کالم

جنگوں پرنہیں انسانیت پرخرچ کریں

دنیا میں امن قائم نہ ہو تو ترقی، خوشحالی اور انسانیت کی فلاح ایک خواب بن کر رہ جاتی ہے۔ آج کے ترقی یافتہ دور میں جب انسان چاند، مریخ اور کہکشائوں کی وسعتوں کو چھو رہا ہے، وہیں کرئہ ارض پر کروڑوں لوگ غربت، بھوک، بیماری، جہالت اور رہائش کی محرومی کا شکار ہیں۔ اس افسوسناک صورتِ حال کی ایک بڑی وجہ دنیا میں جاری مسلح تصادم، جنگی جنون، اور فوجی اخراجات ہیں۔ جنگوں پربے پناہ وسائل خرچ کرنے کی بجائے تعلیم، صحت، خوراک، ماحولیاتی تحفظ اور غربت کے خاتمے پر خرچ کیے جائیں تو دنیا جنت نظیر اور امن کا گہوارہ بن سکتی ہے۔دنیا کے بیشتر ممالک، خصوصاً سپر پاورز، ہر سال اپنے دفاعی بجٹ میں اربوں ڈالر مختص کرتی ہیں۔ 2024 میں دنیا بھر میں فوجی اخراجات کا مجموعی تخمینہ 2.4 ٹریلین ڈالر سے تجاوز کر چکا ہے۔ان میں امریکہ، چین، روس، بھارت، برطانیہ ، پاکستان،عرب ممالک،ترکیہ اور دیگر بہت سارے ملک شامل ہیں۔جووسائل جدید اسلحہ، میزائل،جنگی جہازوں، ایٹمی ٹیکنالوجی اور دیگر خطرناک ہتھیاروں پر خرچ کیے جاتے ہیں ۔ یہی رقم انسانیت کی فلاح پر خرچ کی جائے تونہ صرف دنیامیں پائیدارامن قائم ہوسکتاہے بلکہ دنیا سے غربت، بھوک اور لاعلاجی کے خاتمے میں بڑی پیش رفت ممکن ہوسکتی ہے۔اقوام متحدہ کے مطابق دنیا میں ہر 9 میں سے 1 انسان روزانہ بھوکا سوتا ہے۔ دنیا کے صرف 10 فیصد فوجی اخراجات خوراک کی فراہمی پر خرچ کیے جائیں، تو دنیا سے بھوک کا مکمل خاتمہ ممکن ہے۔آج بھی دنیا کے کئی ممالک میں بنیادی صحت کی سہولیات ناپید ہیں۔ جنگی بجٹ کا ایک چھوٹا حصہ ہسپتالوں، ویکسینز، صاف پانی اور ماں و بچے کی صحت پر خرچ ہو تو لاکھوں جانیں بچائی جا سکتی ہیں۔دنیا میں کروڑوں بچے اسکول جانے سے محروم ہیں۔ تعلیم صرف ایک فرد نہیں بلکہ پوری قوم کو سنوارتی ہے۔ تعلیم پر سرمایہ کاری کی جائے تو دنیا کی سوچ بدلے گی، شدت پسندی ختم ہوگی اور امن کی بنیاد مضبوط ہو گی ۔ ماحولیاتی تبدیلی، گلوبل وارمنگ، اور قدرتی آفات پوری انسانیت کے لیے خطرہ بن چکے ہیں۔ جنگی اخراجات کو ماحول دوست توانائی، درختوں کی شجرکاری اور ماحولیاتی تحفظ پر خرچ کیا جائے تو زمین کو تباہی سے بچایا جا سکتا ہے۔امن نہ صرف ترقی کی ضمانت ہے بلکہ ایک ایسی فضا پیدا کرتا ہے جہاں محبت، برداشت، تعاون اور خوشحالی پروان چڑھتی ہے۔ وہ ممالک جنہوں نے جنگ کی بجائے امن کا راستہ چنا، آج ترقی یافتہ اور خوشحال ہیں۔اسلام اور دنیا کے تمام مذاہب امن، بھائی چارے اور انسانی خدمت کا درس دیتے ہیں۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے۔”جس نے ایک انسان کی جان بچائی، گویا اس نے پوری انسانیت کو بچا لیا۔”(سورة المائدہ: 32)اسی طرح کی تعلیمات عیسائیت، بدھ مت، ہندومت اور دیگر مذاہب میں بھی پائی جاتی ہیں۔ بدقسمتی سے انسانیت کے اصل دشمن ہتھیار بیچنے والے طاقتور گروہ اور مفاد پرست سیاستدان بن چکے ہیں۔دنیا کو اب یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ آنے والی نسلوں کو جنگ زدہ، تباہ حال زمین دے گی یا امن، ترقی اور خوشحالی کا روشن مستقبل۔ جنگوں پر خرچ ہونے والے وسائل انسانیت کی بقا، تعلیم، صحت، خوراک، ماحول، اور انسانی ہمدردی پر خرچ کیے جائیںتو واقعی دنیا امن کا گہوارہ بن سکتی ہے۔ اس کیلئے حکومتوں کے ساتھ ساتھ عام عوام، نوجوانوں، میڈیا اور تعلیمی اداروں کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔کسی بھی جنگ کااختتام آخرکارمذاکرات کی میزپرہی ہوتاہے لہٰذابہترہے کہ حکومتیں جنگی جنون سے باہرنکلیں اوربات چیت کے ذریعے مسائل کاحل نکالنے کی کوشش کریں ۔ پاکستان اورہندوستان کے درمیان کشیدگی کے خاتمے کیلئے مسئلہ کشمیر کا پائیدار اور پرامن حل ضروری ہے جوعالمی طاقتوں کی مداخلت کے بغیرممکن نہیں،پاکستان ہمیشہ سے امن کاداعی ہے جبکہ ہندوستان ہمیشہ مذاکرات سے راہ فرار اختیار کرتااوردہشتگردی کوسپورٹ کرتا ہے ۔ ہم پاکستانی ہمیشہ سے امن پسند قوم ہیں ،ہم صرف پاکستان میں نہیں بلکہ ہندوستان سمیت پوری دنیامیں امن اورخوشحالی کے خواہاں ہیں ، پاکستانیوں کی سوچ وفکرمیں انسانیت کیلئے ہمدردی ہے نہ کہ انتہاء پسندی،یقیناہندوستان کے چندانتہاء پسندوں کے علاوہ زیادہ ترہندوستانی بھی امن اور خوشحالی کے خواہش مندہونگے۔دہشتگردی اورجنگوں میں لاکھوں انسانوں کی زندگیاں چھین کر ، لاکھوں بچوں کویتیم کرکے ، لاکھوں سہاگنوں کو بیوہ بنانے اورلاکھوں انسانوں کومعذوربنانے کے بعد مذاکرات کی میز پر آنے سے بہتر ہے کہ پاکستان اورہندوستان کے حکمران جنگ اوردہشتگردی کی بجائے ، پانی،کشمیرسمیت تمام مسائل کے کیلئے بامقصد اورسنجیدہ مذاکرات کریں،جنگی سازوسامان پروسائل ضائع کرنے کی بجائے انسانیت کی بقاء پرخرچ کریں تویہ نہ صرف خطے بلکہ پوری دنیاکیلئے مفیدہوگا اگردونوں ممالک ایک سے بڑھ کر ایک جنگی ہتھیار حاصل کرنے اوربنانے میں مصروف رہیں گے اورانسانیت ہمیشہ سسکتی رہے گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے