کالم

قومی ترانے کی حرمت ،پی ٹی ایم و ایمنسٹی کا متنازع کردار

پاکستان کا قومی ترانہ محض چند سروں کی ترتیب نہیں، یہ ہمارے اجتماعی وجود کی وہ آہٹ ہے جس میں ہماری تاریخ کی گرد، ہمارے شہیدوں کا لہو، ہمارے بزرگوں کی قربانیاں اور ہماری آنے والی نسلوں کے خواب یکجا ہو کر ایک قوم کا چہرہ بن جاتے ہیں۔ جب یہ نغمہ فضا میں گونجتا ہے تو اس کے ساتھ وطن کی محبت سینوں میں تازہ ہو جاتی ہے۔ قومی ترانے کا احترام کوئی رسمی تقاضا نہیں، یہ ایک ایسا روحانی عہد ہے جو ہر پاکستانی اپنے وطن کے ساتھ نبھاتا ہے۔اسی جذبے کی ایک شاندار جھلک حال ہی میں خیبر پختونخوا اسمبلی میں اس وقت نظر آئی جب پی ٹی آئی کے جرگے کے دوران قومی ترانہ بجا تو پورا ایوان احتراما کھڑا ہو گیا۔ اس لمحے سیاسی اختلافات پسِ پشت چلے گئے اور صرف ایک شناخت باقی رہ گئی ۔ اور وہ شناخت صرف پاکستان تھی۔ یہ وہ وحدت کا احساس تھا جس نے ثابت کیا کہ قومیں اپنے پرچم، شہدا اور علامتوں کے گرد جڑتی ہیں۔لیکن اسی منظر کے ددران ایک افسوس ناک واقعہ نے اس وحدت کی فضا کو مجروح کیا جب پی ٹی ایم کے رہنما نصراللہ ترین اور حنیف پشتین قومی ترانے کے دوران اپنی نشستوں پر بیٹھے رہے۔ان کا یہ طرزِ عمل نہ صرف قومی جذبے کو ٹھیس پہنچانے کے مترادف تھا بلکہ بطور پاکستانی شناخت کے بنیادی تقاضے سے انکار بھی تھا۔ ناقدین کے مطابق یہ رویہ ایک ایسے تاثر کو جنم دیتا ہے جو پہلے ہی سے موجود شکوک و شبہات کو مزید گہرا کرتا ہے کہ آیا یہ اقدام کسی سیاسی احتجاج کی آڑ تھا یا بیرونی ایجنڈوں سے ہم آہنگ بیانیے کی جھلک؟قومی ترانے کی بے حرمتی دراصل ان شہدا کی قربانیوں سے بے اعتنائی ہے جنہوں نے وطن کی حفاظت کے لیے اپنی جانیں قربان کیں جبکہ ان شہدا میں ایک بہت بڑی تعداد پشتون جوانوں کی بھی ہے۔ لہذا اگر پی ٹی ایم کے چند رہنما قومی ترانے سے روگردانی کرتے ہیں تو پشتون شہدا کی عظیم قربانیوں کی توہین کا تاثر پیدا ہوتا ہے، جو ہر محبِ وطن پاکستانی کے دل میں چبھتا ہے۔یہ حقیقت بھی کسی سے مخفی نہیں کہ پاکستان گزشتہ دو دہائیوں سے ایسی دہشت گردی کا سامنا کر رہا ہے جس نے ہمارے 94 ہزار بیٹے ہم سے چھین لیے لیکن اس کے باوجود عالمی ادارے اکثر ان قربانیوں کو نظرانداز کرتے ہیں۔ خاص طور پر ایمنسٹی انٹرنیشنل پاکستان کے خلاف یکطرفہ بیانیہ اپناتی ہے اور بعض مخصوص سیاسی گروہوں خاص طور پر پی ٹی ایم کے موقف کو بلا تحقیق دوہراتی ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ایک مرتبہ پھر اپنے حالیہ بیان میں پاکستان کو نشانہ بنایا، مگر اس میں نہ دہشت گردی کی ان سنگین لہروں کا ذکر تھا، نہ ان شہدا کا جنہوں نے اس ملک کو بچانے کے لیے اپنا خون بہایا۔ ایمنسٹی کی جانب سے زبردستی گمشدگیوں یا ریاستی پالیسیوں پر سوالات تو اٹھائے جاتے ہیں، لیکن یہ بات شاذ و نادر ہی سامنے لائی جاتی ہے کہ دہشت گرد گروہوں کے بیانیے کو یہاں کس طرح اندرونی طور پر سہارا دیا جاتا ہے، یا پاکستان پر حملہ کرنیوالے عناصر کہاں سے آپریٹ کرتے ہیں۔پاکستانی سیکورٹی ادارے روزانہ دہشت گردوں کے خلاف انٹیلی جنس بنیادوں پر آپریشن کرتے ہیں، مگر جب سرحد پار سے دہشت گرد داخل ہوتے ہیں یا افغان سرزمین سے حملے کیے جاتے ہیں تو ایمنسٹی کی رپورٹوں میں اس حقیقت کا شاید ہی کوئی ذکر ملتا ہو، تاہم عالمی اداروں کی یہ خاموشی ایک غیر متوازن تصویر پیش کرتی ہے، جس سے پاکستان کی قربانیاں پس منظر میں دھکیل دی جاتی ہیں۔ ایمنسٹی کی منافقت اس قدر واضح ہے کہ اس کی اپنی ساکھ اس پراپیگنڈے سے بھی تیزی سے غائب ہو رہی ہے جو یہ شائع کرتی ہے ۔
پاکستان کو یہ مکمل حق حاصل ہے کہ وہ ایسے گروہوں اور افراد کی تحقیقات کرے جو انتہا پسندی کو ہوا دیتے ہیں، غیر ملکی ایجنسیوں سے روابط رکھتے ہیں یا قومی سلامتی کے خلاف بیانیے گھڑتے ہیں۔ پی ٹی ایم بارہا سرخ لکیریں عبور کر کے دشمن لابیوں کے مفاد میں بولتی رہی ہے، مگر ہر بار ایمنسٹی کی تشویش صرف انہی پر اٹھتی ہے،جیسے وہ انصاف نہیں بلکہ مخصوص بیرونی مفادات کے اثاثوں کی حفاظت پر مامور ہو۔ حیرت یہ ہے کہ جب پاکستان کے سپاہی اور شہری آئی ای ڈیز کے دھماکوں میں شہید ہوتے ہیں یا سرحد پار سے حملوں کا نشانہ بنتے ہیں تو یہ تنظیم مکمل خاموشی اوڑھ لیتی ہے۔یہ انسانی حقوق کا کام نہیںبلکہ سیاسی مداخلت ہے، جو سرگرمی اور ہمدردی کے نقاب کے پیچھے چھپی ہوئی ہے۔اسی طرح، پی ٹی ایم کا رویہ بھی عرصے سے بحث و تنقید کا محور بنا ہوا ہے۔ پی ٹی ایم اکثر ایسا بیانیہ اختیار کرتی ہے جس سے ریاستی اداروں اور عوام کے درمیان بداعتمادی کو فروغ ملتا ہے،جبکہ کئی مواقع پر اس کے رہنما دہشت گردی سے ہونیوالے نقصان کی صراحت سے مذمت کرنے سے گریز کرتے نظر آتے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ جب پاکستان کے شہدا، اے پی ایس کے بچے، پولیس اہلکار اور قبائلی عمائدین دہشت گردی کا نشانہ بنتے ہیں تو پی ٹی ایم کی تنظیمی ترجیحات میں ان کا ذکر تقریبا غائب ہوتا ہے، مگر ریاستی پالیسیوں کے خلاف سخت لہجہ فوری اپنایا جاتا ہے۔یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا قومی ترانے جیسی متفقہ قومی علامت بھی سیاسی احتجاج کی نذر ہو سکتی ہے؟ کیا اختلافِ رائے کا مطلب یہ ہے کہ ہم اپنی قومی وحدت کی اساس کو نقصان پہنچا دیں؟ دنیا کی کوئی بھی مہذب قوم اپنی علامتوں کی بے حرمتی برداشت نہیں کرتی، کیونکہ ان میں صرف ریاست کی نہیں بلکہ پوری قوم کی روح بولتی ہے۔اختلاف کا حق سب کو ہے، لیکن اختلاف اور انکار میں فرق ہوتا ہے۔ قومی ترانے کا احترام حکومت سے نہیں بلکہ وطن سے ہوتا ہے وطن گھر ہے ،جو سب کا سانجھا ہے اور گھر کا احترام بہر صورت کیا جاتا ہے، شرط صرف یہ ہے کہ انسان اس گھر کو اپنا گھر سمجھے۔ہمیں سوچنا ہوگا کہ کہیں ہم اپنی سیاسی تقسیم کو اس نہج پر تو نہیں لے جا رہے کہ قومی شناخت کے بنیادی ستون ہی کمزور پڑ جائیں۔ کوئی بھی ایسا اقدام جو دشمن کے بیانیے کو تقویت دے، صرف وقتی سیاست نہیں بلکہ دائمی نقصان کا سبب بنتا ہے۔پاکستان اپنی قربانیوں، اپنے شہدا اور اپنے عوام کی استقامت کے باعث قائم ہے ۔ اور ان شا اللہ قائم رہے گا۔ مگر اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنی قومی علامتوں کا احترام کریں، اپنے شہدا کی قربانیوں کو یاد رکھیں، اور ان بیانیوں سے ہوشیار رہیں جو ہمیں تقسیم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔اگر کسی گروہ یا تنظیم کے پاس اعتراضات ہیں تو وہ انہیں قانون، جمہوریت اور مکالمے کے ذریعے رکھے، مگر قومی ترانے کی بے حرمتی یا ایسے اقدامات جن سے بیرونی بیانیوں کو تقویت ملے، وہ کسی طور قابلِ قبول نہیں۔ پاکستان کا وقار اور اس کی حرمت ہم سب کیلئے مقدم ہے اورہمیشہ مقدم رہے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے