کالم

عوام کا فیصلہ اور دھرنا گروپ!

پاکستان اس وقت مختلف شعبوں میں نمایاں ترقی کررہا ہے اگر بات کی جائے معیشت کی تو اس وقت تمام اعشارئیے مثبت سمت گامزن ہیں۔اسی طرح اگر خارجہ پالیسی کا بغور جائزہ لیا جائے تو حکومت کے اپنے پہلے 9 ماہ انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ خصوصاً وزیر اعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان محمد شہباز شریف کے دوست ممالک چین۔سعودی عرب۔امارات سمیت بین الاقوامی فورمز پر بھرپور شرکت اور نمائندگی کے ثمرات بھی سامنے آرہے ہیں۔بین الاقوامی تاجروں کا پاکستان میں اعتماد بحال ہونا اور نئے منصوبوں پر کام کا آغاز پاکستان کی بڑی کامیابی ہے۔اسی طرح اگر سی پیک جیسے عظیم الشان منصوبے کی بات کی جائے تو تیسرے مرحلہ پر کام کا آغاز اور تیزی بھی معاشی کامیابیوں اور حکومت پاکستان کی بہترین خارجہ و داخلہ کامیابی ہے۔اسی طرح وطن عزیز کے دفاعی امور و داخلہ سیکیورٹی کے حوالے سے بھی پاکستان کی مسلح افواج سمیت تمام سیکیورٹی ادارے بھرپور کام کررہے ہیں خصوصاً پاک فوج کے افسران و اہلکار اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر ملک کی دشمنوں سے حفاظت میں دن رات مصروف عمل ہیں۔گزشتہ روز بھی سیکیورٹی فورسز نے خیبر پختونخوا کے اضلاع بنوں اور خیبر میں فتنہ الخوارج کے خلاف آپریشن میں 8خوارج کو جہنم واصل اور 11 کو زخمی کرکے حراست میں لے لیا۔آپریشن کے دوران پاک فوج کے کیپٹن محمد زہیب الدین اور سپاہی افتخار حسین نے جامِ شہادت نوش کیا۔حکومت پاکستان سمیت پوری قوم کو پاک فوج کے بہادر افسران و جوانوں پر فخر ہے۔پاکستانی قوم اپنے شہداءکی قربانیوں کو کبھی بھی فراموش نہیں کر سکتی اور دہشتگردوں اور ملک دشمنوں کے پاکستان میں انتشار کے ناپاک عزائم کو کبھی کامیاب نہیں ہونے دیگی۔ یقینا اپنے مستقبل کو اس ملک پر نچھاور کرنے والے جری و بہادر جوان اور ایثار کے جذبے سے سرشار انکے اہل خانہ پوری پاکستانی قوم کا فخر ہیں۔پاکستانی قوم اپنے بہترین اور تابناک مستقبل کی خاطر حکومت پاکستان پر بھرپور اعتماد رکھتی ہے جس کا ثبوت فروری میں عوام نے اپنے ووٹ کی طاقت سے مسلم لیگ ن کو کامیاب کرکے دیا اور پاکستان میں انتشار پسند عناصر کو باور کروادیا کہ بس۔بہت ہوگیا۔دھرنا دھرنا۔اب ہمیں بہترین مستقبل بنانا ہے۔گزشتہ دنوں وفاق پر چڑھائی کرکے ایک جماعت نے جو کھیل کھیلا اسے بھی عوام نے یکسر مسترد کردیا اور اس ملک دشمنی کو شرمناک فعل قرار دیا۔اس حوالے سے گزشتہ روز وفاقی وزیر برائے اطلاعات و نشریات عطاءتارڑ نے پریس کانفرنس کے دوران بڑی خوبصورت بات کی کہ جب بھی کوئی بیرونی وفد یا اہم موقع آتا ہے تو یہ دھرنا پارٹی اسی وقت احتجاج کی کال کیوں دیتے ہیں؟شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کے دوران بھی انہوں نے احتجاج کی کال دی، 2014ءمیں ان کے دھرنے کی وجہ سے چینی وفد کا دورہ سات ماہ تک التوا کا شکار رہا، انہوں نے پی ٹی وی پر حملہ کیا، پارلیمنٹ کے گیٹ توڑے، ایس ایس پی عصمت اللہ جونیجو پر بہیمانہ تشدد کیا، اس کی کیا وجہ تھی؟ ایک مائنڈ سیٹ تھا کہ ڈنڈے کے زور پر ریاست کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنا ہے۔ریاستیں گھٹنے نہیں ٹیکتیں، ریاست جہاں اپنے باقی فرائض سرانجام دیتی ہے وہاں ریاست کا کام رٹ قائم رکھنا اور امن و امان برقرار رکھنا بھی ہوتا ہے۔وزیر اطلاعات نے کہا کہ گزشتہ کئی دنوں سے سوشل میڈیا پر جھوٹی خبریں پھیلائی جا رہی ہیں، پی ٹی آئی اپنی ناکامی چھپانے کے لئے جھوٹا بیانیہ بنا رہی ہے۔ پی ٹی آئی کے پچھلے کئی احتجاج ہوئے جن میں مسلح شرپسند عناصر موجود تھے۔ اسلام آباد کا امن سبوتاژ کرنا ان کی سوچی سمجھی سازش تھی، سنگجانی اور لاہور میں جلسے ہوئے مگر اس مرتبہ فرق یہ تھا کہ اسے فائنل کال کا نام دیا گیا ۔وزیر اطلاعات کے مطابق ٹیکس دہندگان کے پیسوں سے صوبائی حکومتوں کو امن و امان کے لئے پولیس ٹریننگ کروائی جاتی ہے، آنسو گیس شیل لے کر دیئے جاتے ہیں اور دیگر وسائل فراہم کئے جاتے ہیں، اس کا مطلب یہ نہیں کہ غیر قانونی احتجاج پر سرکاری وسائل خرچ کئے جائیں، ہائیکورٹ نے احتجاج کی اجازت نہیں دی تھی، ہم نے تحریک انصاف سے کہا کہ آپ بانی چیئرمین پی ٹی آئی سے ملیں اور جگہ کا تعین کرلیں، ہم نے انہیں سنگجانی کے مقام کی بھی پیشکش کی مگر بشریٰ بی بی ریڈ زون جانے پر بضد تھیں۔ اس وقت بیلاروس کے صدر کا دورہ جاری تھا اور وہ ڈی چوک سے چند میٹر کی دوری پر تھے، افغان شہری بھی ان کے احتجاج میں موجود تھے۔ وزیر داخلہ کے بیان کو سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا، افغانستان ایک ہمسایہ اور دوست ملک ہے، ہم افغانستان اور اپنے ملک میں امن کے خواہشمند ہیں، پاکستان میں غیر قانونی مقیم افغان شہری ان جتھوں کا حصہ بنتے ہیں، 37 افغان شہری پی ٹی آئی کے احتجاج میں شامل تھے، کیا کسی سیاسی جماعت کے منشور میں یہ شق ہے کہ آپ کسی افغان یا غیر ملکی شہری کو رکنیت دیں اور اپنے احتجاج میں شریک کریں؟ ان کے احتجاج میں جرائم پیشہ عناصر موجود تھے جو ریکارڈ یافتہ لوگ ہیں۔ پیرس، لندن، واشنگٹن ڈی سی سمیت مہذب دنیا میں احتجاج کےلئے جگہ کا تعین ہوتا ہے، کیا کسی احتجاج میں AK47 گن کبھی دیکھی؟ کیا کسی مہذب معاشرے میں اس بات کی اجازت دی جاسکتی ہے کہ مظاہرین ڈنڈوں، غلیلوں، پتھروں، بنٹوں، گرینیڈ اور اسلحہ سے لیس ہوں؟ وفاق پر لشکر کشی کےلئے خیبرپختونخوا کے خزانے کا بے دریغ استعمال کیا گیا، اس کا ذمہ دار کون ہے؟ ہم نے احتجاج کے دوران ان سے 45 بندوقیں برآمد کی ہیں۔گزشتہ ہفتے اس ساری صورتحال میں سب سے زیادہ پریشانی عوام کو ہوئی۔راقم الحروف نے کئی عوامی مقامات پر سنا کہ لوگ دھرنا پارٹی سے اس قدر تنگ آچکے ہیں کہ سوائے حکومت سے سخت سے سخت تدارک کے مطالبہ کے علاوہ کسی کے منہ سے اور کوئی الفاظ سننے کو نہیں ملتے۔بجائے وفاق پر چڑھائی کے دھرنا پارٹی کو چاہیے کہ وہ اپنے صوبہ پر توجہ دیں جہاں لا قانونیت کی حد ہوچکی ہے۔ایک صوبے کا وزیر اعلی بجائے پاراچنار جانے کے اور متاثرین کی دادرسی کے وفاق پر چڑھائی کررہا ہے۔عوام تنگ آچکی ہے آئے روز ایسی صورتحال سے لوگوں کے کاروبار معمولات زندگی خصوصاً مریضوں کی آہوں کا ہی سوچ کر دھرنا پارٹی اپنے رویے میں تبدیلی لے آئے کیونکہ عوام اب جعلی نعروں اور جذباتی تقاریر نہیں بلکہ کام دیکھنا چاہتی ہے کارکردگی دیکھنا چاہتی ہے اور پاکستان کی ترقی دیکھنا چاہتی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے