کالم

خود تجویز کردہ فرمائشی مقتول

پاکستانی سیاست دانوں میں عمران خان کو یہ فوقیت حاصل ہوتی جا رہی ہے کہ وہ ہمیشہ کوئی مختلف موقف اور کوئی عجیب حرکت کر کے سننے ،دیکھنے اور سمجھنے والوں کو حیران و پریشان کر کے رکھ دیتے ہیں۔عمرانی طرز سیاست اور عمران خان کو حاصل نظم اخلاقیات بالکل منفرد ، جدا اور حیرت انگیز ہے۔وہ اپنی کسی بات پر شرمندہ نہیں ہوتے۔ یہ امتیاز صرف عمران خان کو حاصل ہے کہ انہوں نے اپنی کمزوریوں کو بھی اپنی طاقت بنا کر دکھا دیا ہے۔ عمران خان کا وضع کردہ نظام تحیئر اپنی مثال آپ ہے۔وہ ایسی بات یا حرکت کر گزرتے ہیں ،جسے کوئی عام سیاست دان یا انسان شاید سوچ بھی نہ سکے۔حال ہی میں انہوں نے صرف دو دن کے اندر اندر اپنے قتل ہو جانے کی خبریں عام کی ہیں۔ عمران خان نے دو روز کے اندر اندر اپنے فرمائشی قتل کی تفصیلات بتا کر اپنے تمام تر مخالفین پر لرزہ طاری کر دیا ہے۔اور اس وقت عمران خان کی سلامتی اور تحفظ کی سب سے زیادہ فکر ان کے سیاسی مخالفین کو ہی لاحق ہے۔یہ سوچے بغیر کہ عمران خان کا اپنی متنوع کیفیات میں مگن رہ کر جیئے جانا کسی کو بھی ہراساں نہیں کرتالیکن پھر بھی اپنی خداداد منفی ذہانت کو استعمال کرتے ہوئے عمران نے اپنے قتل کے منصوبے کو بھی ایک پراڈکٹ بنا کر مارکیٹ میں پیش کر دیا ہے۔پاکستان اور پاکستانی سیاست کے احوال و مآل پر گہری نظر اور مفاد رکھنے والے ملکی اور غیر ملکی انویسٹرز عمران خان پر کھلی سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔ ادھر عمران خان اسٹیبلشمنٹ سے اپنامحبت بالجبرکا حق منوانے کےلئے بضد اور کمر بستہ ہے ۔ اپنے مجوزہ قتل کے منصوبے کی تشہیر بھی عمران خان کے تصور محبت بالجبرکا حصہ خیال کرنا چاہئے ۔ ستم ظریف کہتا ہے کہ محبت عمران خان کا مسئلہ نہیں ،عادت ہے ۔وہ محبت کرتے نہیں ، انہیں بس ہو جاتی ہے ۔وہ دراصل ایک نہایت ہوش مند دیوانے ہیں ۔وہ یقین رکھتے ہیں کہ ان کے مسلسل اصرار اور احتجاج کے جواب میں ،بالآخر منہ بسور کر بیٹھی اسٹیبلشمنٹ کی بھی ایک نہ ایک دن ہنسی نکل جائے گی۔وہ کہتا ہے کہ بس ایک بار ہنسی نکلی ، باقی چیزیں عمران خان خود نکال لے گا۔اپنے س طریقہ پر عمران خان کو اس قدر پختہ یقین ہے کہ وہ کسی حالت میں بھی مایوس ہونے کے لیے تیارنہیں۔حالانکہ اگر ایمانداری سے دیکھا جائے تو بہتر تہتر سال سے متجاوز عمران خان کو سرکس کی تنی رسی پر چلنے ، موت کے کنویں میں ہاتھ چھوڑ کر موٹر سائیکل چلانے اور پٹرول کی بوتل سے گھونٹ بھر کر منہ سے آگ نکالنے سے اب کیا ثواب ملتا ہوگا؟ اس نے اپنی چار سالہ حکومت میں کسی کارکردگی اور قابلیت کا مظاہرہ نہیں کیا ، لیکن اس کا اعتماد عروج پر ہے۔اس نے بالادست طبقات کے نہاں خانوں میں نقب لگا رکھی ہے۔اپنے مجوزہ اور مفروضہ قتل کے حوالے سے عمران خان نے بتایا ہے کہ ایک اسکواڈ ترتیب دیا گیا ہے، اس قاتل اسکواڈ میں اسلام آباد پولیس اور پنجاب پولیس کے ماہرین قتل شامل کیے گئے ہیں ۔عمران کے مطابق پہلے مرحلے میں اس قاتل اسکواڈ کے چند لوگ ہمارے زمان پارک کے اطراف جمع ہجوم میں گھل مل جائیں گے اور پھر موقع ملتے ہی پولیس پر فائرنگ کرکے کچھ پولیس والوں کو ہلاک کر دیں گے۔پولیس کی مزید نفری آ جائے گی ہمارے لوگوں کو مارتے ہوئے یہ لوگ میرے گھر میں گھس کر مجھ پر فائرنگ کر کے مجھے مار دیں گے ۔ اس ساری کہانی کا منتہا عمران خان کے نزدیک ان کا قتل ہے۔انہوں نے اس قسم کی قتل کے لیے دو مثالیں بھی پیش کی ہیں ۔ایک تو شہید وزیراعظم بینظیر بھٹو کے برادر کی ،جسے ان کے گھر کے بالکل سامنے پولیس نے اندھا دھند فائرنگ کر کے شدید زخمی کردیا تھا،جو ہسپتال جاتے ہوئے شہید ہو گئے۔ دوسری مثال عمران خان نے شہید بی بی بی بینظیر بھٹو کی پیش کی ہے ،جنہیں لیاقت باغ کے سامنے ٹارگٹ کلرز نے نشانہ بنایاتھا۔ اپنی خود ساختہ عظمت میں یہ رکاوٹ دور کرنے کے لیے عمران نے پھر خود ہی اپنی ممکنہ ،مجوزہ اور مفروضہ قتل کا ایک بچگانہ نقشہ ترتیب دینے کی کوشش کی ہے۔اللہ کا شکر ہے کہ عمران خان افسانہ نگار نہیں ہے ،ورنہ ان کی لکھی کہانیاں کس نے پڑھنی تھیں ؟ شرلی بے بنیاد کی رائے ہے کہ اگرچہ عمران خان میں شاعر بننے کی بھی کوئی علامت نظر نہیں آتی ،لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ عمران خان نے مرزا غالب کی ایک غزل کو ان دنوں اپنی سیاسی حکمت عملی کی بنیاد بنا رکھا ہے ۔مرزا غالب نے کہا تھا کہ؛
کوئی دن گر زندگانی اور ہے
اپنے جی میں ہم نے ٹھانی اور ہے
آتش دوزخ میں یہ گرمی کہاں
سوز غم ہائے نہانی اور ہے
بار ہا دیکھی ہیں ان کی رنجشیں
پر کچھ اب کے سرگرانی اور ہے
دے کے خط منہ دیکھتا ہے نامہ بر
کچھ تو پیغام زبانی اور ہے
ہو چکیں غالب بلائیں سب تمام
ایک مرگ ناگہانی اور ہے
شرلی کے خیال میں عمران خان نے اپنے قتل کا آئیڈیا بھی مرزا غالب کی اسی غزل سے لیا ہے۔ شرلی بے بنیاد کا خیال ہے کہ محبت اور فراواں التفات سے مسلسل محرومی نے عمران خان کے قوائے عقلی پر اثر ڈالا ہے۔ شرلی کے مطابق یہ بات درست ہے کہ ہم نے ایک دشمن ملک کو دھمکا رکھا ہے کہ ہم گھر میں گھس کر ماریں گے لیکن شرلی متوجہ کرتا ہے کہ یہ دھمکی عمران خان کے حوالے سے ہر گز نہیں تھی اور اگر عمران خان نے اس سے یہ مفہوم اخذ کر رکھا ہے تو پھر اس کے محتاط نفسیاتی علاج کی طرف مزاحیہ نہیں بلکہ نہایت سنجیدہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri