کالم

دنیا کا عظیم رہنما علامہ مشرقی

rohail-akbar

خاکسار تحریک کے بانی اور دنیا کے عظیم رہنما علامہ عنایت اللہ مشرقی کی 59 ویں برسی27 اگست کو منائی جاتی ہے علامہ عنایت اللہ مشرقی ایک بلند پایہ ادیب ، دانشور ، خطیب،فلسفی اور مﺅرخ تھے انہوں نے 1931ءمیں خاکسار تحریک کی بنیاد رکھی علامہ عنایت اللہ مشرقی 27اگست1963ءکو انتقال کر گئے تھے انہیں اچھرہ لاہور میں سپردخاک کیا گیا تھا عنایت اللہ خاں مشرقی 25 اگست 1888ءکو امرتسر میں پیدا ہوئے انہوں نے 18سال کی عمر میں پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے ریاضی اول پوزیشن (1906)میںپاس کر کے دنیا کو محو حیرت کر دیاکہتے ہیں کہ یہ ریکارڈ آج تک قائم ہے انہوں نے کیمبرج یونیورسٹی سے (1912-13)میں بیک وقت چار ٹرائی پوز آنرز رینگلر سکالر، بیچلر سکالر، فاﺅنڈیشن سکالر اورمکینیکل انجینئرنگ میں اعلیٰ پوزیشن مع وظائف حاصل کیے جس پریونیورسٹی انتظامیہ کوبرملا اعتراف کرنا پڑا کہ آٹھ سو سالہ یورپی تاریخ میں ایسا ذہین طالب علم پیدا نہیں ہوا یہ ریکارڈ آج تک قائم ہے انہوں نے دنیا کی قوموں کو اجتماعی موت و حیات کے متعلق پیغام اخیر اور تسخیر کائنات کا پروگرام اپنی شہرہ آفاق کتاب”تذکرہ“ (1924) کے ذریعے دیا انہوں نے مصر میں مسئلہ خلافت پر عالم اسلام کی عالم آراءہستیوں کی کانفرنس کی صدارت کرنے کے ساتھ ساتھ جب ان ہستیوں سے پُر مغز خطاب (خطابِ مصر 1926) کیا تو ان ہستیوں اور جامعہ ازہر مصر سے متفقہ طورپر ”علامہ مشرقی“ یعنی ”مشرق کے عالم“ کا خطاب دے دیا علامہ مشرقی عالم اسلام کے پہلے مسلم سائنس دان بھی تھے جنہوں نے 1952 میں دنیا کے بیس ہزار سائنسدانوں کو ”انسانی مسئلہ“ کے عنوان سے خط لکھ کر دنیاوی ترقی کو بے جان مشینوں کے چنگل سے نکال کر کائنات کو مسخر کرنے انسانی زندگی اور اس کی روح کو کنٹرول کرنے اور دیگر کروں میں زندگی کی موجودگی کے آثار کے راز از روئے قرآن افشاں کر دیے جنہوں نے اپنے حسابی اندازوں سے ہندوستان میں تین سو سال سے بننے والی مسجدوں کے قبلے غلط ثابت کرتے ہوئے قبلہ کا صحیح رخ معلوم کرنے کا فارمولا پیش کیا علامہ مشرقی عالم اسلام کے پہلے فرزند ہیںجنہوں نے 1945 میں مروجہ مغربی جمہوریت کو زرپرست مافیا کی سازش ثابت کرتے ہوئے حقیقی اسلامی فطری جمہوریت کا فارمولا ”طبقاتی طریقِ انتخاب“ کی صورت میں پیش کیا جس میں زر پرست مافیا کا دنیا کے وسائل پر سے قبضہ ختم کروانے کا فطرتی حل موجود ہے جس کی صحت کو آج تک کوئی چیلنج نہ کر سکا عالمہ مشرقی عالم اسلام کے فرزندکے وہ فرزند تھے جنہوں نے خاکسار تحریک میں ”روزانہ عمل اور محلہ وار نظام“ کے ذریعے مسلم وغیر مسلم میں اخوت یعنی بھائی چارہ کا جذبہ اور ایک ہی صف میں کھڑا کر کے اونچ نیچ کا خاتمہ اور عملاً مساوات پیدا کر کے برطانوی سامراج سے نجات حصولِ آزادی اور قیام پاکستان میں اہم کردار ادا کیا جس کا واضح ثبوت 19 مارچ 1940 کو لاہور میں 313 خاکسار غازیوں اورشہداءنے اپنے لہو سے 23 مارچ کی قرارداد تحریر کر کے اس کی راہ ہموار کی جس میں ان کے فرزند احسان اللہ خان اسلم بھی شہید ہوئے علامہ مشرقی عالم اسلام وہ فرزندتھے جنہوں نے 1902میں نوبل انعام حاصل کیا جنہیں 1919 میں کابل کی سفارت چار ہزار روپے ماہانہ وظیفہ اورسرکے خطاب کی پیشکش ہوئی اور 1936میں ہندوستان کی ریاست کی وزارت عظمیٰ اور انگریز کی جانب سے دیگر پُر کشش پیش کشوں اورمراعات کو ٹھکرا کر اپنی خودداری ثابت کر دی علامہ مشرقی قیام پاکستان کے بعد وہ پہلے سیاسی رہنماتھے جنہوں نے دریاﺅں کے رخ موڑنے، دریاﺅں پر ڈیم تعمیر کرنے، مقبوضہ کشمیر کا مسئلہ کھٹائی میں ڈالنے، معاشی و اقتصادی بدحالی، امریکی و برطانوی و بھارتی سازشوں، سول و فوجی حکومتوں اور قومی رہنماﺅں کی وعدہ خلافیوں کا پردہ چاک کرنے کے ساتھ ساتھ مشرقی پاکستان کے ( 1970-71 ) میں جدا ہونے کی سازشوں کو بے نقاب کرنے اور اٹک کے دریا سے لے کر چین کی سرحدوں تک کے علاقوں کو غیر مستحکم کر کے پاکستانی قوم پر جغرافیائی، معاشی، معاشرتی، مذہبی، سماجی زندگی محدود کرنے کی پیش گوئیاں مینارِ پاکستان لاہور اور کراچی کے جلسہ ہائے عام میں کیں تاکہ اصلاح احوال ممکن ہو سکے اور سب سے پہلے ”کشمیر بزور شمشیر“ حاصل کرنے کی آواز بلند کی اپنے ہزاروں جانثاروں کے ہمراہ کشمیر کی سرحدوں پر”جہادی کیمپ“ لگائے اور 1948 میں آزادی کشمیر کے لیے عملاً جہاد میں حصہ لیا اور بہ نفس نفیس خود بھی زخمی ہوئے جی ہاں یہی وہ پہلے اور آخری پاکستانی تھے جنہوں نے اپنی 36 دیہاتوں پر مشتمل وراثتی زمینوں کو اپنے کسانوں میں تقسیم کرتے ہوئے ہندوستان میں باقی ماندہ آبائی گھروں اور زمینوں کے کلیم سے دستبرداری اختیار کر کے میدانِ سیاست میں ایک نئی بے مثال اور لازوال روایت کی بنیاد رکھی کہ سیاست در حقیقت خدمت خلق اور عبادت کا درجہ رکھتی ہے اور ہاں یہی وہ محب وطن پاکستانی تھے جنہیں 33 سالہ سیاسی جدوجہد میں سے انگریز سامراج اور قیام پاکستان کے بعد کے حکمرانوں اور اپنوں و غیروں نے مل کر18سال تک قید و بند کی پُر تشدد صعوبتوں میں گذارنے پر مجبور کر دیا اور پھر انکی نماز جنازہ میں دس لاکھ سے زائد افراد نے شرکت کر کے ان کے عمل و کردارکی صداقت پر اپنی مہرثابت کی جن کو بعد از مرگ حضوری باغ (بادشاہی مسجد لاہور) کے وسیع و عریض مقام پر قائدین خاکسار تحریک کوحکومت کی جانب سے تدفین کی پیش کش کی گئی تو انہوں نے اپنے عظیم المرتبت قائد کی وصیت منظر عام پر لاکر امت مسلمہ اور ملت پاکستانیہ کو حیرت زدہ کر دیا کہ مرحوم کی تدفین ان کی اپنی زرخرید زمین ذیلدار روڈ اچھرہ لاہور میں ہو اور اس پر گھنٹہ گھر تعمیر کر کے تحریر کیا جائے کہ جو قوم وقت کی قدر نہیں کرتی تباہ ہو جاتی ہے ایک خاکسار نے خاک میںملکر بھی اپنی قوم کو پیغام دیا کہ وقت کی قدر کر لومیںسمجھتا ہوں کہ علامہ مشرقی کے بعد انکے بیٹے اور بہو نے بھی خوب محنت کی اور اب ڈاکٹر نور محمد شجرا بھی اسی مشن کو لیکر چل رہے ہیں جو علامہ مشرقی کا مشن تھا اللہ تعالیٰ ہمیں پکا سچا مسلمان اور محب وطن پاکستانی بننے کے ساتھ ساتھ عالمہ مشرقی کے نقش قدم پر چلنے کی ہمت ،جرات اور توفیق عطا فرمائے آمین۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri