کالم

رہنما ئے اعظم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم

گزشتہ سے پیوستہ
ایسا کہنا تھا کہ سب آپ کے مخالف ہوگئے۔ مکہ کے ہر گھر میں جب کوئی نہ کوئی اسلام لانے لگا تو قریش، ابوطالب کے پاس شکایت لے آئے ، کہ ان کو اس کام سے روکو۔ آپ نے رسول باللہ سے کہا کہ قریش کے سرداروں نے آپ کی شکایت کی ہے۔آپ نے اپنے چچا ابو طالب سے کہا کہ یہ میرے ایک ہاتھ میں چاند اور دوسرے ہاتھ میں سورج بھی رکھ دیں، میں اللہ کے دین کی تبلیغ نہیں چھوڑوں گا۔ قریش حج کے موقع پر حاجیوں کے ساتھ ملاقاتیں کرنے بھی روکتے تھے۔ قریش نے رسول اللہ سے محاذآرائی شروع کی۔ جو بھی ایمان لاتا، اس پر ظلم کرتے۔حضرت بلالؓ کو اُمیہ بن خلف تپتی ریت پر لٹاتے۔ حضرت سمیہؓ کو ابوجہل نے برچی مار کر شہید کیا۔ آل یاسر، حضرت عثمانؓ اور دیگر صحابہؓ پر مظالم کی حد کر دی۔ رسول اللہ اپنے صحابہؓ کو حبشہ کے بادشاہ نجاشی کے پاس چلے جانے کا کہا کہ وہ نیک اور عادل بادشاہ تھا۔ صحابہؓ نے دو دفعہ حبشہ کی طرف ہجرت کی۔قریش حبشہ بھی تحائف لے کر پہنچ گئے اور صحابہ ؓ کو واپس کرنے کا کہا۔ مگر حبشہ کے بادشاہ نجاشی نے صحابہ کو قریش کے حوالے نہیں کیا اور کہا کہ چین سے یہاں رہو۔حضرت حمزہؓ اور حضرت عمر ؓ کے اسلام لانے سے مسلمانوں کو کھل کر تبلیغ کرنے کی ہمت ملی۔ جب مکہ والوں نے رسول اللہ کی بات نہیں مانی تو آپ طائف والوں کو اللہ کی طرف بلانے کے لیے گئے۔ مگر انہوں نے شریر بچے آپ کے پیچھے لگا دیے ۔ بچوں نے آپ پتھر برسائے۔ آپ لہوہو لہان ہو گئے۔ اللہ نے پہاڑوں کے فرشتے کو ٓاپ کے پاس بھیجا۔ فرشتے نے کہا کہ آپ حکم کریں، میں ان دو کوپہاڑوں کے درمیان پیس دیتا ہوں مگر آپ نے ایسا نہیں کیا اور فرمیا کیا پتہ ان کی نسلوں سے کو مسلمان نکل آئیں۔
رسول اللہ کو خاندانِ بنو ہاشم کے ساتھ تین سال شعبہِ ابوطالب میں محاصرے میں رکھا گیا۔ ابو طالب اور حضرت خدیجہؓ کی وفات پر رسول اللہ پر مصیبتیں اور زیاہ ہو گئیں۔ رسول اللہ کا دل بڑھانے کے لیے اللہ نے ایک رات رسولاللہ مکہ کی مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک معراج کا سفر کرایا۔ حضرت معصبؓ کی محنت سے مدینہ میں آپ کی وعو ت پہنچی۔گیارویں نبوت موسم حج جولائی 620ءمیں کو یثرب سے چھ سعادت مند افراد جومدینہ کے قبیلہ خزرج سے تعلق رکھتے تھے آپ سے عقبہ کی گھاٹی میں مل کر بیعت کر کے اسلام کے دست و بازوو بن گئے۔پھر جون 622ءکو دوسری بیعت عقبہ ہوئی۔ اس پر قریش کے کان گھڑے ہو گئے۔ قریش نے میٹنگ کی اور ہر قبیلہ سے ایک نوجوان کو منتخب کیا اور یک باریگی سے رسول اللہ کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا۔اس خیال سے بنو ہاشم سب قبیلوں سے لڑ نہیں سکیں گے اور خون بہا لینے پر راضی ہو جائیں گے۔ اللہ نے ا پنے پیغمبر کو مکہ سے مدینہ ہجرت کرنے کا حکم دیا۔ آپ حضرت ابو بکرؓ کو ساتھ لے کر پہلے غارثور گئے۔ پھر مدنیہ کو ہجرت کر گئے۔23 دسمبر622ءکو آپ قبا ءپہنچے۔ جب مدینہ کی طرف روانہ ہوئے تو پورا مدینہ اُمنڈ آیا۔ مدینہ میں رسول اللہ نے اسلام کی تعلیمات کے مطابق نیا معاشرہ ترتیب دیا۔ مسجد نبوی کی بنیا رکھی۔ مسلمانوں میں بھائی چارہ قائم کیا۔ مدینہ کی تجارت پر یہود سود خوروں کی اجارا داری ختم کر کے اسلامی طریقوں پر تجارت کرنے کے لیے مسجد نبوی کے برابر تجارتی مارکیٹ بنائی۔ کفار مکہ نے رسول اللہ کو مدینہ میں بھی چین سے نہیں رہنے دیا۔ اللہ نے قرآن شریف میں جنگ کے اجازت دی” جن لوگوں سے جنگ کی جا رہی ہے، انہیں بھی جنگ کی اجازت دی گئی کیونکہ وہ مضلوم ہیں اور یقیناًً اللہ ان کی مدد پر قادر ہے“۔سورة الحج آیت 39۔کفار مکہ کی سرگرمیوں پر نظر رکھنے کے لیے مہاجرین کو کئی معرکوں پر بھیجا۔کئی معرکوں میں آپ خود بھی تشریف لے گئے۔ اس کے بعد اسلام کا پہلا فیصلہ کن معرکہ غزہ بدرکبریٰ پیش آیا۔ ابوسفیان تجارتی قافلہ لیے مکہ کی طرف روانہ تھا۔ جب مدینہ کے قریب پہنچا تو اس نے قافلہ کی حفاظت کے مکہ ایک شخص کو بھیجا۔ اس نے رواج کے مطابق اپنے اونٹ کا کجاوہ الٹ دیا اور قافلہ کی مدد کے لیے شور مچایا۔ مکہ کے سرداران قریش قافلہ کی حفاطت کے لیے، ابوجہل بن ہشام کی سرداری میں تیرہ سو نوجوانوں، سو گھوڑوں، چھ سو زریں اور کثیر تعداد میں اونٹ اور ساتھ گانے بجانے والی
لونڈیاں اور شراب میں بدمست، یہ لشکر مکہ سے اِتراتے ہوئے روانہ ہوا۔ ان حالات کو دیکھتے ہوئے رسول اللہ نے ایک اعلیٰ فوجی مجلس منعقد کی۔ کچھ لوگ خون ریزی کا سن کر کانپ اُٹھے۔ اس موقعہ پر حضرت ابو بکوؓ، حضرت عمرؓ اور مقدادؓ بن عمرو اُٹھے اور کہا آپ کو اللہ نے جو حکم دیا ہے اس پر عمل کیجیے۔ ہم بنی اسراعیل کی طرح نہیں کہیں گے کہ ”تم اور تمھارا رب جاﺅ اور ہم یہیں بیٹھے ہیں“ تم اور تمھارا پروردگار جا کر لڑ بھڑ لو، ہم یہیں بیٹحے ہوئے ہیں“ (سورة۔الماہدہ آیات24)۔ رسول اللہ نے انصار کی طرف اشارا کرتے ہوئے کہا ،لوگو مجھے مشورا دو۔ انصار سمجھ گئے۔حضرت سعد ؓبن معاذ نے کہا ہم آپ کا شارا سمجھ گئے ہیں۔ ہم آپ پر ایمان لائے ہیں۔لہٰذا پیش قدمی کریں ہم آپ کے ساتھ ہیں۔حضرت سعد ؓ بن محاذ کی یہ بات سن کر رسول اللہ میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ رسول اللہ نے اسلامی لشکر کو بدر کے مقام تک حرکت دی۔ اللہ نے مومنین کی مدد کے لیے بارش برسا دی۔ یہ بارش اسلامی لشکر کے لیے رحمت اور کفار کے لشکر کے لیے زحمت بن گئی۔ اس موقعہ پر اللہ کافرمان ہے کہ” تاکہ حق کا حق ہونا اور باطل کا باطل ہونا ثابت کر دے گو یہ مجرم لوگ ناپسند ہی کریں“( سورة الانفال۔ آیت۔5) جنگ شروع ہونے سے پہلے کفار کے سورما سامنے آئے۔ ان کے مقابلے میں انصار کے تین مجاہدسامنے آئے۔ اس پر تکبر کرتے ہوئے مشرکینِ مکہ نے کہ ہمارے پلے کے لوگ ہمارے سامنے لائے جائیں۔ اس رسولؒ اللہ نے فرمایا عبیدہ بن حارث اُٹھو!حمزہ اُٹھو! علی اُٹھو!۔ ان کے درمیان مقابلہ ہوا۔ حضرت عبیدہؓ نے عتبہ بن ربیع کو، حضرت حمزاءنے شیبہ کو اور حضرت علی نے ولید کو جہنم رسید کیا۔اس مقابلہ کے بعد عام لڑائی شروع ہوئی۔کافر بتوں کا نعرہ لگا تے تھے اور مسلمان اللہ اکبر کے نعرے لاتے تھے۔ اللہ کے نعرے کا کون مقابلہ کر سکتا ہے۔آج بھی اللہ پر بروسہ کرتے ہوئے غزہ میں صلیبی اتحادی فوجوں کے مقابلے میں ”اللہ اکبر“ کا نعرہ لگاتے ہوئے ان ظالموں کا مقابلہ کر رہے ہیں،اللہ بدر کی طرح غزہ میں بھی فرشتے نازل کر رہا ہے۔ رسول اللہ نے جنگ بدر کے موقعہ پر اللہ سے دعا فرمائی۔” (جاری ہے )

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri