اسرائیل کے خلاف بائیکاٹ کی مہم اگرچہ زوروں پر ہے مگر یہ مہم نئی ہر گز نہیں بلکہ گزشتہ دو دہائیوں سے چلی آ رہی ہے البتہ پہلے یہ مہم صرف معاشی بائیکاٹ تک محدود تھی لیکن اب اس مہم میں تشدد بھی شامل ہوتا جا رہا ہے،حالیہ دنوں میں پاکستان اور بنگلہ دیش میں مشتعل افراد نے فاسٹ فوڈ چین کی برانچ پر حملے کئے،توڑ پھوڑ اور لوٹ مار کی ہے،گزشتہ روز راولپنڈی میں بھی ایسا ہی ایک واقعہ رونما ہوا جس میں مشتعل افراد نے کے ایف سی کی ایک برانچ میں داخل ہو کر توڑ پھوڑ کی،اس الزام میںدرجن بھر لوگوں کے خلاف مقدمہ بھی درج کرلیا گیا ہے،ایسے ہی کچھ حملے کراچی سمیت سندھ کے دیگر علاقوں میں بھی کئے گئے ہیں،اہل فلسطین کے ساتھ اظہار یکجہتی اور اسرائیل کے خلاف غم و غصہ تو ایک فطری عمل ہے لیکن اس کا پرتشدد ہونا اور پھر لوٹ مار کرنے کا کوئی جواز نہیں بنتا،حیرت کی بات تو یہ ہے کہ جن مصنوعات کے بائیکاٹ پر احتجاج کیا جا رہا ہے انہی مصنوعات کی لوٹ مار پر دل و دماغ کیسے مائل ہو سکتا ہے،کہیں ایسا تو نہیں کہ احتجاج کرنے والوں کی آڑ میں لوٹ مار کرنے والے اپنا کھیل کھیل رہے ہیں۔پر امن احتجاج اور بائیکاٹ تو وقت کی ضرورت ہے مگر پرتشدد رویے اور لوٹ مار کسی طور پر درست نہیںہے،مگر اس کا ایک اور پہلو یہ بھی ہے کہ چونکہ عالم اسلام میں اسرائیل کے خلاف شدید جذبات پائے جاتے ہیں اور مسلمان حکمرانوں نے بالکل خاموشی اختیار کر رکھی ہے اس لئے عوام کے جذبات اب قابو سے باہر ہوتے جارہے ہیں،اسرائیلی بمباری نے انسانیت کی تذلیل کرتے ہوئے اسپتالوں کو بھی ملبے کے ڈھیر میں تبدیل کردیا ہے،غزہ کی پوری بستی مسمار کر دی گئی ہے اور ناکہ بندی کرکے امدادی سامان بھی نہیں پہنچنے دیا جا رہا،اسرائیل کے ان غیر انسانی مظالم پر پاکستان سمیت پوری دنیا میں احتجاج کیا جا رہا ہے لیکن اس کے باوجود مسلمان حکمرانوں سمیت عالمی قوتوں کا ضمیر نہیں جاگا،بالخصوص اسلامی ممالک کی غیر معمولی خاموشی سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کی زبانیں مفلوج ہو چکی ہیں اور ضمیر مردہ ہو چکے ہیں،اہل فلسطین کی عملی مدد تو دور کی بات کہیں سے ان کے حق میں مضبوط آواز بھی نہیں اٹھ رہی ہے،اگر کوئی آواز نکلتی بھی ہے تو کمزور اور رسمی جملوں تک محدود ہے،یہی وجہ ہے کہ عوام کے جذبات میں غصہ بڑھتا جا رہا ہے اور نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ احتجاج اور بائیکاٹ کی مہم میں تشدد کا عنصر بھی شامل ہونے لگا ہے۔فلسطین کے حالات کی وجہ سے ہر انصاف پسند اور صاف دل اور زندہ ضمیر رکھنے والا شخص رنجیدہ ہے،یہ محض جنگ نہیں بلکہ فلسطینیوں کی کھلی نسل کشی ہے،عالمی عدالت انصاف غزہ میں ہونےوالے ظلم کو نسل کشی قرار دے چکے ہیں ، لیکن اقوامِ متحدہ سمیت مسلم حکمران مذمتی قراردادوں کے پاس کرانے کے سوا کہیں آگے نہیں بڑھ رہے،اقوام متحدہ، سلامتی کونسل غیر موثر ہوچکا، امریکا غیر مشروط قراردادوں کو ویٹو کررہا ہے، مغربی دُنیا خود کو سب سے زیادہ تہذیب یافتہ اور امن کی علم بردار قرار دیتی ہے۔ امریکا اور مغربی طاقتوں کی ایما پر اقوامِ متّحدہ جنگوں میں انسانی حقوق کیخلاف ورزیوں پر آواز بلند کرتی ہے، جبکہ یونیسیف سمیت یو این او کے دیگر ذیلی ادارے خواتین اور بچّوں کی فلاح و بہبود کے نام پر بے تحاشا رقم خرچ کرتے ہیں، لیکن فلسطین میں کم و بیش گزشتہ ایک سال سے اسرائیل کی وحشیانہ بم باری کے نتیجے میںہزاروں اموات پر، جن میں خواتین اور بچّوں کی بڑی تعداد شامل ہے، مغربی طاقتوں اور اُن سے وابستہ مذکورہ بالا اداروں کا مصلحت آمیز رویّہ ان کے دوہرے معیار کو کھلا اظہار ہے،درحقیقت عالمی قوتوں کے ضمیر کو جھنجھوڑنے اور اہل فلسطین کی ہر ممکنہ سفارتی،مالی اور اخلاقی مدد کرنے کی جتنی ضرورت آج ہے پہلے کبھی نہیں تھی۔امریکہ اور مغربی ممالک کی سرپرستی میں گریٹر اسرائیل کے منصوبے پر عمل کی تیاریاں کی جارہی ہیں، صدیوں سے آباد فلسطینیوں کو ان کی سرزمین سے نکالا جا رہا ہے،اہل فلسطین پر انسانیت سوز ظلم اور نسل کشی میں جہاں اسرائیل اور اس کے حواری ظلم و درندگی کو ظاہر کررہے ہیں وہاں مسلم ممالک کے حکمران بھی اپنی خاموشی کی وجہ سے اس کے ساتھ برابر کے شریک ہیں کیونکہ اس بدترین صورتحال میں بھی او آئی سی اور مسلم ممالک خاموش نظر آتے ہیں اور پوری دنیا خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے،ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلم ممالک کے حکمران اپنے سوئے ہوئے ضمیر کو جگائیں ، اسرائیل ایک ریاست ہے اور ریاست کا ہاتھ کوئی ریاست ہی روک سکتی ہے کسی فرد یا گروہ کے لئے یہ ممکن نہیں ہے،ان حالات میں مسلمان ممالک کو اپنی سفارتی کاوشوں کے ذریعے اسرائیل اور اس کے مغربی حواریوں کو سخت اور ٹھوس پیغام دینا انتہائی ضروری ہے بالخصوص پاکستان کو اس میں پہل کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ پاکستان عالم اسلام میں ایک نمایاں اور طاقت ور ملک کے طور پر دیکھا جاتا ہے وگرنہ عوام کے جذبات بھڑکتے جا رہے ہیں،احتجاج اور بائیکاٹ کی مہم پرتشدد ہوتی جارہی ہے اگر حکمران طبقے نے اپنا کردار ادا نہ کیا تو اس میں اضافے کے خدشات سامنے دکھائی دے رہے ہیں۔