کالم

سموسہ دس کا مانگتا ہے

ملک کے اندر نہ نامساعد حالات محسوس ہو رہیں ہیں اور نہ ہی اِنہیں اپنے تہزیب و تمدن کی پرواہ، نہ ہی اخلاق کے اقدار کی حدود کی کوئی پرواہ۔ بس ساڈا لیڈر سب سے بہتر، ساڈے لیڈر کیوجہ سے ہی وطن کی بقا و سلامتی ہے۔ جبکہ ایسا کچھ نہیں ہے۔ کتنے ہی عوامی اور غیر عوامی آئے اور چلے گئے، لیکن یہ مُلک اُنکے جانے بعد بھی سلامت ہے اور انشائاللہ رہے گا۔ صرف لیڈر تب تک کچھ بھی نہیں، جب تک وہ اُس میں مردم شناسی کی حس نہ، کیونکہ وہ اسی حس کے بدولت ہی اپنے لیے ایک اچھی ٹیم بناتا ہے اور ٹیم ورک کے ذریعے ہی کسی ادارے یا کسی محکمے کی نشونما کرتا ہے ۔ ان عاشقوں کا محبوب کتنا مردم شناس ہے، یہ پورا پاکستان دیکھ چکا، انکے نام گنوانے کی اب کوئی ضرورت نہیں، لیکن شاید ہی کوئی ہو کہ انکے محبوب کے 9 رتنوں میں سے کسی ایک رتن پر کرپشن میں رنگے ہونے کا الزام نہ ہو۔ آج کوئی ملک میں بیٹھ کر اسلام آباد فتح کرنے کے دعوے کر رہا ہے۔ ڈر ہے کہ کہیں اس گیدڑ بھگتی میں اپنا شہر ہی نہ گنوا بیٹھے۔ کوئی کسی ٹھنڈے یورپی ملک میں بیٹھ کر ان ناسمجھ عاشقوں کو سخت گرمی میں باہر نکل کر محبوب کو زبردستی باہر نکلوانے کے جزبات ابھار رہا ہے۔
آتے ہیں اُن اب اُن سوشل میڈیا شیروں کے طرف جو ملک میں استحکام آ چکا ہے ہر چیز بھلے بھلے کے دعوے دار ہیں۔ خوشی کے باجے بجانے میں مسرور ہیں، اُن سے صرف یہ پوچھنا ہے کہ کیا ہماری تمام انڈسٹریز رواں دواں ہیں؟ کیا ان کی پراڈکٹ دھڑا دھڑا برآمد ہو رہی ہیں؟ بیروزگاری میں کمی آئی؟ یہ جو گندم آجکل جگہ جگہ نظر آ رہی ہے، کیا یہ نظر آتی جب ہماری فصلیں تیار ہونے سے چند ہفتے قبل ایک ارب ڈالر کی گندم درآمد نہ کی ہوتی؟ آج بھی گندم کی ترسیل پر ضلع بندی قانون لاگو ہوا ہوتا۔ پرانے اور نئے در آمد کی گئی گندم سے گودام بھرے پڑے ہیں۔ ورنہ نئی گندم کب کا اسٹاک کر کے شارٹیج پیدا کرکے مہنگے داموں فروخت ہو رہی ہوتی اور چند ہفتوں کے بعد ہی ہم پھر سے آٹا خریدنے کے لیے ٹرکوں کے پیچھے بھاگ رہے ہوتے۔ اب یہی استحکام کے دعوے دار کہہ رہے ہیں، کہ گندم سستی، میدہ سستا، تیل و گھی سستا، تو روٹی کیوں مہنگی؟ سموسہ کیوں مہنگا، جلیبی کیوں مہنگی، میدے سے بنی مٹھائی کیوں مہنگی؟
عرض کرتے چلے کہ اِس حکومت نے ہمارے اُس کان کو تو چھوڑ دیا، جس سے ہمیں بہت درد ہورہا تھا، لیکن دوسرے کان سے نہ صرف نان بائیوں، سموسہ و مٹھائی فرشوں کو پکڑا، بلکہ ہم عام عوام کو بھی کس کے پکڑ لیا ہے، جسکا درد چاہنے والوں کو ابھی شاید اُسطرح سے تو نہیں ہو رہا، جس طرح سے بیکری والوں اور نان بائیوں کو ہورہا ہے۔ اِنکی دکانوں کے کرائے بڑھے، ساتھ جو دس بارہ بے روزگاروں کو روزگار دے رکھا تھا، اُنکی تنخواہیں بڑھی، کبھی کسی بیکری میں جاکر اُنکے گیس کا بل، بجلی کا بل دیکھے تو سہی، پسینے چھوٹ جائےنگے ماہ جنوری میں بھی۔ کسی تندور پر جاکر اُس کے گیس کا بل، بجلی کا بل یا پھر جلانے کی لکڑی کی قیمت تو پوچھے اگر وہ رو نہ پڑے، تو بیشک سموسہ دس روپے لینے کے آپ حق بجانب ہیں اور اِن سے پوچھے کہ جب وڈے لوگوں کے مہمان آتے ہیں، تو اُنکی مہمان نوازی میں آپکی طرف سے کیا کیا پیش کرنے کو کہا جاتا ہے۔ کیا نان بائیوں اور بیکریز والوں نے خان صاحب کی طرح لنگرز کھول رکھے ہیں؟ بیشک آٹے اور میدے، تیل کی قیمتیں کم ہوئی، لیکن بجلی کا بل لاکھوں میں، گیس کا بل جب ایک گھر میں دو وقت کھانا اور صبح ناشتہ کرنے والوں پہ گیس کا بل10 ہزار کے لگ بھگ آتا ہے، تو جنکے تندور، بیکریوں کی بھٹیاں صبح سے لیکر رات ڈھلے تک تپتی ہے، اُن پر گیس کتنے لاکھوں میں آتا ہوگا؟ یہ کوئی راکٹ سائنس تو ہے نہیں، جو کہ عام آدمی بھی نہ سمجھ پائے۔ یعنی یہ ایک کان چھوڑا، دوسرے سے پکڑ لیا۔ کان کو چھوڑنا نہیں یہی پالیسی ہے۔ گیس کا بل وہی پرانا کرے دے، بجلی اُسی ریٹ میں وہی کر دے ، آپکو سموسہ دس روپے کا چاہئے 5 روپے میں ملے گا، روٹی 15 روپے میں چاہئے 5 روپے میں ملے گی۔ نان بائیوں اور بیکریز والوں سے اب اگر کوئی آ کے مہمان نوازی مانگیں، تو کیا خیبر پختونخوا کے وزیر اعلی کے فرمان پر اینٹ ساتھ میں رکھے اور حکم کی تکمیل کرے؟ تاکہ اس مہمان نوازی کے خرچے کا بوجھ کم از کم عوام پر تو نہ پڑے۔ یقیناً اس کمبخت سموسے کی قیمت میں کم از کم روپے دو روپے کا فرق تو پڑے گا ہی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri