کاروباری حضرات خوب جانتے ہیں کہ دولت کیسے کمائی جاتی ہے کسی شخص کو محنت کیے بغیر یہ حاصل نہیں ہوتی ایسا کبھی نہیں ہوا کہ آپ رات کو سوئیں اور صبح تکیے کے نیچے سے پچاس ہزار روپے نکل آئیں کمانے کے بغیر یہ حاصل نہیں ہوتے بڑی مشقت کرنی پڑتی ہے لیکن بعض پیشے ایسے بھی ہیں جس جو اختیار کر کے لوگ بہت کامیاب اور ناموری کی زندگی گزا ر رہے ہیں مثلا ًسیاست یہ بھی ایک کامیاب ترین پیشہ ہےاس کو اختیار کرنے والوں کی عزت دولت شہرت انکا مقدر بن جاتی ہے مقدر خود بنایا جاتا ہے جو پھر تقدیر بن جاتا ہے جیسے سفر کےلئے بڑے ذرائع ہیں جب میں ہوائی جہاز کار یا ٹرین میں سوار ہو جاتا ہوں تو یہ مقدر ہے کیونکہ یہ ذرائع میں نے خود پسند کیے ہیں تقدیر کا تعلق مشاالٰہی سے ہے اور یہ تدبیر ہماری منشا ہے بہر حال لوگ اپنی قابلیت صلاحیت اور اہلیت کے مطابق کوئی نہ کوئی پیشہ اختیار کرتے ہیں تاکہ زندگی اچھی اور سہولتوں کے ساتھ گزار سکیں لیکن دیکھنے میںیہ آ رہا ہے کہ سیاست ایسا پیشہ ہے جسے اختیار کرنے کے بعد موجاں ہی موجا ں ہیں نہ کوئی پوچھ گچھ اور نہ ہی جواب دہی شب وروز بغیر کچھ کیے ٹھاٹھ باٹھ سے گزارنا شروع ہو جاتے ہیں اللہ دے اور بندہ لے یہ ایک ایسا پیشہ ہے جہاں لگانے والے کو اسکی توقعات سے کہیں زیادہ ملتا ہے بشرطیکہ وہ اک دفعہ اسمبلی کا ممبر بن جائے سیاسی جماعتیں عوام کے مسائل حل کرنے اور انہیں کامیا ب زندگی گزارنے کے مواقع فراہم کرنے یعنی ان کی بے لوث خدمت کے نعرے لگاتے ہیں تمام سیاسی جماعتوں نے آج تک جوکچھ کیا وہ سب آپ کے سامنے ہے لیکن پھر بھی یہ خوش قسمت انسان کارگردگی کے بغیر ناموری حاصل کرتے ہیں پچھتر سالوں سے ملک ایک تجربہ گاہ بنا ہوا ہے کبھی صدارتی نظام حکومت نافذ ہوتا ہے تو کبھی پارلیمانی نظام لیکن عوام کی تکالیف اپنی جگہ موجو د ہیں وہ کم نہیں ہو سکی اور شاید کبھی بھی نہ ہوں عوام کو سوچنا چاہیے کہ نمائندے منتخب کرنے کا جو سسٹم ہے اسے درست کریں اور تبدیل کرنے کے بارے میں غور کرنے کی زحمت کریں انتخاب کی تاریخ کا جب اعلان ہو جاتا ہے تو پھر سیاسی جماعتوں کے تجربہ کار پیشہ ور افراد نئی دلفریب باتوں اور تدبیروں سے عوام پر ایسا جادو کرتے ہیں جو سر چڑھ کر بولتا ہے وہ افراد جو متعدد بار یا پہلی بار پارلیمنٹ کے ممبر منتخب ہوتے ہیں کافی دولت صرف کرتے ہیں انہیں معلوم ہے کہ ہمارے ووٹر کی حیثیت ایک چاول کی پلیٹ ایک کپ چائے اور ڈھول کی تاپ پر پاگلوں کی طرح رقص کرنا ہے وہ مہینوں اس طرح کے انتظامات کرتے ہیں کھلاتے پلاتے ہیں کارنر میٹنگ کرتے ہیں اور پھر اپنے آپ کو کامیاب کروانے کے لیے ووٹ ان کے حق میں دینے کے لیے بات کرتے ہیں جن لوگوں کے سلام کا وہ جواب دینا بھی پسند نہیں کرتےان سے مصافحہ بھی ہوتا ہے اور گلے بھی لگایا جاتا ہے یہ حربے ان کی کامیابی کے لیے ضروری ہوتے ہیں بڑے گھروں میں مقیم کروڑوں کی گاڑیوں میں سفر کرنے والے جنہیں یہ پتہ ہی نہیں ہوتا کہ غربت افلاس اور محرومی کیا ہوتی ہے وہ عوامی بنے ہوتے ہیں عوام کو اپنی لچھے دار باتوں اور نئے نئے حربوں سے شیشے میں اتار لیتے ہیں ووٹر چاول چائے اور رقص کے مواقع سے مستفیض ہوتے ہیں وہ گلے پھاڑ پھاڑ کر جلسے میں زندہ باد کے نعرے لگا رہے ہوتے ہیں آپ اگر غور کریں تو یہ حقیقت سامنے آ جاتی ہے کہ غریبوں کے وہ امیر ترین نمائندے پارلیمنٹ میں جاتے ہیں جو حکومت چلانے کے لیے تجربہ کار فنکار ہوتے ہیں پارلیمنٹ تو اینٹوں کی چار دیواری ہے اسکا تقدس ان ممبران کے ذریعے بنتا ہے جنہیں عوام اپنے ووٹ کے ذریعے منتخب کرکے وہاں بھیجتے ہیں ان ممبران کو نہ غربت کا احساس ہوتا ہے نہ ہی اپنی عوامی مشکلات کا صحیح معنوں میں ادراک ہوتا ہے جو لوگ بے پناہ سہولتوں کے ساتھ زندگی گزارنے والے ہوںسو لگا کر ہزار کمانے والے ہوں انہیں عوامی مسائل کی سرسری معلومات ہوتی ہیں یہ لوگ نہ تو عوام میں سے ہوتے ہیں اور نہ ہی انہیں عوامی لوگ کہا جاسکتا ہے یہ خاص الخاص مخلوق ہے جو عوام کے پیسے پر پلتی ہے اور حکمرانی کرتی ہے ایک وڈیر ے صنعت کاریا کسی درگاہ کے سجادہ نشین جو اپنے سامنے مریدوں اور عقیدتمندوں کو دونوں ہاتھ جوڑ کر سلام پیش کرنے پر خوش ہوتے ہیں بعض شاہ جی کے سامنے سجدہ ریز ہونے کو دنیا اور آخرت کی کامیابی سمجھتے ہیں انہیں غیر اخلاقی رسوم رواج سے آزاد بھی نہیں کرتے وہ نمائندے جنہیںترقیاتی فنڈ کھانے کی عادت ہو وہ عوامی سکیموں کو صرف مشتہر کرتے ہیں اس پر وصول شدہ پیسہ جو عوامی امانت ہے ایمانداری سے نہیں لگاتے اپنے بینک بیلنس میں اضافہ کرتے ہیں وہ بھلا عوام کی مشکلات کے بارے میں کیوں سوچیں گے عوام بیوقوف ہے صرف چاول چائے اور رقص سے لطف اندوز ہو جاتے ہیں کامیابی کی صورت میں ان کے نمائندے کبھی ان کی طرف پلٹ کر بھی نہیں دیکھتے وقتی میلے ٹھیلے سجا کر کامیابی اپنامقدر بناتے ہیں عوام خالی ہاتھ ہوتے ہیںصرف ان کے نمائندے کامیاب زندگی گزارتے ہیں دولت شہرت عزت اور سلامیں ان پر ان ہی کے منتخب کرنے والے ووٹرنچاور کرتے ہیں پھر ان کے لئے یہ تمام چیزیں زندگی کی ضرورت بن جاتےہے نشے کی طرح وہ ان ذرائع کو جب تک استعمال نہ کریں انہیں سکون نہیں ملتا تسلی نہیں ہوتی یہ پیشہ ور سیاستدان ہیں جو برس ہا برس سے عوام پر حکومت کر رہے ہیںان کے حلقے سے کوئی غریب تعلیم یافتہ سمجھدار انسان انتخاب میں حصہ لینے کا سوچ بھی نہیں سکتاکیونکہ اسکے پاس انتخاب میں کامیابی کے لیے ذرائع نہیں ہوتے انہیں اپنی زندگی بھی خطرے میں محسوس ہوتی ہے طاقتور طبقہ اپنے مقابل کسی باشعور دیانتدار تعلیم یافتہ عوامی مسائل کو سمجھنے والےفرد کو منظر عام پر آنے ہی نہیں دیتے ہمارا سیاسی نظام کچھ اس طرح کا ہےکہ عام آدمی اس میں فٹ ہی نہیں ہو سکتا ہماراسیاسی ماحول ایسے افراد کے لیے سازگار ہی نہیں سیاسی نظا م میں پارلیمنٹ مقتدر ہے جو پچاس ساٹھ نمائندو ں کے ذریعے حکومت کرتی ہیں اور پارلیمنٹ کے نمائندے بجائے عوامی مسائل زیربحث لانے کے آپس میں لڑتے ہیں روز جھگڑے اور فساد ہوتے ہیں خواتین بھی کسی سے کم نہیں اخلاقی اور غیر اخلاقی باتیں سب چلتا ہے معلوم ہوتا ہے سب پنجابی فلموں کے سلطان راہی مصطفی قریشی ہیں بھڑکیں مارناجھگڑنا نمایاں خصوصیت بن چکی ہیں کبھی کبھار منہ کاذائقہ بدلنے کے لیے وہ عوامی مسائل اپنے قیمتی نادر اور اعلی خیالات کا اظہار فرماتے ہیں چاہے اسکا کوئی مثبت نتیجہ برآمد ہویا نہ ہو یہ انکی ذمے داری نہیں اب تو عدالتوں کو بھی اس سیاسی نظام نے اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے جہاں برسوں سے ہزارو ں کیس فیصلے کے لیے سسکیاں لے رہے ہوں وہاں اب ظاہرا سیاسی اہمیت کے کیسز زیربحث ہیں جواب الجواب صرف بحث کی فضا ہے اللہ رحم فرمائے ملک مصائب اور طرح طرح کی پریشانیوں سے آزاد ہواب سوچنے کا مقام ہے کہ آیا ہماری پارلیمنٹ کے دو ہاوسز ہونا ضروری ہیں یا ایک ، آیا صدارتی نظام بہتر ہے یا پارلیمانی ، اخراجات کس طرز حکومت کو اختیار کرنے سے کم سے کم ہو سکتے ہیں تاکہ ملک کی معاشی حالت بہتری کی طرف گامزن ہوبہت وقت ضائع ہو گیا اب ہوش کے ناخن لینے کا وقت ہے گزرے ہوئے وقت پر رونا دھونا کرتے رہنا عقلمندی نہیں وقت تو گزر ہی چکا آئندہ کے بارے میں سوچنا چاہیے عوام کے نام پر عوامی بن کر ملک لوٹنے والوں کا ضمیر اب جاگنا چاہیے سیاست کو عوامی خدمت ہی رہنے دیں اسے آمدنی کا ذریعہ نہ بنائیں ملک غربت کی حدود کو چھو چکا ہے عوام حالات کے مارے ہوئے ہیں اب ان میں سکت باقی نہیں رہی کہ ماہانہ اخراجات کو آسانی سے پورا کر سکیں مارکیٹ میں دعووں کے باوجود اشیا مہنگی فروخت ہو رہی ہیں چیک اینڈ بیلنس سسٹم ہونا چاہیے حکومت تمام نمائندوں کو بھی اس سلسلے میں باختیار بنائے کہ وہ خود مارکیٹ میں جا کراشیاکی قیمت چیک کر یں جرمانےعائد کر سکیں یا پھر حکومتی ادارہ تشکیل دیا جائے کہ وہ اس فرض کو پورا کر ے اور جرمانے کی رقم براہ راست بینک میں جمع ہو اچھی نیت پر مبنی حکومت کی ہر پالیسی کو عوامی تائید حاصل ہو گی ورنہ جیسے تیسے وقت تو گزر ہی رہا ہے اب موروثی سیاست سے بھی جان چھڑوانے کا موقع ہے حقیقت یہ ہے کہ سیاست اگر اک منافع بخش پیشہ نہ ہو تو مالدار لوگ کبھی اس طرف راغب نہ ہوں نسل در نسل سیاسی پیشے سے منسلک لوگ اسے عوامی خدمت کا عنوان دیگر ذاتی مفادات حاصل کر رہے ہیں اس سلسلے کو ختم ہونا چاہیے عوام کی ذمہ داری ہے کہ وہ حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کریں اور اپنے نمائندے موروثی خاندانوں کے بجائے اپنے جیسے معاشی حالات میں رہنے والے اعلی تعلیم یافتہ اچھے اخلاق کردار کے مالک لوگوں کو منتخب کریں ورنہ اسی طرح سلامیں کرتے رہیں گے پیر سائیں کے گھٹنوں کو چھوتے رہیں گے چاول چائے اور ڈھول کی تھاپ پر رقص کرتے رہیں گے۔