کالم

شاہ سے زیادہ شاہ کی وفاداری

پی ٹی آئی کا جلسہ آخر ہو گیا ۔ عمران خان کے گرفتار ہونے کے بعد یہ پنجاب اور اسلام آباد کی حدود میں پہلا جلسہ تھا ۔ہو گیا یا ہونے دیا گیا جو تھا ہو گیا ۔ سیاسی تجزیہ نگاروں اور فال نکالنے والوں کے برعکس اول جلسہ ہوا اور دوئم اچھا بھی ہوا ۔ میرے مطابق اسے اچھا بہت اچھا نہیں دھوم مچا د ینے والا ہونا چاہیے تھا۔یوں تو عجیب سا لگتا ہے آرڈینس اور قانون سازی سے ملک میں انتشار اور معاشرتی تفریق و نفرت انگیزی جرم قرار دی گئی ہے ۔ شاید ایک دہائی قبل بھی عرض کی تھی کہ کسی سیاسی لیڈر کا سیاسی بیان یا پریس کانفرنس میں نام بگاڑنا الزام لگانے پر الیکشن کمیشن اسکے خلاف ایکشن لے ۔اگر ایسا کیا گیا ہوتا تو ملک میں اوے توئے کا کلچر فروغ نہ پاتا ۔ مولا جٹ سٹائل ڈائیلاگ بازی کم از کم مین سٹریم سیاستدانوں کی گفتگو میں شامل نہ ہوتی ۔ ایک چیز کے کئی رخ ہوتے ہیں اسی طرح سیاست کے دو رخ تو سامنے ہیں۔ایک حکومتی رخ اور دوسرا اپوزیشن والا رخ ۔ کیا بات کا یہ پہلو سوچنے سے تعلق نہیں رکھتا یہی نفرت آمیز گفتگو حکومتی وزیر اور مشیر کریں تو وہ قابل مواخذہ نہیں ہوتی ۔ اپوزیشن کو نفرت انگیزی پر مجبور کر دیا جائے تو دہشت گردی غداری اور قوم و ملک کی تقدیر سے کھیلنے کے عین مترداف ہے ۔ حکومتی اراکین جب جیسے چاہئیں میڈیا کو مخالفین کیلئے استعمال میں آزاد ہیں ۔ میڈیا حکومتی مشیران کابینہ وزرا بالکل ہی مختص ہو کر رہ گئے ہیں ۔ وہ اپوزیشن کے لیڈروں کو غیر ملکی ایجنٹ بتائیں یا انھیں چور ڈاکو بتا کر انکے خلاف پروپیگنڈا کریں کوئی روک ٹوک نہیں ۔ کیا اپوزیشن کے ارکان پاکستانی عوام کے نمائندے نہیں ہیں ۔ انکا استحقاق مجروح نہیں ہوتا ۔سابق حکمران اور اسکی کابینہ کے اکثر لوگ جنہوں نے غیر قانونی کام کیے یا غلطیاں کیں ان کو اس وقت غلطی سے قانون شکنی سے آئین کی حدود سے نکلنے سے روکنے کے ذمہ داران تو آج بھی شاید عہدے پر ہی ہونگے ۔ سیاستدان نے غلطی کی وہ تو احتساب میں آیا یا لایا گیا لیکن سول بیورو ریسی جو اصل حکومت چلا رہی ہوتی ہے اور اس کی ذمہ داری ہوتی ہے وہ اس کیلئے باقائد منتخب اور تربیت یافتہ ہوتے ہیں ۔ انھیں اس کے مطابق گریڈ اور مراعات دی جاتی ہیں وہ کہاں تھے اور یہ ان کے ہوتے ہوئے ہوا تو انہوں نے کیوں نہیں رکاوٹ ڈالی ۔ آج نئے آنے والوں کے ساتھ مل کر پرانے اور پھر نئے آنے والوں کے ساتھ پچھلوں کا ا حتساب کرنے چل دیں گے ۔ دھوبی کا کیا گیا چھو ۔ ملک تباہ ہو قوم پسے ان کو کوئی فرق نہیں۔ یہ انصاف نہیں کہ کوئی حکومتی عہدیدار غیر قانونی احکام پورا کرے اور اس کا کوئی احتساب نہ ہو ۔ ملک میں کرپشن بدعنوانی رشوت میرٹ کی خلاف ورزیاں ہوں، کیا اسکی ذمہ داری سیاسی لوگوں پر ڈال کر ان میں سے کسی ایک آدھ کو سزا دیکر پاکستان اور پاکستانیوں کو نہیں بچایا جا سکتا ۔ پاکستانی جلسے میں جاتے ہیں جلوسوں میں رسوا ہوتے ہیں نعرے لگا کر جن کو وہ رہبر اور رہنما بناتے ہیں ۔ وہی ان پر اپنی حکومت اور اختیار کو مضبوط کرنے کیلئے اخراجات کی مد میں ان کے خون پسینے کی کمائی سے قربانی کا تقاضا کرتے ہیں۔ گلی گلی ووٹوں کیلئے جانے والے پروٹوکول کے حصار میں چلے جاتے ہیں ۔ انھیں اب خطرہ ہوتا ہے ۔ اب وہ قیمتی اثاثہ ہو جاتے ہیں اور انہیں عوام سے دور رکھنے کیلیے سکیورٹی اور پروٹوکول کے نام پر جو اخرجات کیے جاتے ہیں وہ بھی غریب مزدور کلرکوں کی قربانیوں سے اکھٹا کیا قومی خزانہ ادا کرتا ہے۔ اس نظام کے خالق اور محافظ یہی سول بیوروکریسی ہے ۔ یس سر کے نتیجہ میں وزیر اور چپڑاسی والا لطیفہ بھی کافی اہم ہے ۔ حیرت ہے کہ انتظامیہ نے سیاسی جلسہ کو میٹرک کا پیپر بنا دیا ۔ چار بجے شروع اور سات بجے پرچہ چھین لینے والی کارروائی ۔ یہ شاہ سے زیادہ شاہ کی وفاداری کا نتیجہ تھا ۔ سیاسی جلسہ اور ہمارے معاشرہ میں شادی کی تقریبات بھی کبھی وقت پر ختم ہوتی ہیں ۔ جمہوریت میں پھر عوام کو کیا ملا ۔ نہ وہ سوشل میڈیا پر لکھ سکتے نہ بول سکتے نہ جلسہ کر سکتے تو وہ قربانی دینے کیلئے صرف جمہوریت کا ساتھ دیں ۔ بجلی کا ریٹ آپ نے بڑھایا اس پر مرضی سے ٹیکس لگائے اور میٹر جو صارف کا ہے اس پر بھی کرایہ لگایا ٹی وی ریڈیو ہے نہیں اس کا ٹیکس بھی لگایا ۔احتجاج کیلئے آواز بلند کرنے والا دہشت گرد وطن دشمن اس پر قانون نافذ کرنے والے ادارے ٹوٹ پڑتے ہیں ۔ حکومت کے گیت گا کوئی مسئلہ نہیں تمہارا اور خدا کا معاملہ ہے لیکن حکومت کے خلاف لکھو بولو دنیا ہی میں جہنم میں بنا دئیے جاو¿ گے ۔ کب تک میاں جی آپ سے پہلے بڑے میاں جی اسی مسند پر بیٹھ کر پیپلز پارٹی کو ختم کرنے کی سرتوڑ کوشش کر چکے ہیں ۔آج آپ اسی کی گود میں بیٹھ کر ایک اور سیاسی جماعت کو توڑنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں ۔حقیقت آپ تک پہنچتی نہیں اور پہنچائی بھی نہیں جاتی لیکن آپ کی فیملی کی سیاسی ورتھ بہت گر چکی ہے ۔ تحریک انصاف کی لیڈر شپ سے بھی درخواست ہے مانا کہ آپ سے زیادتی ہوتی ہے لیکن اس کیلئے پنجابی پختون میں دوری کیلئے شعلہ فشانی سے آپ کی سلطنت تو شاید قائم رہے لیکن بھائی جدا ہو جائیں گے ۔ سیاست میں اقتدار اور اختیار کےساتھ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی بجائے اگر معاشرتی ترقی کیلئے کام کریں تو غریب عوام کا بھلا ہو گا ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے