کالم

بھارت میں تعلیمی نصاب سے مسلم حوالے حذف

بھارت میں نیشنل کونسل آف ایجوکیشنل ریسرچ اینڈ ٹریننگ (این سی ای آر ٹی) نے 12ویں جماعت کی سیاسیات کی نصابی کتاب میں کئی بڑی تبدیلیاں کرتے ہوئے بابری مسجد، ہندوتوا کی سیاست، 2002 کے گجرات فسادات اور اقلیتوں سے متعلق کئی حوالے ہٹا دیے ہیں ۔ اس کے علاوہ تاریخ کی کتاب میں ‘وادی سندھ کی تہذیب کی ابتدا اور زوال’ اور آریائی مہاجرت سے متعلق حقائق میں بھی تبدیلیاں کی گئی ہیں۔ نصاب میں کی گئی یہ تبدیلیاں اس اکیڈمک سیشن سے نافذ کی جائیں گی۔ سینٹرل بورڈ آف سیکنڈری ایجوکیشن کے تحت اسکولوں میں این سی ای آر ٹی کی نصابی کتابیں پڑھائی جاتی ہیں، جس سے ہندوستان میں تقریباً 30000 اسکول منسلک ہیں۔ پچھلے کچھ سالوں میں این سی ای آر ٹی نے نصاب میں بھی اس طرح کی بہت سی تبدیلیاں کی ہیں۔ پولیٹکل سائنس کی کتاب کے 8 ویں باب میں ‘ہندوستانی سیاست میں حالیہ پیش رفت’ سے ‘ایودھیا انہدام’ کا حوالہ ہٹا دیا گیا ہے۔ اس میں ‘سیاسی موبلائزیشن کےلئے رام جنم بھومی تحریک اور ایودھیا انہدام(بابری مسجد انہدام) کی میراث کیا ہے؟’ اسے تبدیل کر کے ‘رام جنم بھومی تحریک کی وراثت کیا ہے؟’ کردیا گیا ہے ۔مودی سرکار نے سوچی سمجھی حکمت عملی سے بابری مسجد اور ہندوتوا سیاست کا ذکر ہٹا یا۔ اس سے پہلے اس پیراگراف میں لکھا گیا تھا، ‘سلسلہ واقعات کے نتیجے میں ایودھیا میں متنازعہ ڈھانچہ (جسے بابری مسجد کہا جاتا ہے) دسمبر 1992 میں منہدم کر دیا گیا تھا۔ اس واقعے نے ملک کی سیاست میں بہت سی تبدیلیوں کا آغاز کیا اور ہندوستانی قوم پرستی اور سیکولرازم کی نوعیت کے بارے میں بحث کو تیز کر دیا۔ اس کے ساتھ ہی ملک میں بی جے پی کا ظہور ہوا اور ‘ہندوتوا’ سیاست تیز ہوئی۔’اب اس پیراگراف کو تبدیل کر کے نیا پیراگراف اس طرح لکھا گیا ہے، ‘ایودھیا میں رام جنم بھومی مندر کو لے کر برسوں پرانا قانونی اور سیاسی تنازعہ ہندوستان کی سیاست پر اثر انداز ہونے لگا جس نے کئی سیاسی تبدیلیوں کو جنم دیا۔ رام جنم بھومی مندر کی تحریک مرکزی مسئلہ بن گئی، جس نے سیکولرازم اور جمہوریت پر بحث کا رخ بدل دیا۔ سپریم کورٹ کی آئینی بنچ کے فیصلے کے بعد (9 نومبر 2019 )، ان تبدیلیوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایودھیا میں رام مندر بن گیا۔این سی ای آر ٹی نے اس تبدیلی کےلئے دلیل دی ہے کہ باب میں نئی تبدیلیوں کے ساتھ ہم آہنگی کےلئے سوالوں کو بھی تبدیل کیا گیا ہے۔ ادارے نے کہا ہے کہ یہ تبدیلی ‘سیاست میں حالیہ تبدیلیوں’ کو مدنظر رکھتے ہوئے کی گئی ہے۔گجرات فسادات کا حوالہ ہٹایا گیااین سی ای آر ٹی نے پانچویں باب میں بھی کچھ ایسی ہی تبدیلیاں کی ہیں۔ اس باب 5 میں ‘جمہوری حقوق’ (ڈیموکریٹک رائٹس)سے گجرات فسادات کا حوالہ ہٹا دیا گیا ہے۔ اس باب میں ایک ‘نیوز کولاڑ’ دیا گیا تھا جس میں گجرات فسادات کا ذکر کیا گیا تھا۔ پہلے اس پیراگراف میں لکھا تھا، ‘کیا آپ نے اس صفحہ پر نیوز کولاڑ میں نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن (این ایچ آر سی) کا حوالہ دیکھا؟ یہ حوالہ جات انسانی حقوق کے بارے میں بڑھتی ہوئی بیداری اور انسانی وقار کےلئے جدوجہد کی عکاسی کرتے ہیں۔ کئی علاقوں میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے بہت سے معاملات سامنے آئے ہیں، مثال کے طور پر گجرات فسادات کو پبلک نوٹس میں لایا گیا۔’اب اس پیراگراف کو تبدیل کر کے لکھا گیا ہے – ‘ملک بھر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے بہت سے معاملات پبلک نوٹس میں لائے گئے۔’گجرات فسادات کا حوالہ ہٹانے کے پس پردہ این سی ای آر ٹی کا استدلال یہ ہے کہ ‘نیوز کولاڑ اور اس کا مواد ایک ایسے واقعے کا حوالہ دیتا ہے جو 20 سال پرانا ہے اور اسے عدالتی عمل کے ذریعے حل کیا گیا ہے۔’نصاب میں بعض مقامات پر جہاں مسلم کمیونٹی کا ذکر ہے اس میں بھی تبدیلیاں کی گئی ہیں۔ پانچویں باب میں، ‘انڈراسٹینڈنگ مارجنلائزیشن’ سے مسلمانوں کو ترقی سے ‘محروم’ کرنے سے متعلق حوالہ ہٹا دیا گیا ہے۔اب تک اس پیراگراف میں لکھا تھا کہ 2011 کی مردم شماری کے مطابق، مسلمان ہندوستان کی آبادی کا 14.2 فیصد ہیں اور آج وہ ہندوستان کی دیگر کمیونٹی کے مقابلے میں ایک پسماندہ کمیونٹی تصور کیے جاتے ہیں۔ یہ لوگ برسوں سے سماجی و اقتصادی ترقی کے ثمرات سے محروم ہیں۔اب تبدیل شدہ پیراگراف میں لکھا گیا ہے – ‘2011 کی مردم شماری کے مطابق ہندوستان کی آبادی کا 14.2 فیصد مسلمان ہیں۔ وہ سماجی و اقتصادی ترقی میں نسبتاً کمزور ہیں اور اسی لیے انہیں حاشیہ پر رہنے والا طبقہ سمجھا جاتا ہے۔سندھ کی تہذیب کے 5000 سال تک نہ ٹوٹنے والے تسلسل پر زوراس حوالے سے انڈین ایکسپریس کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 12ویں جماعت کے طلباءکے لیے این سی ای آر ٹی کی تاریخ کی کتاب میں بہت سی تبدیلیاں کی گئی ہیں، جس سے اس حقیقت پر شک پیدا ہوتا ہے کہ آریائی ہندوستان آئے تھے۔ یہ تبدیلیاں بنیادی طور پر ہڑپہ تہذیب کے ‘5000 سال تک نہ ٹوٹنے والے تسلسل’ پر زور دیتی ہیں۔ آریائی مہاجرت کی تردید کے لیے راکھی گڑھی کے مقام پر کی گئی حالیہ آثار قدیمہ کی تحقیق کا حوالہ دیا گیا ہے اور یہ تجویز کیا گیا ہے کہ ہڑپہ کے لوگوں نے کسی قسم کا جمہوری نظام اپنایا تھا ۔ ہڑپہ تہذیب کے تسلسل پر زور دینے کےلئے این سی ای آر ٹی نے کتاب سے ایک اہم جملہ ہٹا دیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ‘ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ابتدائی ہڑپہ اور ہڑپہ تہذیب کے درمیان ایک گیپ یعنی فرق تھا، جو کچھ مقامات پر وسیع پیمانے پرآگ زنی سے صاف ہے اور کچھ بستیاں چھوڑے جانے سے بھی۔ قابل ذکر ہے کہ این سی ای آر ٹی نے نہ صرف 12ویں جماعت کی تاریخ کی کتاب میں تبدیلیاں کی ہیں بلکہ چھٹی سے 12ویں جماعت کی تاریخ، سیاسیات اور سماجیات کی کتابوں میں بھی کئی تبدیلیاں کی گئی ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri