کالم

سیاستدانوں کےلئے وطن عزیز میں کوئی ہسپتال نہیں؟

ajaz-ahmed

دنیا کہاں سے کہاں تک پہنچ گئی ۔ اور ہماری مثال اب بھی کنوئیں کی مینڈک کی طرح ہے ۔ بد قسمتی سے پاکستان میں ہمارے سیاستدانوں، سول و ملٹری بیروکرٹس اور اشرافیہ کےلئے کوئی ایسا ہسپتال نہیں جس میں وہ اپنا علاج معالجہ کرسکیں۔ نتیجتاً یہی لوگ ہر قسم کے علاج کےلئے خود اور اپنے اہل اعیال کے ساتھ بیرون ملک علاج کےلئے جاتے ہیں۔ یہ تو اللہ بھلا کرے پاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران خان کا، جنہوں نے صحت کارڈ متعارف کرکے اب 90 فیصد مریض بھی اپنا علاج اپنے من پسند ہسپتالوں سے کراتے ہیں۔ہر دور میں ہر دور کے سیاستدان ، فوجی اور سول بیوروکریٹس اور اشرافیہ اقتدار پر برا جمان رہے مگر افسوس صد افسوس کہ وطن عزیز میں انکے پسند کا کوئی ہسپتال نہیں جس میں وہ اپنا علاج معالجہ کرسکیں۔جبکہ اسکے بر عکس ہمارے ساتھ آزاد ہونے پڑوسی ملک بھارت میں سالانہ تقریباً 5لاکھ مریض دنیا کے مختلف حصوں سے ،جس میں پاکستان، بنگلہ دیش، ترکی، بلغاریہ، افغانستان ، سعودی عرب، عراق، مالدیپ، نائیجیریا، کینیا اور دوسرے کئی ممالک سے علاج کےلئے آتے ہیں۔ایک تو بھارت کے ڈاکٹر انتہائی Competent اور دوسرا بھارت کے ڈاکٹر خواہ وہ کسی طب کے شعبے سے وابستہ ہو اپنے کام میں مگن اور دلچسپی لینے والے ہوتے ہیں۔اور یہی وجہ ہے کہ بھارت بیرون ممالک مریضوں کے علاج معالجے سے سالانہ 20 ارب ڈالر کماتے ہیں ۔ بھارت ، کیوبا، کاسٹ رائس اور برازیل کے بعد چو تھا ملک ہے جہاں پر سستا ترین اور اعلی قسم کا معیاری علاج معالجہ ہوتا ہے۔ بھارت کے جن جن شہروں میں اعلیٰ قسم کے طبی ادارے قائم اور موجود ہیں اُن میں دہلی، کولکتہ ،چنائی اور ممبئی شامل ہیں۔سال 2020-21 میںبھارتی حکومت نے ہسپتالوں کے بنیادی ڈھانچے کو اعلی بین الاقومی معیار بنانے کےلئے 40 ارب کے قریب بھارتی روپے مختص کئے۔ بھارت میں بات صرف بہترین علاج معالجے تک نہیں بلکہ انڈیا دنیا کے 200 ممالک کو ادویات بھی ایکسپورٹ کرتا ہے۔ اب ضرورت اس امرکی ہے کہ پاکستان ، بھارت اور چین تقریباً ایک وقت میں معرض وجود میں آئے ہیں مگر یہ انتہائی افسوس کی بات ہے کہ یہ دونوں ممالک کہاں سے کہاں تک پہنچ گئے اور ہم ابھی پتھر اور دھات والے دور میں رہ رہے ہیں ۔ بھارت نہ صرف بیرون ممالک اعلی قسم کا علاج معالجہ مہیا کرتا ہے بلکہ انڈیا کے ڈاکٹر بھی بیروں ملک خدمات سرانجام دیتے ہیں جس سے وہ سینکڑوں ارب ڈالر خارجہ سکہ کماتے ہیں ۔ میں اس کالم کے توسط سے وطن عزیز کے سیاستدانوں ، ملٹری و سول بیورو کریٹس اور اشرافیہ سے استد عاکرتا ہوں ، اگر آپ عوام کو بین الاقوامی معیار کا ہسپتال نہیں بناسکتے تو کم ازکم اپنے لئے تو بین الاقوامی معیار کا ہسپتال بنادیں تاکہ آپ اور آپکے اہل خانہ کم از کم اس ہسپتال میں اپنا علاج تو کرسکیں۔ اس ملک کے غریب اور پسے ہوئے عوام کب تک ظلم کی چکی میں پستے رہیں گے۔ میں نے اپنے کالم میں امریکہ، کنیڈا ، جرمنی ، بر طانیہ اور دوسرے ترقی یافتہ ممالک کا ذکر اس لئے نہیں کیا کیونکہ پاکستان اور بھارت بیک وقت آزاد ہوئے ہیںاسلئے میں نے مثال بھارت کی دی ہے ۔ اگربھارت طب اور دوسرے کئی فیلڈوں میں ترقی کرسکتا ہے تو پاکستان ۷۷ سال گزارنے کے بعد کیوں ترقی نہیں کر سکتا۔کیونکہ ہمارے لیڈر قائدین ملک کے ساتھ مخلص نہیں ۔ روزگار ، صحت ، انصاف کی فراہمی ، تعلیم کسی بھی ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہوتی ہے مگر بد قسمتی سے پاکستان پاکستان کے 22 کروڑ عوام ان سہولیات میں کوئی بھی میسر نہیں اور غریب عوام پستے جارہے ہیں۔عوام کو چاہیے کہ وہ انتخابات میں ایسے امیدواروں کو ووٹ دیں جو تعلیم یافتہ اور قابل ہوں جو عوام کی خدمت کر سکیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri