کالم

فیصلہ پھر موخر

چھہ جنوری کو موخر ہونے والا فیصلہ کل تیرہ جنوری کو بھی تیسری بار موخر ہوگیا۔ میں نے بارہ تاریخ کو ٹویٹ کیا تھا کہ کچھ گورے توہم پرستوں کی طرح عمران خان بھی تیرہ تاریخ سے بے حد خائف رہتا ہے لہٰذا اگر یہ فیصلہ تیرہ کو آیا تو وہ ٹوٹ جائے گا لیکن اگر کسی وجہ سے نہ آیا تو اسکی طاقت بڑھ جائے گی۔ وجہ یا تاویل کچھ بھی ہو لیکن جج صاحب نے فی الحال کپتان کو جمعہ سترہ جنوری تک کا وقت دے دیا ہے جسکے درمیان کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ کیونکہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں سازشیں، منصوبے اورمفاہمتیں کوئی نئی بات نہیں۔ہر بار جب سیاسی بحران پیدا ہوتا ہے، تو پردے کے پیچھے ایک نیا کھیل شروع ہو جاتا ہے، جس میں ریاستی اور غیر ریاستی کردار اپنی چالیں چلتے ہیں لیکن پروجیکٹ عمران وہ منصوبہ ثابت ہوا ہے جو نہ صرف ناکام ہوا بلکہ اپنے پیچھے ایک نہ ختم ہونے والا بحران بھی چھوڑ گیا۔بین الاقوامی تعلقات کی طالب علم ہونےکے ناطے، میں ہمیشہ کہتی ہوں کہ ریاست کے مفادات وقت کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں۔ ایک وقت تھا جب افغانستان میں اسٹریٹجک ڈیپتھ ڈاکٹرائن ہماری خارجہ پالیسی کا محور تھا۔ طالبان کو اتحادی سمجھا گیا اور مغربی سرحد پر امن کی امید کےساتھ انکی مدد کی گئی۔ لیکن آج کی طالبان حکومت، خاص طور پر کابل کا موجودہ نظام، نہ صرف اس امید پر پورا اترنے میں ناکام رہا بلکہ ٹی ٹی پی کو کھلی چھوٹ دے کر پاکستان کے لیے ایک نئے خطرے کو جنم دے رہا ہے۔ اسی لئے ریاست پاکستان نے پینتالیس سال بعد اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے اپنے ہی اسٹریٹجک ڈیپتھ ڈاکٹرائن سے دوری اختیار کی کیونکہ اپنے جوانوں کو قربان کر کے پرانی حکمت عملی پر قائم رہنا ممکن نہیں۔عمران خان کے سیاسی بیانیے کی بنیاد بھی ایسے ہی وعدوں اور امیدوں پر تھی۔ دو سیاسی جماعتوں سے جان چھڑانے کےلئے ایک کرکٹ ہیرو کو تبدیلی کے رہبر کے طور پر پیش کیا گیا، لیکن پروجیکٹ عمران کی حقیقت تین سال ہی میں ملک کی لٹیا ڈبو کے بے نقاب ہو گئی۔ ملک تو دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچا سو پہنچا لیکن نومئی کے واقعات ایسی مثال ہیں، جن میں نہ صرف فوجی تنصیبات اور شہدا کی یادگاروں پر حملے ہوئے بلکہ پہلی بار ریاست کی رٹ کو بھی کھلا چیلنج دیا گیا۔ لیکن مسئلہ صرف نو مئی تک محدود نہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ عمران بوتل سے نکلنے والا ایک ایسا جن بن چکا ہے جسے قابو میں لانا ناممکن ہوگیا ہے۔القادر ٹرسٹ اورنوے ملین کیس کے مقدمے کے تین بار موخر ہونے نے پھر پورے ملک میں افواہوں کا ایک نا ختم ہونے والا سلسلہ شروع کردیا ہے جسمیں ڈیل اور مذاکرات سے لے کے بیرونی طاقتوں کی مداخلت یا جج صاحب کی نہ نظر آنے والی انگریزی کے لفظ legal wisdomکے بھی چرچے ہیں کہ کوئی غلطی نہ رہ جانے کی وجہ سے شاید وہ بار بار فیصلہ ایڈٹ کررہے ہیں کہ کہیں اسلام آباد ہائی کورٹ میں بیٹھا چھکا گروپ کپتان کو پچھلے کیسوں کی طرح ضمانت دے کے فیصلہ ہی نہ اڑا دے۔ دوسری طرف کیس اتنا مضبوط ہے کہ ہمارے کولیگ اور دوست حیدر نقوی جیسے سیاسی تجزیہ نگار کہہ رہے ہیں کہ اگر سزا نہ ہوئی تو حکومت اور ریاست کے مستقل انکار کے باوجود ڈیل ہی سمجھی جائے گی کیونکہ روحانیت کی آڑ میں قائم کی گئی یونیورسٹی عوام کےلئے ایک مذاق بن چکی ہے۔ القادر یونیورسٹی کی ویب سائٹ پر آج بھی عمران خان چیئرمین اور ٹرسٹی کے طور پر درج ہیں، اور بشری بی بی بھی ٹرسٹی ہیں۔ تو پھر یہ جھوٹ کیسے بولا جا رہا ہے کہ انکا اس ٹرسٹ سے کوئی تعلق نہیں؟ ملین پانڈ کی رقم، جو ریاست کے خزانے میں جانی تھی، آخر ذاتی ٹرسٹ میں کیوں منتقل ہوئی؟
اب بات کرتے ہیں جج کی تاخیر کی، جو اس مقدمے کا سب سے اہم پہلو بن چکا ہے۔ علیمہ خان کے بیانات، جن میں وہ کہتی ہیں کہ جج کی ہمت نہیں کہ عمران خان کو سزا دے، پی ٹی آئی کی بدمعاشی اور اس کلٹ کے خوف کو ظاہر کرتے ہیں جس سے ضمانتیں مل جاتی ہیں یا فیصلے خلاف نہیں آتے۔ لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ جج صاحب کی تاخیر شاید کسی کمزوری کی علامت نہیں بلکہ ایک حکمت عملی ہو۔ ممکن ہے کہ وہ ایک ایسا فیصلہ دینا چاہتے ہوں جو قانونی طور پر اتنا مضبوط ہو کہ اسلام آباد ہائی کورٹ اسے پلٹ نہ سکے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اگر اب بھی تاخیر کا حربہ آزماتے ہوئے ملزمان یا وکلا نہیں آتے تو عدالت، عمران خان کو جیل سے عدالت میں پیش کرنے اور بشری بی بی کو گرفتار کرنے کا حکم دے، تاکہ فیصلے کی قانونی حیثیت پر کوئی سوال نہ اٹھ سکے۔لیکن یہ بھی نہ بھولیں کہ یہ وہی پاکستان ہے جہاں بینظیر بھٹو نے مشرف کےساتھ این آر او کیا، اور نواز شریف نے سعودی عرب کی ضمانت پر جلاوطنی قبول کی۔ گو کہ عمران خان کے معاملے میں یہ تاریخ شاید دہرانا ممکن نہ ہو کیونکہ وہ خاموش نہیں بیٹھ سکتا۔جب بات بیرونی قوتوں کی ثالثی کی ہورہی ہے تو لندن میں رہتے ہوئے بھی اکثر یہ محسوس ہوتا ہے کہ سیاسی خبروں کی اطلاعات کے حوالے سے چراغ تلے اندھیراکی کیفیت برقرار ہے کیونکہ ویسی باخبر ملاقاتیں نہیں ہوتیں جیسی تاجکستان کے حکومتی و سفارتی عشائیوں میں ہونے والی سیاسی گپ شپ اور پاکستان میں پیدا ہونے والے بحران کے اصل حقائق میں زیادہ خبریں ملتی تھیں کہ کون کون اس کھیل میں ریفری بننے کو تیار ہے ۔ بہرحال کل اس فیصلے کے بعد وائیٹ ہال سے میرے ایک پرانے گورے کلاس فیلو کا میسیج آیا کہ اگر میں مصروف نہیں تو لنچ ساتھ کر لیتے ہیں، لنچ کے دوران میں نے سوال کیا کہ اسلام آباد قتل عام کی فیک نیوز کو فیک سمجھنے کے باوجود بھی آخر مغرب عمران خان میں کیوں دلچسپی لے رہا ہے کیا شاید اسلئے کہ مغرب کو ایسے رہنما پسند ہیں جو نظام سے باہر ہو کر بھی نظام کو مفلوج کرنے اور واپس آنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ اس نے جواب میں الٹا مجھ پر سوالوں کی بوچھاڑ کردی کہ جب بی بی شہید بینظیر بھٹو کو مشرف سے این آر او دلوانے میں اور میاں نواز شریف کو پہلے سعودی عرب اور پھر برطانیہ بھجوانے کی کوششوں کو جمہوریت کی بالادستی کے قدم کے طور پر دیکھا گیا تو عمران خان کےلئے ایسی کسی کوشش کو سازش کیوں سمجھا جا رہا ہے۔ میں نے کہا کہ کیونکہ کسی بھی سیاسی جماعت کے کارکن یوں اسٹیبلشمنٹ سے لڑائی کے چکر میں ملک کو نقصان بلکہ دشمنی پر نہیں اترے تھے جسطرح پی ٹی آئی نے باقاعدہ ایک مہم چلائی ہے۔ میں نے پوچھا کہ تم بتاو¿ کہ جب کیپیٹل کے مجرموں کو فوری سزائیں دی گئیں تو کیوں پاکستان میں نو مئی کے مجرموں کی سزا کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی سمجھا جارہا ہے۔ جب ملین کیس کا مقدمہ نہ صرف عمران خان کی مالی بدعنوانیوں کو بے نقاب کرتا ہے بلکہ یہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ ان کے دورِ حکومت نے ریاست کو کس قدر نقصان پہنچایا تو وہ سیاسی کیسے ہوگیا اور اگر ہے تو خود برطانیہ نے رقم پاکستان کو کیوں واپس کی۔اس نے کہا کہ جو بریفنگ تم دے رہی ہو، وہ تمہاری حکومت برطانیہ یا امریکہ کو کیوں نہیں دیتی، میں نے اسے کہا کہ وہ میرا درد سر نہیں لیکن پاکستانی ریاست کےلئے آخری موقع ہے کہ وہ قانون کی بالادستی قائم کرے اور یہ ثابت کرے کہ ریاست کےخلاف کھڑے ہونےوالوں کو رعایت نہیں ملے گی۔ اس نے پھر پوچھا کہ تم کیا سمجھتی ہو کہ عمران خان کو سزا ہوگی ۔ میں نے کہا کہ وہ لاڈلا تھا اور لاڈلا رہے گا، سزا کے ملنے یا نہ ملنے سے اس کا اسٹیٹس بدل نہیں سکتالیکن سوال یہ ہے کہ ریاست کب تک اپنے لاڈلے کے بوجھ تلے دبی رہے گی؟ میرے سوال کا جواب میرے دوست کے پاس نہیں تھا۔کیونکہ سیاست کی بساط پر سب سے خطرناک چال وہ ہوتی ہے جو حکومتوں اور اسٹیبلشمنٹ سے بھی چھپا کے خاموشی سے چلی جاتی ہے اور جب وہ ظاہر ہوتی ہیں تو کھیل ہمارے ہاتھ سے نکل چکا ہوتا ہے اور یہاں بھی کچھ ایسا ہی ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے