اداریہ کالم

حکومت معاشی استحکام کےلئے کوشاں

ملک کو معاشی مسائل سے نکالنے لئے حکومت دن رات کوشاں ہے،اس کی کوشش ہے کہ دوست ممالک کے تعاون سے ملک بھی سرمایہ کاری کو فروغ دے کر معاشی استحکام کی راہ پر گامزن کیا جائے۔اس سلسلے میں وزیراعظم شہبازشریف کابینہ کے ارکان متحرک رکھتے ہیں اور ان پر زور دیتے ہیں کہ وہ اپنی اپنی وزارتوں میں دن رات محنت کریں۔اسی طرح وہ اپنی جماعت کے ارکارن کو بھی اس سلسلے میں اعتماد میں لیتے رہتے ہیں۔گزشتہ روز ان کی صدارت میں مسلم لیگ نواز کے ارکان قومی اسمبلی کا اہم اجلاس ہوا، جس میں وزیراعظم نے حکومتی معاشی پالیسیوں، بیرونی سرمایہ کاری اور سیاسی صورتحال پر ارکان کو اعتماد میں لیا۔اجلاس میں وفاقی وزرا نے بھی شرکت کی، ارکان قومی اسمبلی نے وزیراعظم کی قیادت میں ملکی معاشی استحکام کیلئے اقدامات اور سفارتی محاذ پر کامیابیوں پر وزیراعظم کو خراج تحسین پیش کیا، اجلاس میں موجودہ ملکی سیاسی صورتحال پر مشاورت کی گئی۔وزیراعظم نے کہا کہ اللہ کے فضل و کرم سے پاکستان معاشی استحکام کی جانب گامزن ہے، بیرونی سرمایہ کے فروغ اور سفارتی محاذ پر کامیابیوں کا سہرا پوری حکومتی ٹیم کو جاتا ہے، مجھے پورا اعتماد ہے کہ اگر یونہی محنت جاری رکھی تو پاکستان کے معاشی حالات انشا اللہ جلد ٹھیک ہو جائیں گے۔محم انہوں نے کہا کہ پوری کوشش کر رہے ہیں کہ عوام کو زیادہ سے زیادہ ریلیف پہنچائیں۔ وزیراعظم نے وفاقی وزرا اور ارکان قومی اسمبلی کا اجلاس میں شرکت پر شکریہ بھی ادا کیا۔وزیراعظم صرف پاکستان ہی میں نہیں آزاد کشمیر کے حوالے بھی دن محنت کر رہے ہیں ،حالیہ پیدا ہونے والی پریشان کن صورتحال میں بھی انہوں نے نہایت مثبت کردارادا کیا،اوراحتجاج کو ختم کروایا،گزشتہ روز بھی انہوں نے آزاد کشمیر کا ایک روزہ دورہ کیا جہاں انہوں نے وزیراعظم آزاد کشمیر انوار الحق کے ہمراہ آزاد جموں و کشمیر کی کابینہ سے ملاقات کی اور وہاں کی صورت حال کا تفصیلی جائزہ لیا۔ وزیر اعظم شہباز شریف اس موقع پرکہا کہ آزاد کشمیر میں ہونے والے پر امن احتجاج میں کچھ شرپسند عناصر بھی شامل تھے۔ آزاد کشمیر میں مظاہرین اپنے مطالبات کیلئے پرامن احتجاج کررہے تھے، کوئی شک نہیں کہ ان مظاہرین میں کچھ شرپسند عناصر بھی شامل تھے، جو تحریک چلی تھی اس میں کچھ شہری جاں بحق ہوئے جس کی مذمت کرتا ہوں۔اتحادیوں کا مشکور ہوں جنہوں نے بہترین مشورے دیے، فوری طور پر 23 ارب روپے کا مالی تعاون کا پیکج تیار کیا جو حکومت کے اکاو¿نٹ میں آچکے ہیں، یہ کوئی احسان نہیں بلکہ ہمارا فرض ہے۔یہ یقین دلانے آیا ہوں کہ ہم آزاد کشمیر کی عوام کے اتھ ہیں، آزاد کشمیر کی ترقی و خوشحالی پاکستان کی ترقی و خوشحالی سے جڑی ہے۔انہوں نے اس موقع پر مقبوضہ وادی کی مظلوم عوام کو بھی یاد رکھا اور کہا مقبوضہ کشمیر میں ہمارے بھائیوں کی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی،ہم نے ان کی ہمیشہ سفارتی، سیاسی اور اخلاقی حمایت کی اور کرتے رہیں گے، مقبوضہ کشمیر اور فلسطین کے معاملے پر دنیا خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔اس دورے کے موقع پر وزیراعظم نے نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کا دورہ بھی کیا۔ اس موقع پر وفاقی وزیر برائے امور کشمیر و گلگت بلتستان انجینئر امیر مقام، وزیر داخلہ محسن نقوی، وزیر صنعت و پیداوار رانا تنویر حسین، وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ، وزیراعظم آزاد جموں و کشمیر چوہدری انوار الحق اور دیگر متعلقہ حکام بھی موجود تھے۔ وزیراعظم کو نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کے بارے میں بریفنگ دی گئی۔وزیراعظم نے نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کے ڈیزائن میں نقائص اور ذمہ داری کے تعین کیلئے کابینہ کمیٹی کی تشکیل کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے بڑی بدقسمتی اور کیا ہو سکتی ہے کہ اربوں ڈالر خرچ کرکے منصوبہ مکمل کیا جائے اور اس میں ڈیزائن کے نقائص سامنے آجائیں، عوامی فلاح کے منصوبے میں خرابی یا تاخیر کسی صورت برداشت نہیں کی جا سکتی۔وزیراعظم نے کہا کہ نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پراجیکٹ پر ملک کے تقریبا 5 ارب ڈالر خرچ ہوچکے ہیں، اس کا ابتدائی تخمینہ 840 ملین ڈالر تھا جو بڑھ کر 5 ارب ڈالر تک جا پہنچا اور ساتھ ساتھ وقت بھی ضائع ہوا، اس منصوبہ پر فی میگاواٹ لاگت 4 سے ساڑھے چار ملین ڈالر ہے، پچھلے چند برس میں ساڑھے تین ہزار میگاواٹ کے ایل این جی کے چار منصوبے لگائے گئے، 5 ارب ڈالر میں ایل این جی کے دگنے منصوبے لگ سکتے تھے۔ نیلم جہلم پاور پراجیکٹ کا شمار پاکستان میں توانائی کے بڑے منصوبوں میں ہوتا ہے، یہ پن بجلی کا ایک بڑا منصوبہ ہے اور اس میں خرابی پیدا ہونے کا دوسرا واقعہ پیش آیا ہے، اس سے پہلے جولائی2023میں خرابی پیدا ہوئی تھی، اس کی انکوائری رپورٹ کو ابھی تک حتمی شکل نہیں دی جا سکی، یہ بھی ایک چیلنج ہے، منصوبے میں خرابی کی وجوہات اور ذمہ داری کا تعین ہونا چاہیے تھا، منصوبوں میں تاخیر قوم سے زیادتی ہے جب اتنا بڑا منصوبہ لگ رہا تھا اور اس کا ڈیزائن بنایا جا رہا تھا تو اس کی اور کنٹریکٹرز کی تھرڈ پارٹی تصدیق کرائی جانی چاہئے تھی، ارضیاتی خطرات کو سامنے رکھ کر ڈیزائن بنایا جانا چاہیے تھا۔اس منصوبے کے ڈیزائنر، کنٹریکٹرز یاجو بھی ذمہ دار ہے اس کی ذمہ داری کا تعین ہونا چاہئے، کابینہ کی ایک کمیٹی تشکیل دی جائے جس میں ماہرین بھی شامل کیے جائیں جو ذمہ داری کا تعین کرے ۔ دنیا میں ایسے بہت سے منصوبے لگے ہوئے ہیں جہاں چیلنج ہوتے ہیں وہاں پر اسی طرح کی مہارت بھی پائی جاتی ہے، انہی سے انکوائری کیسے کرائی جا سکتی ہے جنہوں نے اس خرابی کو روکنے کیلئے کردار ادا نہیں کیا۔یہ اچھا ہوا کہ وزیراعظم نے حکم دیا ہے کہ چیئرمین واپڈا اسی ماہ رپورٹ کو حتمی شکل دے کر پیش کریں، ہیڈٹنل میں خرابی دور کرنے کیلئے10 کی بجائے 12 دن لے لیں لیکن اس خرابی کو دور ہونا چاہئے۔
ایوان کی تقدیس کا خیال رکھنا کس کی ذمہ داری ہے
پاکستان تحریک انصاف کی خاتون رہنما زرتاج گل سے بدکلامی پر مسلم لیگ(ق) کے رکن اسمبلی طارق بشیر چیمہ کی رکنیت قومی اسمبلی کے پورے سیشن کےلئے معطل کردی گئی ہے جو انتہائی احسن قدام ہے طارق بشیر چیمہ بدکلامی میں اپنا ثانی نہیں رکھتے ۔گزشتہ روز قومی کے اہم اسمبلی اجلاس کے دوران حکومتی اتحاد میں شامل مسلم لیگ (ق) کے رہنما طارق بشیر چیمہ اور پی ٹی آئی رکن اسمبلی زرتاج کل کے درمیان تلخ کلامی ہوئی تھی جس میں طارق بشیرچیمہ نے انہیں غصہ میں گالی دے دی جس پر ارکان اسمبلی نے نوٹس لے لیا اور بات بگڑ گئی ۔اپوزیشن ارکان اسمبلی نے اس معاملے پر اسپیکر چیمر میں جاکر احتجاج کیا تھا، جس پر طارق بشیر چیمہ نے زرتاج گل سے معافی مانگ لی تھی۔ زرتاج گل نے طارق بشیر چیمہ کی معافی قبول کرتے ہوئے کہا کہ میں نے اپنے لیڈران کے کہنے پر انہیں معاف کردیا ہے۔بدقسمتی ہمارے ایوان کئی دفعہ مچھلی منڈی سے بھی زیادہ سطحی منظر پیش کرتے ہیں،لب و لہجہ سے نہیں لگتا کہ وہ کسی قانون ساز ایوان کے رکن ہیں ۔گزشتہ روز جو کچھ ہوا وہ انتہائی شرمناک تھا،جس پر طارق بشیر چیمہ نے ناچاہتے ہوئے بھی معافی مانگ لی،جس سے معاملہ طے ہو گیا۔
بھارت میں متنازعہ ایکٹ کے تحت سرٹیفیکٹس کا اجرائ
بھارت نے اپنے متنازع ترین شہریت ترمیمی قانون کے تحت لوگوں کو شہریت کے سرٹیفکیٹ دینے شروع کردیے ہیں۔بھارتی میڈیا رپورٹوں کے مطابق مجموعی طور پر 300 سے بھی زیادہ افراد کو بھارتی شہریت کے سرٹیفکیٹ دیے گئے۔متنازع شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے)کے تحت جن افراد کو سرٹیفکیٹ دیے گئے ہیں ان کے بارے میں حکومت نے تفصیلات جاری نہیں کی ہیں۔ تاہم بتایا جاتا ہے کہ ان میں سے کچھ لوگ دہلی کے آدرش نگر اور مجنوں کا ٹیلہ علاقے میں رہنے والے پاکستان سے گئے ہوئے ہندو ہیںجو2013میں سندھ سے بھارت چلے گئے تھے۔سی اے اے کے متنازع قانون پر ابتدا سے ہی تنقید کی جارہی ہے۔یہ قانون مسلمانوں کےخلاف تفریقی سلوک برتتا ہے۔ اس قانون کےخلاف بھارت میں بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہرے ہوئے تھے۔ دنیا بھر کی انسانی حقوق اور سول سوسائٹی کی متعدد تنظیموں نے بھی اس قانون کی نکتہ چینی کی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri