کالم

بھارت میں ہندوتوا نظریات کا فروغ

ہندوتوا نظریے کے زیرِ اثر بھارت میں اقلیتوں کے خلاف مذہبی تعصب اور نفرت انگیزی میں تشویشناک حد تک اضافہ ہو گیا ہے جس سے نام نہاد سیکولر ریاست کا تصور بری طرح متاثر ہو رہا ہے۔انتہا پسند عناصر کی جانب سے مسلم اور مسیحی برادری کی مذہبی آزادی پر مسلسل حملے کیے جا رہے ہیں جس کے باعث بھارت اقلیتوں کے لیے ایک غیر محفوظ ملک بنتا جا رہا ہے۔ دہلی میں انتہاپسند ہندو تنظیم بجرنگ دل کے کارکنوں نے مسیحی خواتین اور بچوں کو مذہبی تہوار منانے سے روک دیا۔ سانتا کلاز کے لباس میں ملبوس مسیحی خواتین اور بچوں کو عوامی مقامات پر ہراساں کیا گیا اور انہیں زبردستی وہاں سے بے دخل کر دیا گیا، بجرنگ دل کے شرپسندوں نے توہین آمیز رویہ اختیار کرتے ہوئے متاثرہ خاندانوں کو واپس گھروں کو جانے پر مجبور کیا۔ بجرنگ دل ماضی میں بھی کرسمس کے مواقع پر مسیحی برادری کو خوف و ہراس میں مبتلا کرنے میں ملوث رہی ہے، گزشتہ برس مدھیہ پردیش، مہاراشٹر، اتر پردیش، اتراکھنڈ، گجرات اور ہریانہ میں بھی مسیحی برادری کے خلاف ہراسگی کے متعدد واقعات رپورٹ ہو چکے ہیں۔اسی طرح ممبئی میں کرسمس کے ایک پروگرام کے دوران معصوم بچوں کو زبردستی ہنومان چالیسہ پڑھنے پر مجبور کرنے کا واقعہ بھی سامنے آیا تھا۔ عالمی جریدے دی ڈپلومیٹ کے مطابق بھارت میں مسلم اور مسیحی برادری کے خلاف انتہاپسندانہ واقعات خطرناک حد تک بڑھ چکے ہیں۔ 2014 میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے اقتدار میں آنے کے بعد اقلیتوں کے خلاف مظالم میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔دی ڈپلومیٹ نے یہ بھی انکشاف کیا کہ ہندو انتہا پسند عناصر مسلم اور مسیحی شہریوں کو بھارتی شہری تسلیم کرنے کے بجائے انہیں عرب اور فلسطینی ریاستوں سے جوڑنے جیسے نفرت انگیز بیانیے کو فروغ دے رہے ہیں۔مبصرین کے مطابق ہندوتوا نظریے کے زیرِ اثر بھارت میں اقلیتوں کی مذہبی آزادی کو منظم انداز میں کچلا جا رہا ہے جو خطے میں سماجی ہم آہنگی اور انسانی حقوق کے لیے ایک سنگین خطرہ بن چکا ہے۔ ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے برسر اقتدار آنے کے بعد سے برصغیر کی تاریخ کو حکمراں گروہ کے ہندوتوا نظریے کے مطابق ڈھالنے اور جدید سائنس کی تحقیر اور اس کی اہمیت کم کرنے کی مسلسل کوشش ہو رہی ہیں۔ نئی تعلیمی نیشنل ایجوکیشن پالیسی 2020 کے اطلاق نے تو ان کوششوں کو ایک طرح سے لائسنس فراہم کر دیا ہے۔دنیا بھر میں تعلیم سے متعلق پالیسیاں معاشی خوشحالی، مثالی شہری بنانے نیز سائنسی مزاج پیدا کرنے کی بنیاد پر استوار کی جاتی ہیں۔ تاہم بھارت میں اس کا محور ‘پراچین سبھیتا’ یعنی قدیم تہذیب اور قدیم علوم ہیں۔ہر مرض کے علاج کے حوالے سے یوگا اور قدیم طریقہ علاج کے پوسٹر بوائے بابا رام دیو اور انڈین میڈیکل ایسوسی ایشن کے درمیان جاری بالا دستی کی جنگ کو اسی تناظر میں دیکھاجانا چاہیے۔ اسی طرح حکمران جماعت کے بعض ارکان پارلیمان اور اسمبلی کھلے عام گائے کے پیشاب سے علاج کی تلقین کر رہے ہیں۔ بی جے پی کی رکن پارلیمان پرگیہ ٹھاکر کا آئے دن اس بارے میں بیان آتا رہتا ہے۔ جدید سائنس کا کس طرح مذاق اڑایا جا رہا ہے، میں اس کی یہاں ایک واضح مثال کے طور پر خود بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی اس تقریر کے ایک اقتباس کو نقل کیا جاتا ہے ، جو انہوں نے انڈین سائنس کانگریس کے 2019 کے سالانہ اجلاس کا افتتاح کرتے وقت کی تھی۔ وزیراعظم مودی کا کہنا تھا، ”نیوٹن نے قوت کشش ثقل کو صحیح طور پر نہیں سمجھا، البرٹ آئن سٹائن نے دنیا کو گمراہ کیا، بھارت نے ہزاروں سال پہلے ٹیسٹ ٹیوب بی بی اور پلاسٹک سرجری ایجاد کی تھی۔بھارت کے قومی تعلیمی ادارے این سی ای آر ٹی اور صوبائی تعلیمی بورڈز کے تعلیمی نصابوں میں ایسا مواد شامل کیا گیا ہے، جس کے نتیجے میں ایک مخصوص فرقے اور ایک ہمسایہ ملک کے خلاف نفرت پیدا ہونا فطری عمل ہے۔ بطور مثال گجرات میں آٹھویں کلاس کی تاریخ میں درج ہے کہ دہلی کا قطب مینار ہندو بادشاہ سمندر گپت نے تعمیر کیا اور اس کا اصل نام ویشنو استھمب تھا۔ اسی طرح تاج محل اور مسلم ادوار حکومت کی دیگر عمارتوں کے بارے میں اسی نوع کی بے بنیاد باتیں پھیلائی گئی ہیں اور جاری ہیں۔ مثلاً جنوبی بھارت کے صوبہ کرناٹک میں ایک نصابی کتاب میں گائے کا تقدس بڑھانے کے حوالے سے ایک عجیب و غریب واقعہ شامل ہے، جس میں ایک شیر اس بات کا عہد کرتا ہے کہ وہ آئندہ کبھی گائے کا گوشت نہیں کھائے گا۔جواہر لعل یونیورسٹی کے سابق استاد اور ممتاز تاریخ داں پروفیسر ڈی این جھا، جن کا حال ہی میں انتقال ہوا ہے، نے اپنی کتاب قدیم ہند میں کھانے کی عادات پر مفصل لکھا ہے۔ اس میں انہوں نے ہندو مقدس کتابوں کے حوالے سے اس بات کو اجاگر کیا کہ ”ویدک دھرم میں گائے کو ذبح کرنا ممنوع نہیں تھا اور گائے کے گوشت سے مہمانوں کی تواضع کرنے کو توقیر کی نگاہ سے دیکھاجاتا تھا۔” انہوں نے لکھا کہ گائے کے گوشت پر پابندی لگانی ہے تو تمام مقدس کتابوں سے پرانے مواد کو ہٹانا پڑے گا۔ مزید برآں یہ کہ بھارتی حکمراں جماعت کی سرپرست آر ایس ایس کے تحت چلنے والے چھ ہزار سے زائد اسکولوں میں، جو سرکاری امداد پر چلتے ہیں، معصوم ذہنوں کو مسموم کیا جاتا ہے۔ نیز ششو مندروں (بچوں کے اسکولوں) کی تعداد بھی ہزاروں میں ہے۔ ان میں کیا پڑھایا جاتا ہے وہ ملاحظہ کریں، ”بر صغیر میں مسلمان بادشاہوں کا مقصد ہندوؤں کی نسل کو ختم کرنا تھا۔ افغانستان میں تمام ہندو قتل کر دیے گئے تھے۔ دکن کی سلطنت نے ہر سال ایک لاکھ ہندوؤں کو قتل کرنے کا ہدف مقرر کیا تھا”۔بھارت کے ممتاز مورخین اور دانشوران ایک عرصے سے یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ تعلیمی نصاب اور تاریخ کی کتب سے زہریلے مواد کی تطہیر کے لیے ایک نیشنل کمیشن قائم کیا جائے۔ تاہم نئی قومی تعلیمی پالیسی اس پر خاموش ہے۔ بلکہ اس میں پورے تعلیمی نظام کو حکمراں جماعت کے نظریے کا جامہ پہنانے کا انتظام کیا گیا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے