کالم

بجٹ رے بجٹ تیری کون سی کل سیدھی

نیا وفاقی بجٹ ابھی پیش نہیں ہوا تھا خوف و ہراس اتناتھا کہ عوام کو ابھی سے بجٹ بخار چڑھاگیاہے ۔ شنیدہے کہ حکومت معاشی ترقی کا ہدف حاصل کرنے میں ناکام ہوچکی ہے ملک میں مہنگائی بڑھتی جارہی ہے یہ تو سب جانتے ہیں کہمصنوعی دعوؤں سے معیشت بہتر نہیں لائی جاسکتی اس کے لئے عملی اقدامات کرناپڑتے ہیں اشرافیہ کو قربانیاں دیناپڑتی ہیں پھربھی نہ جانے کیوں ہمارے لنڈے کے دانشور فلسفہ بگھاڑرہے ہیں کہ اس کا عوام پر کوئی ا ثر نہیں پڑے گا وفاقی وزیر خزانہ نے نوید سنائی کہ اب ہر کوئی مان رہا ہے کہ ملکی معیشت میں بہتری آچکی ہے، آنے والے بجٹ میں ایسی اصلاحات لا رہے ہیں جس سے ملک آگے بڑھ سکے گا حالانکہ زمینی حقائق یہ ہیں کہ بہتری صرف اشرافیہ کے حالات میں آئی ہے شاعر ِ انقلاب حبیب جالب نے تو بہت عرصہ پہلے بتادیا تھا
حالات وہی ہیں فقیروں کے
دن بدلے ہیں فقط وزیروں کے
ہر بلاول ہے دیس کا مقروض
پائوں ننگے ہیں بے نظیروں کے
اکثرکہاجاتاہے کہ پاکستان کا بجٹ IMF تیارکرتی ہے بلاشبہ مقروض ملکوںکی معیشت اور عوام کے ساتھ یہی سلوک ہوتاہے کیونکہ قرض عزت، غیرت،حمیت اور خودمختاری پر سب سے پہلے کاری ضرب لگاتی ہے پاکستان چونکہ ایک طویل عرصہ سے غیر ملکی قرضوں کے مایہ جال میں پھنسا ہوا ہے اس لئے جب تلک قرضوںسے جان نہیں چھوٹتی ترقی ممکن نہیں یہی وجہ ہے ہر سال ایک کروڑ سے زائد پاکستانی خط ِ غربت سے نیچے زندگی گذارنے پر مجبورہورہے ہیں اور ملک کی ظالم اشرافیہ ان کی بے بسی اور بے کسی کا تماشا دیکھ دیکھ کر محظوظ ہورہی ہے یہ ایک بڑی حقیقت ہے کہ پاکستان کیلئے ہمیشہغریب طبقے نے قربانیاں دیں عوام متحد ہو جائیں تو وہ طبقہ جو ٹیکس نہیں دیتا اس کو اب ٹیکس دینے پر مجبور کیا جاسکتاہے کیونکہ وڈیروں اور اشرافیہ کی آمدنی پر کوئی ٹیکس نہیں اب اشرافیہ کی باری ہے کے نعرے کو فروغ دیناہوگا کیونکہ آج پاکستان بدترین اقتصادی حالات سے گذررہاہے اس کے باوجود اشرافیہ ا پنی مراعات میں کمی یا اس سے دستبردار ہونے کو تیارنہیں یہی اس ملک کی سب سے بڑی بدقسمتی ہے۔ بہرحال زیراعظم محمد شہباز شریف نے کہا ہے کہ IMFسے بجٹ مذاکرات کامیاب رہے ہیں جس سے معیشت کیلئے نئی ترقیاتی منزل کا راستہ ہموار ہوا ہے جبکہ اصل صورت ِ حال یہ ہے کہ IMF مزید مطالبات سامنے آگئے یہ لوگ مطمئن ہی نہیں ہورہے۔ ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف نے مطالبہ کیا ہے کہ آئندہ وفاقی اور صوبائی بجٹ میں تمام طے شدہ شرائط پر عملدر آمد کیا جائے، صوبائی حکومتیں اخراجات کم کرنے کے اقدامات کی تحریری ضمانت دیں۔ صوبائی حکومتیں بجٹ میں کاروبار کا ماحول بہتر بنانے کے اقدمات کو یقینی بنائیں بجلی اور گیس پر کوئی سبسڈی فراہم نہ کریں، صوبائی حکومتوں کو رائٹ سائزنگ کر کے نئی ملازمتوں پر پابندی عائد کرنا ہو گی IMF نے مطالبہ کیا ہے کہ طے کردہ اہداف پر پارلیمنٹ میں موجود جماعتوں کو اعتماد میں لے کر ان کا حصول یقینی بنایا جائے بجلی، گیس چوری اور اسمگلنگ روکنے کیلئے وفاق اور صوبے مل کر عملی اقدامات کریں۔ IMF نے یہ مطالبہ بھی کیا ہے کہ صوبے زرعی آمدن اور خدمات پر ٹیکس وصولی کیلئے لائحہ عمل کو بجٹ کا حصہ بنائیں ادھرسالانہ پلان کوآرڈینیشن کمیٹی نے آئندہ مالی سال2025ـ26 کیلئے1000ارب روپے مالیت کے وفاقی ترقیاتی بجٹ، معاشی ترقی کا ہدف4.2 فیصد مقرر کرنے اور دیگر اہم معاشی اہداف کی منظوری دیدی ہے پاکستانی معیشت کے خدو خال یہ ہیں کہ بجٹ کی نصف سے زائد رقم قرضوں کی ادائیگی میں چلی جائے گی جس ے ترقیاتی کام شدید متاثر ہونے کا خدشہ ہے اسی لئے حکومت 118سے زائد غیر ضروری منصوبے بند کرنے پر مجبور ہوگئی ہیبھارت کی جانب سے پانی بند کرنے کی دھمکی کے باوجود حکومت نے پانی کے شعبے کا بجٹ 45 فیصد یا 119 ارب روپے کم کر کے محض 140 ارب روپے تجویز کیا ہے جو انتہائی خوفناک ہے۔ برآمدات کا ہدف 35 ارب ڈالر اور بیرونِ ملک پاکستانیوں سے 39 ارب ڈالر کی ترسیلاتِ زر کی توقع ہے ۔ وفاقی حکومت ترقیاتی منصوبوں کیلئے بیرون ملک سے270 ارب قرض لے گی اس کے علاوہ چاروں صوبے اور حکومت کے درمیان ہونے والے مذاکرات میں82ارب روپے کا بیرونی قرضہ لیں گے۔ پنجاب حکومت ترقیاتی منصوبوں پر1190 ارب خرچ کریگی۔ بہرحال نئے وفاقی بجٹ میں مجموعی آمدن کا تخمینہ 19 ہزار 400 ارب روپے لگایا گیا ہے جبکہ ایف بی آر کے ذریعے ٹیکس وصولی کا ہدف 14 ہزار 130 ارب روپے مقرر کیا گیا ہے قرضوں کی ادائیگی پر 6 ہزار 200 ارب روپے خرچ ہوں گے، جو بجٹ خسارے کے برابر ہیں۔ بجٹ خسارے کا ہدف بھی یہی 6200 ارب روپے رکھا گیا ہے۔IMF کی سخت شرائط اورمالی مشکلات کے پیش نظر حکومت نے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں 5 سے 7.5 فیصد اضافے کی تجویز دی ہے۔اتحادی جماعت پیپلز پارٹی نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ تنخواہوں اور پنشن میں10فیصدتک اضافہ کیا جائے اس تجویز سےIMF کو بھی آگاہ کیا گیا ہے مسلح افواج کے لئے اضافی مراعات دینے کی تجاویز بھی زیر غور ہیں جن میں تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ شامل ہے دفاعی بجٹ میں 18 فیصد اضافہ متوقع ہے۔ دوسری جانب تعلیم اور صحت کے شعبوں کیلئے نسبتاً کم فنڈز مختص کیے گئے ہیں۔ تعلیم کیلئے صرف 13 ارب 58 کروڑ روپے اور صحت کے لیے 14 ارب 30 کروڑ روپے رکھنے کی تجویز ہے۔ علاوہ ازیں ڈیجیٹل معیشت اور آئی ٹی سیکٹر کیلئے 16 ارب 22 کروڑ روپے مختص کیے جانے کا امکان ہے، جسے معیشت کے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش قرار دیا جا رہا ہے۔ عالمی مالیاتی فنڈ انکم ٹیکس کی شرح کم کرنے پر آمادہ ہو گیا ہے جس سے تمام سلیبز پر انکم ٹیکس کی شرح میں کمی کا امکان ہے، انکم ٹیکس ایکٹ کی شق 129 میں ترمیم زیر غور ہے، سالانہ ٹیکس فری آمدن کی حد 6 لاکھ سے بڑھائی جا سکتی ہے ماہانہ 83 ہزار روپے تنخواہ تک ٹیکس فری کرنے پر اتفاق ہوا جس سے ایک لاکھ روپے ماہانہ تنخواہ پر ٹیکس 5 فیصد سے کم ہو کر 2.5 فیصد ہونے کا امکان ہے جبکہ عوام کے لئے ایک بری خبر یہ بھی ہے کہ ملک بھر کے بجلی صارفین کو مالی سال 2025ـ26میں بجلی کی قیمتوں میں نمایاں اضافہ کرنا پڑ سکتا ہے کیونکہ آٹھوں سرکاری ڈسکوز گیپکو، میپکو، کیسکو، سیپکو، حیسکو، پیسکو، ٹیسکو اور ہزیکو نے مالی سال 2025ـ26کیلئے عبوری ریونیو تقاضے پیش کئے ہیں جن کی مجموعی مالیت کھربوں روپے تک پہنچتی ہے تمام سرکاری بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں (ڈسکوز) نے نیپرا سے اربوں روپے کی اضافی رقوم صارفین سے وصول کرنے کی اجازت مانگ لی ہے۔ بہرحال عوام یہ چاہتے ہیں بجٹ کی کوئی نہ کوئی کل سیدھی ہونی چاہیے تاکہ عام آدمی کو کچھ نہ کچھ ریلیف ملنا چاہیے نیا وفاقی بجٹ ابھی پیش نہیں ہوا لیکن خوف و ہراس اتناہے کہ عوام کو ابھی سے بجٹ بخار چڑھاگیاہے شنیدہے کہ حکومت معاشی ترقی کا ہدف حاصل کرنے میں ناکام ہوچکی ہے ملک میں مہنگائی بڑھتی جارہی ہے یہ تو سب جانتے ہیں کہ مصنوعی دعوؤں سے معیشت بہتر نہیں لائی جاسکتی اس کیلئے عملی اقدامات کرناپڑتے ہیں اشرافیہ کو قربانیاں دیناپڑتی ہیں پھربھی نہ جانے کیوں ہمارے لنڈے کے دانشور فلسفہ بگھاڑرہے ہیں کہ اس کا عوام پر کوئی ا ثر نہیں پڑے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے