتی پاسپورٹ کے حامل شہریوں کے لیے ویزا چھوٹ کی سہولت کا فائدہ اٹھا کر ایران جانے کے لیے دھوکہ دیا گیا۔ ایران پہنچنے پر ان میں سے کئی کو تاوان کے لیے اغوا کر لیا گیا۔’بھارتی وزارت خارجہ نے اس معطلی کا مقصد بتاتے ہوئے لکھا: ‘اس اقدام کا مقصد مجرمانہ عناصر کی جانب سے اس سہولت کے مزید غلط استعمال کو روکنا ہے۔ اس تاریخ (22 نومبر) سے عام پاسپورٹ کے حامل بھارتی شہریوں کو ایران میں داخل ہونے یا ٹرانزٹ کے لیے ویزا حاصل کرنے کی ضرورت ہوگی۔’ایڈوائزی میں یہ مشورہ بھی دیا گیا ہے کہ ‘ایران جانے کا ارادہ رکھنے والے تمام بھارتی شہریوں کو سختی سے مشورہ دیا جاتا ہے کہ وہ چوکس رہیں اور ایسے ایجنٹوں سے دور رہیں جو ویزاـفری سفر یا ایران کے راستے تیسرے ممالک لے جانے کا وعدہ کر رہے ہیں۔’خیال رہے کہ ایران یورپ یا وسطی ایشیا جانے والے بھارتی شہریوں کے ساتھ ساتھ بھارت اوربھارت کے زیر انتظام کشمیر کے شیعہ زائرین کے لیے بھی ایک آسان ٹرانزٹ ہب رہا ہے، جو عراق میں مقدس مذہبی شہروں کا دورہ کرنا چاہتے ہیں۔اسرائیل اور ایران کے مابین حالیہ کشیدگی کے دوران بھارت کی جانب سے مکمل خاموشی اور پس پردہ سرگرمیوں نے دہلی کی نام نہاد ایران دوستی کو بے نقاب کر دیا ہے۔ ایران، جو بھارت کو اپنا اسٹریٹجک شراکت دار سمجھتا رہا، آج خود کو سفارتی طور پر تنہا محسوس کر رہا ہے، جب کہ بھارت تل ابیب کے ساتھ تعلقات کو ترجیح دے رہا ہے۔ بھارت نے ایران کے ساتھ تعلقات کو ہمیشہ بڑھا چڑھا کر پیش کیا، خصوصا چابہار بندرگاہ اور توانائی کے شعبے میں شراکت داری کو "خطے کے استحکام” سے جوڑ کر پیش کیا جاتا رہا۔ مگر اسرائیل کے ایران پر حملوں کے دوران بھارت کی خاموشی نے واضح کر دیا کہ دہلی کی تہران کے ساتھ قربت اصولی نہیں، بلکہ وقتی مفادات اور پاکستان مخالف حکمت عملی کا حصہ تھی۔ ایران کی سیکیورٹی ایجنسیوں نے حالیہ ہفتوں میں 72 بھارتی جاسوسوں کو گرفتار کیا ہے، جن پر اسرائیل کو حساس معلومات فراہم کرنے کا الزام ہے۔ ان افراد کا تعلق مبینہ طور پر بھارتی خفیہ ایجنسی ”را”سے ہے، اور انہیں اسرائیلی حملوں کے اہداف طے کرنے میں معاونت کا ذمہ دار ٹھہرایا جا رہا ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ ایران کو بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات کا ازسر نو جائزہ لینا چاہیے، کیونکہ بھارت نے بارہا تہران کو پاکستان مخالف ایجنڈے میں ایک ”مہرہ” کے طور پر استعمال کیا۔ چاہے وہ افغانستان کے تناظر میں ہو یا سی پیک کے مقابل منصوبے، بھارت کی حکمت عملی ہمیشہ”توازن”کے بہانے اصل ترجیحات کو چھپانے کی رہی ہے۔

