کالم

سندھ طاس معاہدہ اور بھارتی آبی جارحیت

پانی محض قدرتی وسیلہ نہیں بلکہ زندگی کی بقا کا بنیادی ذریعہ ہے۔ برصغیر کی زرخیز وادیوں میں بہتے دریاؤں نے صدیوں سے کروڑوں انسانوں کو غذا، زراعت اور معیشت کا سہارا فراہم کیا ہے۔ تاہم جب پانی جیسے مشترکہ وسائل کو سیاسی مفادات کے تحت بطور ہتھیار استعمال کیا جائے، تو یہ نہ صرف اخلاقی دیوالیہ پن کی علامت ہے بلکہ خطے کے امن و استحکام کے لیے سنجیدہ خطرے کی گھنٹی بھی ہے۔اسی تناظر میں سندھ طاس معاہدہ جو پاکستان اور بھارت کے مابین 1960 میں عالمی بینک کی ثالثی سے طے پایا، اب بھارتی اقدامات کے باعث شدید خطرات سے دوچار ہے۔ یہ معاہدہ دنیا کے کامیاب ترین بین الاقوامی آبی معاہدوں میں شمار ہوتا ہے، جس کی رو سے تین مشرقی دریا راوی، بیاس اور ستلج بھارت کو دیے گئے، جبکہ تین مغربی دریا سندھ، جہلم اور چنابپاکستان کے حصے میں آئے۔ مقصد یہ تھا کہ دونوں ممالک پانی کے منصفانہ استعمال کو یقینی بنائیں، بغیر ایک دوسرے کے مفادات کو نقصان پہنچائے۔ گزشتہ چند برسوں میں بھارت کی جانب سے معاہدے کی خلاف ورزیاں معمول بن چکی ہیں۔ حالیہ مثال کے طور پر، 27اگست کو بھارت نے ممکنہ سیلابی صورتحال کے بارے میں پاکستان کو مطلع تو کیا، مگر یہ اطلاع سندھ طاس معاہدے کے طے شدہ طریق کار یعنی واٹر کمشنر کے بجائے بھارتی ہائی کمیشن کے ذریعے بھیجی گئی،جو کہ معاہدے کی روح اور شقوں کی خلاف ورزی ہے۔ اس طرح کی دانستہ خلاف ورزیاں بھارت کو یہ راستہ دکھاتی ہیں کہ وہ مستقبل میں معاہدے کی یکطرفہ معطلی کو معمول کا اقدام بنا کر پیش کر سکے۔بھارت نے رواں برس اپریل میں ہونے والے پہلگام حملے کا الزام پاکستان پر دھر کر سندھ طاس معاہدے کو یکطرفہ طور پر معطل کرنے کی کوشش کی، جو نہ صرف بین الاقوامی قانون بلکہ ہیگ میں قائم مستقل ثالثی عدالت (PCA) اور عالمی بینک کے موقف کی بھی کھلی خلاف ورزی ہے۔ عالمی بینک متعدد بار واضح کر چکا ہے کہ یہ معاہدہ صرف باہمی رضامندی سے ہی معطل یا ترمیم شدہ ہو سکتا ہے، یکطرفہ نہیں۔بھارت کی آبی جارحیت دو جہتوں میں واضح طور پر دیکھی جا سکتی ہے: کبھی وہ دریاں کا پانی روک کر پاکستان میں خشک سالی اور زرعی بحران پیدا کرتا ہے، اور کبھی اچانک پانی چھوڑ کر سیلابی صورتحال پیدا کر دیتا ہے، جیسا کہ حالیہ برسوں میں متعدد بار اور اب دیکھنے میں آیا۔ یہ طرزِ عمل نہ صرف غیر اخلاقی ہے بلکہ اقوام متحدہ کے بین الاقوامی آبی قوانین کی بھی صریح خلاف ورزی ہے، جن کے تحت کسی بھی ریاست کو پانی کو جنگی یا سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی اجازت نہیں۔بھارت نے مغربی دریاں پر بگلیہار (450 میگاواٹ)، کشن گنگا (330میگاواٹ)اور رتلے (850 میگاواٹ) جیسے ہائیڈرو الیکٹرک منصوبے تعمیر کیے، جن کے ڈیزائنز کو پاکستان نے بارہا عالمی سطح پر چیلنج کیا۔ ان میں سے بعض معاملات میں پاکستان کو قانونی کامیابیاں بھی حاصل ہوئیں، مگر بھارت کی جانب سے ان فیصلوں کو نظرانداز کرنا معاہدے کی روح کے منافی ہے ۔ پاکستان نے ہمیشہ سندھ طاس معاہدے کے تحت اپنے آبی حقوق کا بھرپور دفاع کیا ہے اور اسے سفارتی اور قانونی محاذ پر اجاگر بھی کیا ہے۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ یہ معاملہ اقوام متحدہ، عالمی بینک، اور انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس جیسے باوقار فورمز پر زیادہ بھرپور، مسلسل اور منظم انداز میں اٹھایا جائے۔ ساتھ ہی، پاکستان کو اپنے داخلی آبی نظام، ذخائر، اور واٹر مینجمنٹ کے شعبے میں بھی ہنگامی اصلاحات کرنی ہوں گی تاکہ بیرونی خطرات کا موثر طور پر مقابلہ کیا جا سکے۔یہ حقیقت بھی عالمی سطح پر اجاگر کی جانی چاہیے کہ جموں و کشمیر متنازع علاقہ ہے، جہاں سے بہنے والے چھ دریا مستقبل میں کشمیری عوام کے حقِ خودارادیت کے نتیجے میں پاکستان کا حصہ بن سکتے ہیں۔ لہذا بھارت کو چاہیے کہ وہ آبی جارحیت کی پالیسی سے باز آ جائے اور خطے میں امن و بقا کے لیے سنجیدہ رویہ اپنائے۔ سندھ طاس معاہدہ محض پانی کی تقسیم کا معاہدہ نہیں، بلکہ برصغیر کے دو جوہری طاقتوں کے درمیان قیامِ امن کی بنیاد ہے۔ بھارت کی جانب سے اس معاہدے کی خلاف ورزی، پانی کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش، اور یکطرفہ فیصلے نہ صرف پاکستان بلکہ پورے جنوبی ایشیا کے لیے ایک تباہ کن صورتحال پیدا کر سکتے ہیں۔ وقت کا تقاضا ہے کہ پاکستان سفارتی، قانونی اور تکنیکی محاذ پر موثر اقدامات کرے تاکہ اس قیمتی قومی اثاثے اور خطے کے امن کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے