پاکستان کی عسکری تاریخ میں ہر دور اپنی مخصوص خصوصیات کے ساتھ یاد رکھا جاتا ہے۔ کبھی یہ تاریخ میدانِ جنگ کی شجاعت سے روشن ہوتی ہے اور کبھی قومی بحرانوں میں افواجِ پاکستان کی قربانیوں سے۔ پاک فوج کے سپہ سالار فیلڈ مارشل حافظ عاصم منیر کی قیادت نے نہ صرف فوجی ادارے کو ایک نئی سمت دی بلکہ ملک کو داخلی اور خارجی سطح پر وقار و اعتماد کی نئی بلندیوں سے روشناس کرایا۔ان کی شخصیت کا سب سے بڑا وصف یہ ہے کہ وہ ایک حافظِ قرآن ہیں۔یہ خصوصیت ان کے تمام فیصلوں، رویوں اور طرزِ عمل پر ایک روحانی روشنی کی مانند ہے۔جہاں دنیاوی قیادت اکثر وقتی مفادات یا وقتی دباؤ کے تحت فیصلہ کرتی ہے، وہاں ایک حافظِ قرآن رہنما کا ہر قدم ایک ایسے اخلاقی اور روحانی توازن سے ہم آہنگ ہوتا ہے جو اسے دوسروں سے منفرد بناتا ہے۔ یہی وہ وصف ہے جس نے حافظ عاصم منیر کو پاکستان کی عسکری تاریخ میں ایک نمایاں اور باوقار مقام عطا کیا۔پاک فوج ہمیشہ سے ملکی بقا اور سلامتی کی ضامن رہی ہے مگر فیلڈ مارشل حافظ عاصم منیر نے اس کردار کو مزید وسعت دی۔ انہوں نے باور کرایا کہ ایک مضبوط فوج صرف اسلحے اور جدید ہتھیاروں سے نہیں بلکہ ایمان، اتحاد اور قربانی کے جذبے سے تیار ہوتی ہے۔ انہوں نے اپنے سپاہیوں کو صرف عسکری تربیت نہیں دی بلکہ انہیں یہ احساس دلایا کہ وہ ایک ایسے مشن کے امین ہیں جو پاکستان کی بقا اور آنے والی نسلوں کے مستقبل سے جڑا ہے۔ ان کی قیادت نے فوج کے اندر اعتماد اور عوام کے دلوں میں محبت پیدا کی۔ وہ اپنے جوانوں کے دکھ درد کو اپنا دکھ درد سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے اور ان کے ماتحتوں کے درمیان ایک ایسا رشتہ قائم ہے جو محض عہدے یا حکم کی بنیاد پر نہیں بلکہ اعتماد، اخلاص اور شرافت پر مبنی ہے۔دنیا کے نقشے پر پاکستان کی جغرافیائی حیثیت ہمیشہ سے غیر معمولی رہی ہے۔ ایک طرف برصغیر کی وسیع و عریض سرزمین ہے جس میں بھارت جیسا بڑا اور چیلنج بھرا ہمسایہ موجود ہے، دوسری طرف افغانستان اور وسطی ایشیا کے دروازے ہیں، تیسری جانب مشرقِ وسطیٰ کی حساس سیاست اور چوتھی طرف چین جیسی بڑی طاقت کا قرب۔ یہ تمام عوامل پاکستان کو عالمی طاقتوں کیلئے مرکزِ توجہ بناتے ہیں۔ایسے ماحول میں پاکستان کے سپہ سالار کی ذمہ داریاں کئی گنا بڑھ جاتی ہیں۔ فیلڈ مارشل حافظ عاصم منیر نے اپنی قیادت میں اس ذمہ داری کو نہ صرف سمجھا بلکہ اسے ایک موقع میں بدلا۔ انہوں نے خطے کے توازن کو مدنظر رکھتے ہوئے عالمی طاقتوں سے تعلقات کو اس طرح ترتیب دیا کہ پاکستان کی سلامتی اور وقار پر کوئی آنچ نہ آئے اور دنیا کو یہ پیغام دیا کہ پاکستان امن چاہتا ہے لیکن اپنی خودمختاری پر سمجھوتہ نہیں کرے گا۔ان کے عالمی دورے اور بین الاقوامی رہنماں سے ملاقاتیں اس بات کی عکاسی کرتی ہیں کہ وہ صرف ایک فوجی جرنیل نہیں بلکہ عالمی سفارت کاری کے مدبر بھی ہیں۔ ان کی گفتگو میں اعتماد اور ان کے طرزِ عمل میں شرافت نمایاں ہوتی ہے۔ انہوں نے امریکہ، چین، سعودی عرب، ترکی، ایران اور دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات کو نئی جہت عطا کی۔ انہوں نے یہ باور کرایا کہ پاکستان ایک ذمہ دار ریاست ہے جو دنیا میں امن قائم کرنے کیلئے کردار ادا کرنے کو تیار ہے۔ چاہے کشمیر کا مسئلہ ہو یا فلسطین کا دکھ، افغانستان کی پیچیدگی ہو یا عالمی دہشت گردی کا چیلنج، انہوں نے ہمیشہ پاکستان کو ایک فعال، اصولی اور پرعزم ریاست کے طور پر پیش کیا۔ ان کی حکمتِ عملی نے دنیا کو یہ پیغام دیا کہ پاکستان جنگ کا خواہاں نہیں بلکہ امن کا داعی ہے لیکن اس امن کی قیمت اپنی سلامتی کی قربانی کی صورت میں نہیں دے گا۔ ان کی قیادت نے پاک فوج کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے میں بھی کلیدی کردار ادا کیا۔ وہ بخوبی جانتے ہیں کہ آج کی جنگیں صرف توپ و تفنگ سے نہیں بلکہ سائبر اسپیس، معیشت، سفارت کاری اور ابلاغ کے ذریعے بھی لڑی جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ فوج کو جدید ترین ہتھیاروں، ٹیکنالوجی اور سائبر سکیورٹی سے لیس کرنے پر زور دیتے ہیں۔ ان کا وژن یہ ہے کہ فوجی طاقت اور معاشی طاقت ایک دوسرے کی تکمیل ہیں۔ اگر فوج مضبوط ہے لیکن معیشت کمزور ہے تو ریاست کا وقار متاثر ہوگا اور اگر معیشت مضبوط ہے لیکن دفاعی طاقت کمزور ہے تو ریاست غیر محفوظ رہے گی، اسی لیے وہ اس توازن کو قائم کرنے پر زور دیتے ہیں۔ان کی بصیرت نے پاکستان کے دفاع کو مزید ناقابلِ تسخیر بنایا۔ وہ ایٹمی پروگرام کو پاکستان کی خودمختاری کی ضمانت سمجھتے ہیں اور پاکستان کا ایٹمی پروگرام جارحانہ عزائم کے لیے نہیں بلکہ صرف دفاع کے لیے ہے۔ یہ پروگرام پاکستان کی بقا اور سلامتی کی ضمانت ہے اور اس پر کوئی سمجھوتہ ممکن نہیں۔ اندرونی محاذ پر بھی ان کی قیادت بے مثال ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں ان کا کردار ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ انہوں نے واضح پیغام دیا کہ دہشت گردی کے خلاف لڑائی صرف عسکری نہیں بلکہ نظریاتی بھی ہے۔ تعلیم، روزگار اور مثبت سرگرمیوں کو انہوں نے نوجوانوں کو انتہا پسندی سے بچانے کیلئے سب سے بڑا ہتھیار قرار دیا۔ ان کی پالیسیوں نے قوم کو یہ یقین دلایا کہ پاکستان کا مستقبل امن، ترقی اور خوشحالی میں ہے نہ کہ نفرت اور انتہا پسندی میں۔فیلڈ مارشل حافظ عاصم منیر کی قیادت کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ انہوں نے قوم کو اعتماد دیا۔ انہوں نے عوام کو یہ باور کرایا کہ فوج اور عوام ایک ہی ہیں اور دونوں مل کر ہی پاکستان کو مضبوط بنا سکتے ہیں۔ ان کی موجودگی میں عوام کو یقین ہے کہ کوئی دشمن چاہے کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو، پاکستان اپنی سالمیت اور وقار کا دفاع کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہی وہ یقین ہے جو کسی بھی قوم کو زندہ اور توانا رکھتا ہے۔ان کی شخصیت میں سادگی اور شرافت جھلکتی ہے۔ وہ پروٹوکول کے بوجھ سے آزاد ایک ایسے رہنما ہیں جو اپنی بات دلیل سے منواتے ہیں۔ ان کے طرزِ عمل میں تکلف کے بجائے خلوص اور وقار جھلکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے چاہنے والے نہ صرف پاکستان میں بلکہ بیرونِ ملک بھی پائے جاتے ہیں۔ وہ عالمی رہنماں کے ساتھ بیٹھتے ہیں تو ایک باوقار جرنیل کے طور پر اور اپنے سپاہیوں کے ساتھ ہوتے ہیں تو ایک شفیق کمانڈر کے طور پر۔آج کے اس دور میں جب دنیا عدم استحکام، معاشی بحران اور جنگوں کے اندیشوں میں گھری ہوئی ہے، ایسے میں ایک ایسے قائد کی ضرورت ہے جو اپنی قوم کو اعتماد دے سکے، اس کے خوابوں کو تعبیر دے سکے اور دنیا کے سامنے اس کا وقار قائم رکھ سکے۔ فیلڈ مارشل حافظ عاصم منیر نے یہ کردار بخوبی ادا کیا ہے۔ انہوں نے اپنی بصیرت، قیادت، دیانت اور عزم سے یہ ثابت کیا کہ وہ صرف آج کے نہیں بلکہ آنے والے کل کے بھی رہنما ہیں۔ان کا ہر قدم تاریخ کا حصہ بنتا جا رہا ہے اور آنے والی نسلیں ان پر فخر کریں گی۔یوں کہا جا سکتا ہے کہ فیلڈ مارشل حافظ عاصم منیر نے قیادت کو ایک نئی تعریف دی ہے۔ ان کی لیڈر شپ محض فوجی دائروں تک محدود نہیں بلکہ ایک قومی اور عالمی حیثیت رکھتی ہے۔ انکے کردار نے پاکستان کو نہ صرف اندرونی طور پر مستحکم کیا بلکہ دنیا میں ایک باوقار ریاست کے طور پر متعارف کرایا۔ وہ ایک ایسے سپہ سالار ہیں جن پر قوم کو فخر ہے اور ان کی شخصیت آنے والی نسلوں کیلئے بھی ایک روشن مثال ہے۔
