کالم

تفصیلی فیصلے نے نیا بحران کھڑا کر دیا

دل کے پھپھولے جل اٹھے سینے کے داغ سے
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے
ہر روز ایک نیا کٹا کھل جاتا ہے۔اس وقت نہ ہی ہمارے سیاسی رویے ٹھیک ہیں اور نہ ہی عدالتی رویے اور انکے فیصلے ۔ یہ ہم سب کےلئے ایک لمحہ فکریہ ہے۔ 20ستمبر بروز جمعہ چیف جسٹس کی عدالت میں کیس کے دوران اسلامی یونیورسٹی کے ریحان الدین خان سینئیر ایڈووکیٹ اور چیف جسٹس کے مابین تلخ کلامی ہوئی جس کے بعد چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے انہیں پولیس کو بلا کر عدالت سے ہی باہر نکال دیا۔یہ ایک افسوسناک واقع تھا۔ عدالتی رویہ سے پیشگوئی تھی کہ ایسا ایک نہ ایک دن ہوگا۔ پھر ہوا۔ یوں تو وکلا کورٹ افسر کہلاتے ہیں۔ ججز اور ان میں نام اور کام کا فرق ہوتا ہے۔ یہ ایک سکہ کے دورخ ہیں۔ عدالتیں ججز اور وکلا کے بغیر ادھوری ہیں ۔ جب پولیس کے ذریعے سپریم کورٹ کے سینئیر وکیل کو نکالا گیا تو کورٹ میں موجود کسی سپریم کورٹ کے وکیل نے چیف جسٹس کو ایسا کرنے سے منع نہیں کیا کہ جناب ایسا برتاو¿ وکلا کےساتھ سے نہ کریں۔ ایسا کرنا آپ کو زیب نہیں دیتا۔طاقتور وہ کہلاتا ہے جو غصہ برداشت کرتا ہے۔ وکلا بھی ججز کے رویوں کو برداشت کرتے ہیں ۔ججز کو اپنے رویوں پر خود غور کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔ سوچنا ہو گا کہ اب تک کتنے وکلا اور لا افسران سے کیس کے دوران تلخ کلامی جرمانے کر چکے ہیں۔ یاد رہے آپ وکلا کی تربیت کرنے نہیں آتے کیس سن کر فیصلے کرنے آتے ہیں۔ ججز کا کام بولنا نہیں سن کر فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔یہ طاقت نہیں کہ جرمانے کئے جائیں کورٹ سے باہر نکال دیا جائے۔آپ اچھی یادیں چھوڑ کر جائیں۔ قصور میرا یا تیرا یہ کوئی نہیں دیکھتا ایکشن دیکھا جاتا ہے۔احتیاط کریں اگر کسی کو دوسرے کی کوئی بات پسند نہیں بری لگتی ہے تو درگزر سے کام لیں ۔امام شافعی کا یہ واقع یاد آ رہا ہے جو مجھے بابا کرمو نے سنایا تھا۔ ؛ امام شافعی کے ایک شاگرد کا نام یونس تھا، اس طالب علم کا امام صاحب سے کسی مسئلہ میں اختلاف ہو گیا، اختلاف رائے دینے کے بعد وہ طالب علم غصے سے اٹھا اور اس دن کلاس ادھوری چھوڑی، اپنا سبق ادھورا چھوڑا اور اپنے گھر چلا گیا !جب رات ہوئی تو شاگرد کے دروازے پر دستک ہوئی۔ جب دروازہ کھول گیا تو سامنے استاد محترم کھڑے تھے۔ امام شافعی نے فرمایا: "اے یونس!سینکڑوں باتیں ہمیں باہم متحد کرتی ہیں اور صرف ایک مسئلہ ہمیں جدا کرتا ہے۔اوہ یونس، تمام اختلافات میں اپنے ہم مذہبوں سے جیتنے کی کوشش نہ کریںکبھی کبھی دلوں کو جیتنامناظرہ اور بحث جیتنے سے زیادہ اہم ہوتا ہے،اوہ یونس، ان قیمتی تعلقات کو تباہ نہ کرو جو تم نے دوسروں کے ساتھ خوشگوار لمحات میں بنائے ہیں اور ایک دن تمہیں اپنے ان ساتھیوں کے پاس واپس آنے کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ میں ہمیشہ غلطی سے نفرت کرتا ہوں لیکن غلطی کرنے والے سے نفرت نہیں کرتااورمعصیت سے دل سے نفرت کرو لیکن گنہگارکو معاف کر کے اس پر رحم کر! اے یونس کہنے والے کی بات ” پر تنقید کرلو مگر کہنے والے کی عزت اور اس کا ادب کرو ہمارا مشن بیماریوںکو ختم کرنا ہے نہ کہ بیماروںکو ختم کرنا!یہ امام شافعی کی نصیحت ہم سب کیلئے ہے ۔ موجودہ صورتحال سے لگتاہے کچھ نہ کچھ ترمیم ہو جائے گی۔ شائد اب مولانا کی بھی ضرورت نہ پڑے، صورتحال یہ ہے کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا ریٹائرڈ ہونے کا وقت قریب دکھائی دیتا ہے ۔ اگر ترمیم نہیں ہوتی تو پھر جسٹس منصور علی شاہ صاحب ہی اگلے چیف جسٹس ہونگے لیکن ترمیم کے آنے کے بعد ان کا چیف جسٹس بننا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے۔ ترمیم کے بعد پھر پانچ ججزسے سلیکشن ہو گی اور پانچویں جج چیف جسٹس ہونگے ۔ویسے بھی بارہ جولائی کا آٹھ ججز کا شارٹ آڈر جو جسٹس منصور علی شاہ صاحب نے لکھا ہے وہی آڈر ان کے رستے کی رکاوٹ بنا ہے کیونکہ یہ فیصلہ آئین اور قانون کے مطابق لکھا نہیں گیا۔ اسی بنچ کے دو ججز لکھتے ہیں کہ انہوں نے ایسا فیصلہ لکھ کر قانون اور آئین کی خلاف فرضی کی ہے۔ اب آئین کہتا ہے جو آئین کی خلاف ورزی کرتا ہے اس پر آرٹیکل چھ لگتا ہے۔ ماضی میں جن پر یہ آرٹیکل چھ لگنا تھا۔لگایا نہیں گیا اگر یہ لگایا جاتا تو آج عدالتوں کی یہ حالت نہ ہوتی۔ اس کے قصوروار کچھ جج صاحبان خود ہیں۔ اقلیتی فیصلے کے شارٹ آڈر کو آئے ہوئے 80 دن گزر چکے ہیں مگر ابھی بھی اس کا تفصیلی فیصلہ نہیں آیا۔ اس کی ان ججز کو کوئی پرواہ نہیں۔شارٹ آڈر لکھ کر چھٹیاں گزارنے ملک سے باہر چلے گئے تھے۔ کیا یہ چھٹیاں گزارنے گئے تھے یا کسی سے مشورہ لینے؟۔حالات کو دیکھتے ہوئے ایک ترمیم یہ لانا بھی ضروری ہے کہ سروس کے دوران کوئی بھی سرکاری ملازم ملک سے علاج کرانے کے بہانے یا چھٹیاں منانے نہیں جایا کریگا۔کچھ اپنی پاور کا فائدہ اٹھاتے ہوئے فارن جا کر فارن کی نیشلیٹی اور بزنس سیٹ کر اتے ہیں پھر ریٹائرمنٹ کے فوری بعد فارن فیملی سمیت شفٹ ہو جاتے ہیں۔آٹھ ججز کا زور اس پر ہے کہ سپریم کورٹ کے اس شارٹ آڈر پر الیکشن کمیشن عمل کرے ورنہ نتائج کےلئے تیار رہے۔ اب ضرورت اس بات کی تھی کہ جو کچھ ان آٹھ ججز نے لکھا اس پر وکلا کے لیگل فورم احتجاج کرتے مگر ان کا بھی زور اپنی سیاسی جماعت کیلئے ہے کہ اس پر عمل کریں جبکہ ان کا شارٹ آڈر وہ ہے جو اس سیاسی جماعت نے کیس کے دوران وہ کچھ مانگا ہی نہیں تھا۔جو ان ججز نے انہیں دے دیا ہے۔ یہاں ان ججز کا قانونی آئنی فیصلہ نہیں تھا۔ان کے خلاف آواز اٹھانے کی ضرورت تھی لیکن غلط فیصلے پر لڈیاں ڈالی گئیں اگر جسٹس منصور علی شاہ چیف جسٹس بن جاتے ہیں تو پھر کھوسہ، نثار ، گلزار اور بندیال کا تسلسل برقرار رہتا جو عوام کو منظور نہیں ۔اب سپیکر اسمبلی نے الیکشن کمیشن کو خط لکھا ہے کہ اسمبلی کے ممبران کی تعداد کو پورا کیا جائے۔ ایسا ہی خط اب پنجاب اور سندھ اسمبلی کے سپیکر بھی الیکشن کمیشن کو لکھ چکے ہیں۔ان حالات میں الیکشن کمیشن اپنا فیصلہ وہی رکھے گا جس میں یہ سیٹیں دوسری جماعتوں میں تقسیم کر دی تھیں۔ الیکشن کمیشن اپنے پہلے فیصلے پر عمل کرے گا اگر ایسے ہو جاتا ہے تو پھر یہ حکومت کو ترمیم لانے کیلئے کسی کی مدد لینے کی ضرورت نہیں رہے گی پھر ترمیم ہو ہی جائے گی۔ ایس کے نیازی صاحب کے ٹاک شو میں جب سابق صدر بار اور ممبر پاکستان بار کونسل عابد زبیری نے اس شو میں بتایا کہ ہم نے سپریم کورٹ میں پٹیشن اسمبلی میں ترمیم کےخلاف دائر کر دی ہے جس پر میرا جواب یہ تھا کہ ان کا ایسے کرنا پانی میں تلوار مارنا ہی کہہ سکتے ہیں۔ پھر ایسا ہی ہوا اب یہ پیٹشن ردی میں مل سکتی ہے۔جمہوری معاشرے میں آہنی ترمیم کو روکنا غیر جمہوری فعل قرار دیا جاتا ہے۔ اسمبلیوں کا کام ہی آئین سازی کرنا ہوتا ہے۔ لہٰذا اگر بہتری کےلئے ترمیم کی جاتی ہے تو اس میں کیا برا ہے۔ کچھ کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ میں سیاسی آئینی بنچ بنائیں جائیں۔ الگ سے آئنی عدالتیں، نہ بنائیں۔ ایسے تو پہلے بھی ہو رہا ہے لاجر بنچ سیاسی کیسوں میں بنتے ہیں مگر روٹین کے کیس رک جاتے ہیں۔ لہٰذا کیسوں کے بیگ لاگ کو ختم کرنے کےلئے نئی آئنی عدالتیں مرکز اور صوبوں میں بننا ضروری ہیں ۔ ایسا کرنے سے کام میں تیزی آئے گی۔ ملک کی بعض ہائی کورٹ میں روز کی کاز لسٹ دو سو کے قریب ہوتی ہے وہاں ججز چار بجے تک کام کرتے ہیں۔ ملک کی تمام عدالتوں میں کاز لسٹ کم از کم سو کیسوں کی ہونی چاہیے پھر ہی کیس کم ہو سکتے ہیں ورنہ نہیں۔ ابھی تفصیلی فیصلے نے ایک نیا عدالتی بحران پیدا کر دیا ہے۔ اس بحران میں ججز الیکشن کمیشن اور اسمبلیاں آمنے سامنے ہو نگیں۔ اس پر افسوس ہی کیا جاسکتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے