وفاقی حکومت نے اپنا آئندہ مالی سال کا بجٹ پیش کر دیا ہے،جس پر اپوزیشن نالاں اور حکومت واہ واہ کر رہی ہے۔ماہرین اس کے مختلف پہلوؤں پرتبصرے کررہے ہیں جبکہ سرمایہ کاروں کی جانب سے بجٹ تفصیلات کو مثبت لیے جانے کے بعد پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں تیزی کا رجحان جاری ہے، کے ایس ای 100 انڈیکس 2 ہزار 461 پوائنٹس یا 1.98 فیصد اضافے سے ایک لاکھ 24ہزار 486پوائنٹس کی ریکارڈ سطح پر جا پہنچا۔ایک بڑی تبدیلی یہ ہے کہ حکومت بجٹ کے مجموعی خسارے کو ملک کی کل آمدنی جی ڈی پی کے 3.9 فیصد تک کم کرنا چاہتی ہے جو کہ پہلے ہدف 5.9 فیصد سے کم ہے۔ صوبے جن پر عام طور پر وفاقی حکومت کے مالی مسائل میں اضافہ کرنے کا الزام لگایا جاتا ہے کیونکہ انہیں این ایف سی معاہدے کے تحت رقم کا بڑا حصہ ملتا ہے، اب وہ تقریبا 15 کھرب روپے کا کیش سرپلس فراہم کریں گے جو کہ گزشتہ مالی سال کے طے شدہ ہدف 10 کھرب روپے سے 50فیصد زیادہ ہے تاکہ قومی خسارے کو کم کرنے میں مدد ملے۔ حکومت نے تنخواہ دار طبقے کو ٹیکس میں کچھ ریلیف بھی دیا ہے لیکن وہ ایسا کرسکتی تھی کیونکہ اس نے قرض کی ادائیگی میں 10 کھرب روپے کی بچت کی ہے۔ یہ بچتیں اس لیے ہوئیں کیونکہ ملک میں شرحِ سود گزشتہ سال کم ہوئی ہے۔ ان بچتوں نے حکام کو ٹیکس میں رعایت کا مطالبہ کرنے والی طاقتور ریئل اسٹیٹ لابیوں کو ریلیف دینے کی بھی اجازت دی ہے۔ کہا جارہا ہے کہ یہ بجٹ ان لوگوں کے لیے مایوس کن ہے جو امید کر رہے تھے کہ گزشتہ ڈیڑھ سال میں آنے والا معاشی استحکام بڑی اور بامعنی اصلاحات کا باعث بنے گا تاکہ طویل مدت میں معیشت کی ترقی میں مدد ملے۔ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ بجٹ دستاویز میں کوئی مثبت بات نہیں۔ مثال کے طور پر یہ کسٹم اور درآمدی ٹیکس میں دیرینہ تبدیلیوں کی نوید سناتا ہے جو امید ہے کہ ان تبدیلیوں کا مقصد اگلے پانچ سالوں میں بعض صنعتوں کو حاصل استثنیٰ کو آہستہ آہستہ روکنا ہے جو حکومتی تعاون سے غیر منصفانہ فائدہ اٹھاتی ہیں۔ بجٹ میں نان فائلرز کی زیادہ سے زیادہ تعداد کو ٹیکس نیٹ میں لانے کی کوشش کی گئی ہے اور ایسا ایک خاص رقم سے زائد شیئرز خریدنے یا 850 سی سی سے بڑے انجن والی کاریں خریدنے جیسی چیزوں پر حد لگا کر کیا گیا ہے جہاں ٹیکس نہ دینے پر نان فائلرز کو پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس کے علاوہ بجٹ میں سابقہ فاٹا اور پاٹا کے علاقوں میں کاروبار کے لیے سیلز ٹیکس کی چھوٹ کو مرحلہ وار ختم کرنے کے لیے اقدامات کیے گئے ہیں جن کا مقصد پورے ملک میں قوانین کو منصفانہ بنانا ہے۔ اگرچہ وفاقی وزیر خزانہ نے کمپلائنٹ کارپوریٹ سیکٹر کی مشکلات کے بارے میں بات کی لیکن ان کی بجٹ تقریر غیر مساوی کارپوریٹ ٹیکس کی شرح کے مسئلے کو حل کرنے میں ناکام رہی جو سرمایہ کاری اور برآمدات کی ترقی میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ اگرچہ متنازع سپر ٹیکس کو قدرے کم کر دیا گیا ہے لیکن بجٹ میں کاروبار کو زیادہ مسابقتی بننے یا غیر ملکی سرمایہ کاروں کو راغب کرنے میں مدد کے لیے اہم اقدامات شامل نہیں ہیں۔یہ ایک بہت بڑا مسئلہ ہے کیونکہ صنعتیں جو کہ معیشت کا صرف 18 فیصد ہیں، تمام ٹیکسوں کا تقریبا 60 فیصد ادا کر رہی ہیں۔ اس بھاری ٹیکس کے بوجھ کی وجہ سے بڑے پیمانے پر مینوفیکچرنگ کم ہورہی ہے۔حکومت اپنے اڑان پروگرام کے تحت 5 سالوں میں برآمدات کو 100 ارب ڈالرز تک بڑھانا چاہتی ہے لیکن صنعتی پیداواری صلاحیت میں اضافہ اور ایف ڈی آئی کو راغب کیے بغیر اس ہدف کا حصول ممکن نہیں۔ بہت سے لوگ آئندہ سال کے 4.2 فیصد کے نمو کے ہدف کو حاصل کرنے کی حکومت کی صلاحیت کے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کر رہے ہیں جس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اس نے معیشت کے گہرے مسائل کو حل کرنے کے لیے ناکافی کام کیا ہے۔ استحکام لوٹ آیا ہے۔ کیا ترقی بھی استحکام کے ساتھ آئے گی؟اسلام آباد میں پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے مزید کہاکہ 2 ہزار 700 ٹیرف لائنز میں کسٹم ڈیوٹی کو کم کیا گیا ہے، جن میں سے 2 ہزار ٹیرف لائنز براہ راست خام مال سے تعلق رکھتی ہیں، اس کے نتیجے میں برآمدکنندگان کو فائدہ پہنچے گا کیونکہ اخراجات میں کمی آنے سے وہ مسابقت کے قابل ہوں گے اور زیادہ برآمدات کرسکیں گے۔ وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ تنخواہ دار طبقے کو ہر ممکن ریلیف دیا ہے، انہوں نے مزید کہاکہ یہ پہلے سال کے اعداد وشمار ہیں، آئندہ سالوں میں ٹیرف میں کٹوتی کو مزید آگے لے کر جائیں گے اور ٹیرف کے پورے نظام میں مجموعی طور پر 4 فیصد کمی کی جائے گی، اس طرح کی اصلاحات گزشتہ 30سال میں نہیں کی گئیں۔
ٹرمپ مسئلہ کشمیر پر کام کرنے کو تیار ہیں
امریکہ نے کہا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ہندوستانی مقبوضہ جموں و کشمیر کے معاملے پر ثالثی کرنا چاہیں گے۔محکمہ خارجہ کے ترجمان ٹیمی بروس سے پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ بندی کے بعد صدر کی جانب سے ثالثی کی پیشکش کے بارے میں پوچھا گیا۔امریکی محکمہ خارجہ نے بدھ کے روز امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مسئلہ کشمیر پر کام کرنے کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ جو بھی قدم اٹھاتے ہیں وہ ممالک کے درمیان نسلی اختلافات کو حل کرنے کے لیے اٹھایا جاتا ہے۔ڈونالڈ ٹرمپ نے مسئلہ کشمیر پر کام کرنے کی پیشکش کی تھی جب انہوں نے بھارت اور پاکستان کے درمیان کئی دہائیوں میں سب سے شدید فوجی تصادم کے بعد جنگ بندی میں ثالثی کی تھی۔امن کے حصول کیلئے ممالک کے رہنماں کی تعریف کرتے ہوئے ایک پیغام میں،انہوں نے ریمارکس دیئے،میں آپ دونوں کے ساتھ مل کر یہ دیکھوں گا کہ کیا ہزار سال کے بعد کشمیر کے حوالے سے کوئی حل نکل سکتا ہے۔ٹرمپ کی پیشکش کے تناظر میں امریکی اقدامات کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں محکمہ خارجہ کے ترجمان ٹیمی بروس نے وائٹ ہاس کی پریس بریفنگ کے دوران کہا کہ وائٹ ہاس کو اس معاملے کے بارے میں کہنا پڑے گا۔ ٹرمپ ہی وہ واحد شخص ہے جس نے کچھ لوگوں کو بات چیت کی میز پر لایا ہے جو کسی نے نہیں سوچا تھا،امید ہے کہ مسئلہ کشمیر بھی حل ہوسکتا ہے۔ یہ کسی کو حیران نہیں ہونا چاہئے کہ وہ اس طرح کا انتظام کرنا چاہتا ہے۔محکمہ خارجہ کے ترجمان ٹیمی بروس نے بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں پاکستانی پارلیمانی وفد نے محکمہ خارجہ کے اعلیٰ حکام سے ملاقات کی بھی تصدیق کی جس میں انڈر سیکرٹری برائے سیاسی امور ایلیسن ہوکر بھی شامل تھے ۔بروس نے کہا کہ بات چیت میں دہشتگردی کیخلاف تعاون اور پاک بھارت جنگ بندی کیلئے امریکی حمایت کا احاطہ کیا گیا۔ دونوں جماعتوں نے پاک امریکہ دوطرفہ تعلقات سے متعلق تعاون پر تبادلہ خیال کیا۔
سمندری دہشت گردی
اسرائیل کی طرف سے پیغام واضح ہے:جو بھی فلسطینی عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کرنے کی کوشش کرے گا خاص طور پر غزہ کی محصور اور بربریت کا شکار آبادی کو زبردستی روک دیا جائے گا ۔ کئی دہائیوں سے تل ابیب کی یہی پالیسی رہی ہے۔پیر کے روز،اسرائیلی فورسز کئی ممالک کے امن کارکنوں کو لے جانے والے ایک بحری جہاز میڈلین پر سوار ہوئیں،جو مقبوضہ پٹی میں انسانی امداد کی علامتی کھیپ لا کر غزہ کا محاصرہ توڑنے کی کوشش کر رہے تھے۔لیکن اسرائیل کے نزدیک فلسطینی بظاہر انسانی سلوک کے مستحق نہیں ہیں۔7 اکتوبر 2023 سے فلسطینی عوام کو جس نسل کشی کے تشدد کا سامنا ہے،اس سے یہ بہت کچھ ثابت ہو گیا ہے۔ یہ جہاز بین الاقوامی پانیوں میں سفر کر رہا تھااور اسرائیل کا پرتشدد قبضہ بلند سمندروں پر کی جانیوالی بحری قزاقی کی کارروائیوں سے مختلف نہیں ہے۔میڈلین پر سوار ہائی پروفائل مسافروں میں سویڈن کی ماحولیاتی کارکن گریٹا تھنبرگ اور یورپی یونین کی پارلیمنٹ کی فرانسیسی رکن ریما حسن بھی شامل تھیں۔متعدد حکومتوں،فلسطین میں اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے کیساتھ ساتھ انسانی حقوق کی تنظیموں بشمول ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اسرائیل کی جانب سے میڈلین کو وحشیانہ نشانہ بنانے کی مذمت کی ہے۔اس حقیقت کے باوجود کہ کئی یورپی ریاستوں کے شہری اس جہاز پر سوار تھے،اس کے باوجود زیادہ تر مغربی حکومتوں کی طرف سے بڑی حد تک خاموشی، یا تشویش کا اظہار ہے۔