کالم

حقیقت

یہ حقیقت پر مبنی ہے کہ آئی ایم ایف کے ٹیکسوں کی مشین چل رہی ہے اور عوام کا جوس نکل رہا ہے دیکھتے جائیں کوستے جائیں آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کے لیے اس ادارے کی ہر جائز اور ناجائز ہدایت ماننا پڑتی ہے ابھی تو عارضی حکومت اقتدار میں ہے کچھ ہی عرصہ میں نمائندہ حکومت اقتدار سنبھالے گی مختلف سیاسی جماعتوں کے تعاون سے حکومت بنے گی۔ہر جماعت اپنے مفادات کے تحفظ کےلئے تعاون کرے گی بیانات یہ شائع ہو رہے ہیں کہ اس وقت ملک کےلئے استحکام اور معاشی خود مختاری بہت ضروری ہے ملک پر قرض اس قدر بڑھ چکا ہے کہ آنے والی نسلیں تک مقروض ہو چکی ہیںالیکشن میں عوام کا فرض نما قصور یہ ہوتا ہے کہ وہ انتخابات میں اپنے نمائندے منتخب کرتے ہیں اور ان نمائندوں نے عوام کواکثر مایوس ہی کرنا ہوتا ہے بھاری معاوضے اور مراعات یہ سمیٹتے ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے امیر سے امرا کی لسٹ میں شامل ہو جاتے ہیں بڑے گھر بڑی گاڑیوں کے وارث بن جاتے ہیں جنہوں نے ووٹ دیے ان سے دور ہوتے چلے جاتے ہیں آپ غور کریں تو محسوس ہوگا کہ بس اپنی اور اپنی آنے والی نسل کی بہتری کےلئے مصروف عمل رہے ہیں عوام کی اکثریت چونکہ جاہلوں کا ریوڑ ہوتا ہے اس لیے ان سے مستقل رابطہ رکھنا دشوار محسوس ہوتا ہے عام آدمی روٹی کپڑا اور مکان کے علاوہ سوچتا ہی نہیں اس لیے ان سے اعلیٰ سوچ عمل اور گفتگو کی توقع رکھنا اپنا قیمتی وقت ضائع کرنے کے مترادف ہوتا ہے عوامی نمائندے اس روایتی اور عامیانہ سوچ سے بالا خیالات رکھتے ہیں دنیا کے بڑے بڑے ملکوں کی سیاست اور معاشی حالت کو سمجھنے کےلئے ان ممالک کے دورے ضروری ہوتے ہیں اس لیے اپنے اور فیملی ویزے حاصل کرنے کےلئے غیر ملکی سفرا سے تعلقات استوا کرنا ضروری ہوتا ہے ان کو پاکستانی ثقافت کے عکاس تحائف دینا ہوتے ہیں دنیا پر حکومت کرنے والے ممالک کے نمائندوں کی خوشنودی کے لیے ان کی ہدایت پر چلنا بھی پڑتا ہے تاکہ انہیں یہ احساس ہمیشہ اجاگر رہے کہ ہوسٹ گورنمنٹ کے عوامی نمائندے ان سے بھر پور تعاون کرتے ہیں ان کی ایک آواز پر سوتے ہوئے بھی لبیک کہتے ہیں بیشک بیوی بچے خوف سے چیخیں مارنا شروع کر دیں ان طاقتور ملکوں کو خوش کرنے کےلئے پالیسیاں بنانا آسان نہیں بہت سوچ بچار کرنا پڑتی ہے اگر ذاتی صلاحیتوںکو عوامی نمائندے منتخب ہو کر عوام کے مسائل ہی میں الجھانا ہے تو کیا فائدہ کروڑوں روپیہ خرچ کر کے صرف عوام کی خوشحالی کےلئے کام کرنا ایک نامعقول اور غیر حقیقی سوچ ہے عوامی نمائندے قابل پالیسی ساز متحمل مزاج اور جدی پشتی امیر کبیر ہوتے ہیں اس لیے غیر اہم باتوں پر جن کا تعلق عام آدمی کی زندگی سے ہو انہیں زیب نہیں دیتا کہ وہ پارلیمنٹ میں غیر اہم موضوعات پر اپنی زبان کثیف کریں انہیں انگریزی زبان پر بین الاقوامی مالیاتی ادارے اور طاقتور ملکوں کی تعریف توصیف زیب دیتی ہے جب انسان کا معیار بڑھ جاتا ہے تو اسکی ہر سوچ عمل اور حرکت بھی قابل تحسین معیار پر پہنچ جاتی ہے عام آدمی کی سوچ سے یہ حقائق کوسوں دور ہوتے ہیں انہیں اتنی آسانی سے بات سمجھ نہیں آتی کہ بین الاقوامی مالیاتی ادارے مثلا ورلڈ بینک ، ایشین ڈویلپمنٹ بینک آئی ایم ایف ہماری طرف سے حقائق پر مبنی باتیں سن کر تعاون پر آمادہ ہوتے ہیں اسے قرض ہماری اپنی زبان میں کہا جاتا ہے یہ قرض نہیں بلکہ ان اداروں کی فرینڈشپ کا بہترین ثبوت ہوتا ہے لہٰذا دوستی میں اپنی طرف سے بھی ایک کے دس واپس کرنا ضروری ہوتا ہے کیونکہ تعلقات کی نوعیت ہی ایسی ہوتی ہے کہ ان اداروں کے مشفقانہ اور دوستانہ رویے کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کے علاوہ چارہ ہی نہیں ہوتا عام آدمی نہ تو ان باریکیوں کے سمجھنے کے قابل ہوتا ہے اور نہ ان سے اس معیار کی توقع کی جا سکتی ہے اگر بازار میں تندوری روٹی چار روپے سے تیس روپے تک چلی گئی ہے تو اس میں پریشان ہونے والی کیا بات ہے چائے کا کپ ستر روپے اور عام ہوٹل پر کھانا تین سو روپے سے کم نہیں ملتا تو چاہیے کہ بندہ زیادہ محنت کرے کھانے پینے کی ہر شے اب کوڑیوں کے دام تو ملنے سے رہی عوام کے بھی عجیب مطالبات ہوتے ہیں بجلی گیس پٹرول ڈیزل کے علاوہ کھانے پینے کی اشیا اتنی ارزان کیسے اوپن مارکیٹ میں مل سکتی ہے ۔آخر انویسٹر نے بھی تو کچھ کمانا ہوتا ہے عوامی مطالبات کا نہ سر ہوتا ہے نہ پاوں بس جو منہ میں آتا ہے بغیر موقع محل دیکھے بیان ہوتا رہتا ہے محنت سے دل چراتے ہیں چاہتے یہ کہ ہر چیز آسانی سے ان کی جھولی میں گرتی چلی جائے یہ کیسے ممکن ہے انہیں وقت کی رفتار کی مطابقت میں اپنی سوچ کے انداز کو بدلنا پڑیگا دوسرے ملکوں کی عوام کی طرح انہیں بھی اکیسویں صدی میں رہتے ہوئے اور بین الاقوامی سوچ کے معیار کو اپناتے ہوئے اعلیٰ اور ارفع خیالات کے ساتھ زندگی گزارنے کے آداب سیکھنا چاہیں ہر وقت زندہ باد اور مردہ باد کے نعرے لگانے میں اپنی طاقت کو ضائع نہ کریں بلکہ دعا کریں کہ ان کی سوچ اور عمل مثبت راہ اختیار کرے اور انکی شخصیت بین الاقوامی معیار پر ڈھل جائے یہ لوگ کب تک تیسری دنیا کے باسی اور ترقی پذیر کہلاتے رہیں گے عوامی نمائندے ان لوگوں کےلئے اچھے خیالات رکھتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ یہ صرف اپنی ذاتی مفادات کے گرد گھومنے والی گھٹیا سوچ سے باہر نکلیں اور برداشت درگزر سے کام لیتے ہوئے مستقبل پر نگاہ رکھیں دنیا چاند پر پہنچ گئی ہے یہ لوگ ابھی تک دال روٹی میں پھنسے ہوئے ہیں دوسری قومیں ترقی یافتہ کہلاتی ہیں اور ہم ابھی تک بنیادی مسائل کو ہی زیر بحث لاتے رہتے ہیں ایسی سوچ پر افسوس کے علاوہ کیا کہا جا سکتا ہے عوام کو معلوم ہونا چاہیے کہ تیل اور گیس کے ذخائر کم ہوتے جا رہے ہیں لہٰذا دوسرے ممالک سے ان اشیا کو منگوانے پر زرمبادلہ خرچ ہوتا ہے اور پاکستانی کرنسی کنورٹ کرنا پڑتی ہے امپورٹ کے بعد اشیا کیسے سستی دی جا سکتی ہیں جس نے زرمبادلہ خرچ کیا اسے کچھ کمانے کا بھی حق ہے عوام گیس اور تیل کا استعمال بند کریں اور لکڑیاں جلانے والے سسٹم پر واپس آئیں اس طریقے سے جو پہلے گھروں میں رائج تھا گھروں کے کمرے سردیوں میں گرم رہتے تھے اور گرمیوں میں مچھر کی افزائش بھی نہیں ہوتی صحت ٹھیک رہتی ہے عوامی نمائندوں کے پاس اتنا وقت نہیں ہوتا کہ وہ فضول عوامی مفاد کے موضوعات پر ذہن سوزی کرتے رہیں حکومت پانچ سال پورے کرے یا اس سے کم لیکن حکومت کا فرض بین الاقوامی تعلقات کو مزید بہتر بنانا اور دنیا کے حکمران ریاستوں کے ساتھ ہر موقع پر تعاون کرتے رہنا ضروری اور سود مند ہوتا ہے اس سے ملک متعدد مفادات کے حصول میں کامیابی سے اپنی راہ بناتا ہے سفرا سے تعلقات اور باہمی مفادات عوامی نمائندوں کےلئے مثبت پیشرفت ہوتے ہیں عوام ان حقائق کو سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے اور نہ انہیں کم عقلی کی وجہ سے اتنا شعور ہوتا ہے لہٰذا عوامی نمائندوں کی ہر قدم پر کامیابیوں کی دعائیں کرتے رہنا چاہیے مثبت رویہ یہ ہے کہ عوام کو زیدہ اناج کھانے اور تبصروں سے پرہیز کرنا چاہیے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri