کالم

غار ثور سے مدینہ منورہ تک کا سفر

riaz chu

قلم کاروان اسلام آباد کی مطالعاتی نشست میں واقعاتِ سیرة النبی ماہ ربیع الاول شریف کے حوالے سے”سفرہجرت،غارثورسے یثرب تک“کے موضوع پرفریدالدین مسعودبرہانی نے اپنے خطاب میں بتایاکہ یہاں کی آبادی پندرہ سے بیس ہزارنفوس پرمشتمل تھی۔عربوں کے دوقبائل اوس اورخزرج جب کہ تین یہودی قبائل آبادتھے اوریہوداکثرکہاکرتے تھے کہ ہمارے اندرایک نبی آنےوالاہے جس کی پوری دنیاپرحکومت ہوگی۔بیعت عقبہ نامی عمرانی معاہدے کے ساتھ ہی ریاست مدینہ کی تاسیس ہو چکی تھی کیونکہ یہ ریاست کسی طرح کی جغرا فیائی،علاقائی یا نسلی و لسانی حدودسے ماوراتھی۔ انہوں نے کہاکہ جب مسجدقبامیں قبلہ رخ کیلئے بیت المقدس کاتعین کیا گیا تو یہودی بہت خوش ہوئے،بیس دن قیام کے بعد جب آپ جانب یثرب سفراندازہوئے توتاریخ کے مسافرنے تاریخی استقبال کا مشاہدہ کیا۔جس کے بعد حضرت ابوایوب انصاری کے ہاں قیام کاوقت بھی آن پہنچاجب قصوی نے وہاں پڑاو¿ کیا۔آخرمیں فاضل مقررنے بتایاکہ آپ کو "یثرب” نام پسندنہیں تھا۔مقررین نے کہا کہ ریاست مدینہ اپنی نوعیت کے اعتبارسے دنیاکی اولین مملکت تھی جوکثیرالمذہبی، کثییرالقومی ، کثیراللسانی اور کثیرا لقبائیلی معاشرےپرمشتمل تھی،آپ نے دیگر زبانیں سیکھنے کاحکم بھی فرمایاتھا۔ اب یہ امت کافرض ہے کہ پوری دنیا کوریاست مدینہ بنائے۔ ہجرت جیسا بابرکت عمل گویاایک مینارہے جس کے بعدمواخات ہوئی اور جہاد کی اجازت بھی مل گئی۔ صداقت اورامانت کی بنیادوں پر اسلامی ریاست قائم ہوتی ہے۔ یہ ہجرت دارالکفرسے دارالاسلام کی طرف تھی،دار نفرت سے دار محبت کی طرف تھی اور دارالحرب سے دارالامن کی تھی۔ ہجرت کعبے جیسے مرکزسے دوری پرمبنی تھی لیکن ہجرت کایہ سبق ہے کہ اپنی اصل کی طرف لوٹناہے جیسے فتح مکہ اس جدجہدکی منزل کاپہلاپڑاو¿ تھا۔ اب ہمارے ذمے یہ کام ہے کہ ساری دنیاکو اپنے مرکزخانہ کعبہ کی طرف کھینچ کرلے آئیں ۔رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم جیسی نعمت عظمیٰ کوجن بد نصیب قریشیوں نے مکہ معظمہ سے نکالا تھا اس نعمت کبریٰ کو مدینہ والوں نے ہاتھوں ہاتھ لیا۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رفیق ہجرت کے ساتھ دو پہر کے وقت قباکی بستی کے قریب پہنچے اور ایک ٹیلے کے پاس ٹھہرگئے۔یہاں کھجور کے ایک درخت کا سایہ تھا۔ قبا کے لوگوں کو خبر ہوئی تویہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے استقبال کے لئے بستی سے باہر آگئے اور”نعرئہ تکبیر “بلند کرکے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خیر مقدم کیا۔ یہ انصا ر ہتھیار بند تھے اور محبت کے بے اختیار جذبہ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے استقبال کے لئے ٹوٹے پڑتے تھے۔ ان میں سے اکثر لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچانتے نہ تھے اس لئے اول اول حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سلام کرتے رہے۔حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دھوپ آتے دیکھی تو آ پ صلی اللہ علیہ وسلم کے ا±وپر سایہ کرلیا،اس وقت لوگوں کو معلوم ہوا کہ پیغمبر خدا کون ہیں۔ یہاں سے آپ قبیلہ بنی عمرومیں کلثوم ابن ہدم کے دولت کدہ پرتشریف لے گئے۔قیام کے دوران یہاں آپ نے مسجد قبا کی تعمیر فرمائی۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی اسی جگہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو گئے۔آپ نے بنی سالم کے محلہ میں نماز جمعہ ادا فرمائی۔ نماز کے بعد جب چلنے لگے تو اس بستی کے لوگ آپ کے ا±ونٹ کی نکیل پکڑ کر کھڑے ہوگئے کہ آپ اسی محلہ میں قیام فرمائیں،ہماری تعداد بڑی ہے ہمارے پاس ہتھیاروں کا ذخیرہ بھی کافی ہے۔آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میری اونٹنی کا راستہ چھوڑ دو،یہ خدا کی طرف سے مامور ہے جہاں اسے حکم ہوگا وہاں خود بیٹھ جائے گی۔جب اونٹنی بنی مالک ابن نجار کے محلہ میں پہنچی تو خود بخود وہاں بیٹھ گئی۔ یہ وہی جگہ تھی جہاں آج مسجد نبوی میں ممبر رسول بنا ہوا ہے۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس پر تشریف فرما تھے۔ وہ اونٹنی پھر اٹھی اور اِدھر ا±دھر پھر کر اسی جگہ دوبارہ بیٹھ گئی،اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر سے نیچے اتر آئے۔اونٹنی جس جگہ بیٹھی وہ کھلا میدان تھا۔ جہاں لوگ اپنی کھجوریں دھوپ میں خشک کیا کرتے تھے۔ یہ میدان بنی نجار کے دو یتیم بھائیوں کی ملکیت تھا۔ حضور علیہ الصلوٰةوالسلام نے قیمت ادا کرکے جگہ خرید لی اور مسجد نبوی کی تعمیر کے لئے مخصوص کردی گئی۔ جس جگہ اونٹنی بیٹھی سب سے قریب حضرت ابو ایوب انصاریؓ کا گھر تھا۔ حضور علیہ الصلوٰة والسلام کی میزبانی کا شرف آپؓ کے حصے میں آیا۔حضور علیہ الصلوٰة والسلام نے سات ماہ تک یہیں قیام فرمایا۔ اسی وقت سے سن ہجری کا آغاز ہوا۔ چند دن بعد حضور علیہ الصلوٰة والسلام کی ازواج ام المومنین حضرت عائشہؓ ، حضر ت سودہؓاور حضور علیہ الصلوٰة والسلام کی دونوں صاحبزادیاں حضرت فاطمہ ؓاور حضرت ام کلثومؓ اور حضرت اسامہ بن زیدؓ اور ام ایمن ؓ بھی آگئیں۔ ان سب کو حضرت عبداللہ بن ابی بکر ؓ لےکر آئے تھے۔ البتہ حضور علیہ الصلوٰة والسلام کی ایک صاحبزادی حضرت زینبؓ، حضرت ابو العاصؓ کے پاس رہ گئیں اور وہ جنگِ بدر کے موقع پر تشریف لائیں۔ربیع الاول کے حوالے سے لاہور آرٹس کو نسل الحمراءمیںمحفل سماع، محفل نعت و دیگر پروگرام پیش کئے گئے ۔
ایگزیکٹوڈائریکٹر الحمراءطارق محمود چوہدری نے اس حوالے سے کہا کہ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے اللہ نے زندگی میں ایک بار پھر عید میلاد النبی کی بہاریں دیکھنے اور برکات سمیٹنے کا موقع دیا،نبی ِاکرم کی شان و عظمت بیان کرنا ہمارے ایمان کا حصہ ہے، الحمراءمیں آپ کی ولادت باسعادت کی مناسبت سے نعتیں پڑھی جائیں گی،جو شان اللہ تعالیٰ نے آپ کو دی اس کا ذکر کیا جائے گا۔ الحمراءمیں منعقدہ محفل سماع میں نامور قوال ندیم جمیل نے ساتھیوں کے ہمراہ آنحضور کی بارگاہ میں گلہائے عقیدت کے نذرانے پیش کئے۔انھوں نے نعت”کملی والے محمد تو صدقے میں جاں“، ”تو کجا من کجا“،”اس کرم کا کرو¿ شکر کیسے ادا“،”دل جس سے زندہ وہ تمنا تمہی تو ہو“ پیش کئے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے