طارق فاروق میرے لیے ایک دوست سے زیادہ ہم درد، ہم درد سے زیادہ خیر خواہ اور
خیرخواہ سے زیادہ ایک فرشتے کی حیثیت رکھتا تھا۔خوش مزاج ایسا کہ کبھی کسی بھی حالت اور کسی بھی کیفیت میں اس کی حس مزاح ماند نہ پڑتی۔ہمیشہ صورت حال کا روشن پہلو دیکھتا، وہ کہنے سے زیادہ کرنے پر یقین رکھتا تھا۔ ہماری ملاقاتوں میں تسلسل کبھی نہیں رہا۔یونیورسٹی میں طارق فاروق کا کام اور شعبہ مختلف تھا ۔
لیکن ہم ایک دوسرے سے باخبر ضرور رہتے ۔1985 میں جب میں یونیورسٹی کا حصہ بنا تو شروع میں جن لوگوں سے تعارف اور تعلق استوار ہوا ،ان میں طارق فاروق بھی شامل تھا۔اس وقت یونیورسٹی چار بلاک ، ایک آئی ای ٹی بلڈنگ ، آڈیٹوریم اور لائبریری پر مشتمل تھی ۔بلاک نمبر دو کے فرسٹ فلور پر شعبہ اقبالیات اور شعبہ اردو جبکہ سیکنڈ فلور پر ٹائپنگ پول کے نام سے "آزاد و خودمختار” لوگوں کا شعبہ تھا۔یونیورسٹی میں جس شعبے کو بھی اردو کمپوزنگ کا کام ہوتا ،وہ ٹائپنگ پول سے رجوع کرتا۔اس پول کے انچارج نہایت درجہ سادہ اور نیک انسان تھے ،باریش تھے، اسم گرامی محمد امین تھا اور تعلق اوکاڑے سے ،لیکن شرافت کی حد بلکہ سرحد کے اندر رہنے والے ۔ کسی مسجد کے جزوقتی امام بھی تھے ، ہر وقت
سنجیدہ رہنے کا ناٹک کرتے ، یہ صرف طارق فاروق ہی تھا جو ان کی ہنسی کو باہر نکال کر سرعام اس کی نمائش کرنے کی قدرت رکھتا تھا۔ مجھے اردو کمپیوزنگ کا ایک کام تھا اس وقت انگلش ٹائپسٹ تو ہر شعبے میں ہوتے تھے ۔پر اردو ٹائپسٹ صرف ٹائپنگ پول میں پائے جاتے تھے۔ میں نے آفیشل ڈاک بنا کر بھیج دیا ،ساتھ ہاتھ سے لکھا ہوا ڈرافٹ بھی تھا۔یہ کام مجھے اگلے روز ملنا چاہیئے تھا، لیکن نہیں ملا۔نائب قاصد کو بھیجا تو واپس آکر کہنے لگا کہ سب کے پاس پوری کی پوری کتابیں کمپوز کرنے کے لیے پڑی ہیں ، کہتے ہیں کہ انتظار کریں۔میں اٹھا اور سیڑھیاں چڑھ کر اردو ٹائپنگ پول کے بڑے کمرے میں جا پہنچا۔شور مچا ہوا تھا اور فرش پر دو لوگ کشتی کی حالت میں زور آزمائی کر رہے تھے۔بقیہ اپنے اپنے پہلوان کو داد دے رہے تھے۔لیکن مجھے دیکھتے ہی سب چپ اور کشتی کسی فیصلے کے بغیر ختم ہو گئی۔اب دروازے کے سامنے میں کھڑا تھا اور کمرے کے سارے ٹائپسٹ مجھے دیکھ رہے تھے۔میں نے دوبارہ بلند آواز میں سلام کیا ۔اور بتایا کہ میرا یہ نام ہے اور میں اقبالیات میں لیکچرار ہوں۔ آپ چاہیں تو کشتی جاری رکھ سکتے ہیں۔کام تو ہوتا رہے گا۔ان میں سے ایک "پہلوان” بولا سر جی یہ کشتی نہیں تھی ، لڑائی تھی۔ وجہ ؟ دوسرا پہلوان زور سے ہنسا اور بولا سر کوئی وجہ نہیں ۔ بس مذاق کر رہے تھے۔چلو بھئی اپنا اپنا کام کرو سارے۔یہ کشتی میں حاوی فریق طارق فاروق تھا ۔پھر پوچھنے لگا کہ کامران صاحب کا کام کس کے پاس ہے ۔فائل لی ، اور دو منٹ میں کام مکمل کر کے میرے حوالے کیا اور کہا سر آیئندہ کوئی کام ہو تو ہمیں بلوا لیا کریں آپ کو زحمت کرنے کی ضرورت نہیں ۔میں نے شکریہ ادا کیا اور پوچھا کہ ویسے میں یہاں آنے کی زحمت کیوں نہ کروں؟ کیونکہ سر جی یہاں کبھی کبھی جانور آ جاتے ہیں اس لیے ۔توں باز نیئں آنا ۔۔ ۔اور کشتی(دراصل زور آزمائی)پھر شروع ۔ بہت بعد میں پتہ چلا کہ طارق فاروق نے اپنے ایک کولیگ کا نام مضبوط دلائل کے ساتھ ”کھوتا“رکھا ہوا تھا ،لیکن وہ یہ نام کبھی کبھی کسی معقول وجہ سے استعمال کرلیتا تھا۔ اس کے بعد طارق فاروق سے مراسم بڑھتے گئے، ہمارا دائرہ کار مختلف لیکن ادارہ ایک تھا۔ ایک بار میں نے سرسری سا ذکر کیا کہ میں گھر میں کتابیں رکھنے کے لیے دو بڑے بک ریک بنوانا چاہتا ہوں ۔آپ ذرا مجھے ان کی اندازا لاگت کا پتہ کر کے بتاو۔میرے سامنے کاغذ رکھ کر کہنے لگا کہ سر جی ذرا ڈرائینگ بنا کر سمجھائیں کہ کس طرح کے بک ریک بنوانا چاہتے ہیں۔ تاکہ کارپینٹر سے صحیح اندازہ لگوایا جا سکے۔میں نے کچھ نقشے سے بنائے۔وہ غور سے دیکھتا رہا ۔ہم نے مختلف کتابوں کے مختلف سائز کو سامنے رکھ کر بک ریک کے خانوں کے باہم فاصلے کا تعین بھی کیا ۔یہ محض ایک مشورہ تھا۔مجھے کچھ اندازہ نہیں تھا کہ اس کام پر کتنی لاگت آ سکتی ہے۔طارق کہنے لگا کہ آپ فکر نہ کریں ،میں پتہ کر کے بتاتا ہوں۔ بات آئی گئی ہوگئی ۔میں بک ریک کی لاگت کے اندازے والا قصہ بھول گیا۔طارق بھی اپنی مصروفیات میں مگن رہا۔جب سے ہمیں اپنے اسٹاف میں اردو کمپورز مل گئے تھے ،تب سے ٹائپنگ پول ۔۔ ۔ (جاری)
کالم
جس کا فون نمبر میرے پاس محفوظ ہے
- by web desk
- اکتوبر 30, 2024
- 0 Comments
- Less than a minute
- 206 Views
- 6 مہینے ago