کالم

مالی اداروں کے سنگلوں میں جکڑی قوم

ہماری بد قسمتی ہے کہ بحیثیت قوم بین الاقوامی سطح پرہماری جو عزت ہونی چاہیے وہ نہیں بس پبلسٹی پر چل رہے ہیں۔ آپ اگر دیار غیر کا سفر اختیار کر کے منزل پر پہنچتے ہیں تو ایئرپورٹ پر امیگریشن والے کچھ اس طرح آپ کے ساتھ سلوک کرتے ہیں جیسے آپ مشکوک ملزم ہیں ایسا کیوں ہے ؟شاید اس لیے کہ ہم غریب قوم اور ادھار مانگ مانگ کر وقت گزارنے والی حیثیت کے مالک ہیں ۔ قرض لے کر قرض اتارتے ہیں جو اس وقت 87 ہزار ارب ہو چکا ہے امارت کا یہ عالم ہے کہ ملک میں ا س وقت اکثریت امرا کی ہے ان کا طرز زندگی اس طرح ہے کہ غریب اس کی پارک کی گئی گاڑی سے بھی کئی گز دور ہو کر گزرتا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ انجانے میں ہاتھ بھی ٹچ ہو گیا تو مشکل کو خود آواز دینے کے برابر ہوگا حکومت کے نمایندے قرض مانگنے جاتے ہیں تو اعلی لباس کے ساتھ فائیوسٹار ہوٹلوں میں رہنا ان کی مجبوری ہے کیونکہ اگر وہ ایسا نہ کریں تو یہ عمل ملک اور قوم کی بدنامی کا باعث بن سکتا ہے ایسا کرنا وقت کی ضرورت ہے وہ یہ سب دل سے نہیں کرنا چاہتے کیونکہ قوم کے ادھار والے پیسے کو بے دریغ خرچ کرنا انکے ضمیر کے اگرچہ خلاف ہے لیکن مجبوری میں تو سب جائز ہوتا ہے۔ ادھار ملتے ہی حکومت دیگر اخراجات کے ساتھ پرانی گاڑیوں کو نئی گاڑیوں میں تبدیل کرنے کی کوشش کرتی ہےتاکہ وزرا خوش ہوں اس سے منزل مرا د تک پہنچنے میں وقت کی بچت ہوتی ہے جو قوم کی امانت سمجھ کر کسی دوسری جگہ مثبت انداز میں صرف ہو سکتا ہے اور اسکے نتائج اور ثمرات بھی نمایاں ہونا شروع ہو جاتے ہیں صاحب اقتدار افراد کو ترقی اور خوشحالی کے عوامی منصوبوں کے لیے بجٹ مختص کرنے میں بہت آسانی ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ پچھلی سات دہایﺅں سے ملک کے کونے کونے میں خوشحالی اور ترقی لشکارے ماررہی ہے لوگ مطمئن ہیں کہ ان کی قوت خریدوقت کے ساتھ اور حالیہ دور میں کمزور نہیں ہوتی بلکہ بین الاقوامی سطح پر روپے کی قدرمیں اضافہ ہوا ہے بے قدرے لوگ کیا جانیں دنیا میں کیسے عزت کروائی جاتی ہے لوگ صرف روٹی کپڑا اور مکان کے گرد طواف کرتے رہتے ہیں یا یہ شور مچاتے رہتے ہیں کہ گزر اوقات مشکل ترین ہوچکی ہے حکومت سے زیادہ سمجھدار کون ہو سکتا ہے وہ کہتے ہیں مہنگائی کم ہو چکی ہے ایک ڈیجٹ پر مہنگائی ہے عوام اسے دو ڈیجٹ بناتے ہیں اکثریت تو ہوتی ہی جھوٹی ہے ان کی باتوں اور بے بنیاد شور شرابے کا کیا جواب دیا جائے بس کبھی کبھار عوامی بے بنیاد دعووں کا جواب کہ جو کہ اکثر دوروغ گوئی پر مبنی ہوتے ہیں جواب دینا ضروری ہوتا ہے تاکہ بین الاقوامی اور قومی سطح پر حکومتی وقار مجروح نہ ہو عوام تو شغل میلے میں لگے ہی رہتے ہیں بیکار قوم صرف بے بنیاد باتیںہی بناتی رہتی ہے سچ تو ان کے قریب سے بھی نہیں گزرتا صرف حکومت نے سچ بولنے کا نہ صرف عہد کیا ہے بلکہ شب و روز نیک نیتی اور دل کی اتھاہ گہرائیوں سےملک ،قوم کی ترقی خوشحالی کیلئے
جان مار رہے ہیں قوم احسان فراموش ہے یہ کبھی کسی کے نہیں بنے صرف عمران خان کے بنے ہیں جس نے حکومت سنبھال کر بھی کوئی قابل ذکر کام نہیں کیا لوگ اور خصوصا اس کے تیز بال کے اوربلے کے جادو میں پھنسے ہوئے ہیں جو سر چڑھ کر شور مچا رہے ہیں وقت ایک جیسا نہیں رہتا کیااس کی پاپولیرٹی زوال پزیر ہوئی اسے بھی انتظار کی سولی پر لٹکتے رہنا ہوگا اچھا برا وقت گزر ہی جاتا ہے تاریخ دان سب حالات قرطاس پر اتاریں گے۔ عوام کو احساس ہی نہیں کہ سات ار ب ڈالر بیل آو¿ٹ پیکج کیلئے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ نے قرض دینے کے ساتھ اتنی سخت شرائط رکھی ہیں کہ حکومت پریشان ہےوفاق کی بات تو الگ صوبوں میں وسائل کی تقسیم پر ان کے اخراجات کی نگرانی ہوگی ترقیاتی کاموں میںآئی ایم ایف کی منظوری ہوگی توانائی کے شعبے کو جی ڈی پی کے ایک فیصد سے زیادہ سبسڈی نہیں دی جائے گی حکومت کو اناج کی قیمتیں مقرر کرنے میں بھی آزادی نہیں ہوگی قرض کے عرصے میں پاکستان اضافی گرانٹ حاصل نہیں کریگا زرعی شعبے رئیل سٹیٹ اور ریٹیل سیکٹر کو ٹیکسوں کے دائرے میں لانا ہوگا اگرچہ زرمبادلہ کے ذخائر چند اقدامات سے بہتر ہوئے ہیں لیکن آئی ایم ایف کے مطابق تعلیم صحت پر ملکی اخراجات قابل ستائش نہیں شرائط میں اس ادارے نے کہا کہ اگر معاشی اصلاحات کیلئے سنجیدہ کوشش نہ کی گئیں تو پاکستان ترقی پزیر ممالک کی صف میں مزید پیچھے رہ جانے کے خطرے میں ہوگا۔حکومت نے مالی مشکلات پر قابو پانے
کیلئے غیر دستاویزی معیشت کو دستاویزی بنانے کو ترجیح کہا ہے حکومت کے پاس امرا کی عیاشیوں کی معلومات موجود ہیں بڑی بڑی گاڑیوں کی خرید اور بیرون ملک تفریح کے سفر سب بند کرنے ہوں گے زراعت ہول سیلر ریٹیلر اور پراپرٹی کے شعبوں کو ٹیکس نیٹ میں لانا ضروری ہو چکا ہے یہی نہیں بلکہ رائٹ سائزنگ ایجنڈے میں مزید سرکاری ادارے بند کرنا ہوں گے جن پر کابینہ کی منظوری کے بعد عمل درآمد ہوگا سوال یہ ہے کہ آئی ایف سے سات ارب ڈالر بیل آوٹ پیکج کی منظوری کے بعد دیگر مالی اداروں سے اور دیگر ممالک سے جن سے ہم انگریزی عربی میں ان کے بچوں کی دعائیں دیگر قرض کی درخواست کرتے ہیں انکی مالی مدد سے ہم آٹھ ہزار ارب روپے کے غیر ملکی قرضوں سے نجات حاصل کرنے کے قابل ہو جائیں گے کیا زرمبادلہ کے زخائر قرض لیے بغیر مستحکم رہیں گے ؟ کیا عام آدمی کی مشکلات کم کو سکیں گی ان مشکل حالات پر قابو پانا بظاہر مشکل نظر آتا ہے لیکن یہ حکومت وقت کیلئے بڑا چیلنج ہے پر عزم رہ کر عمل پیہم سے مشکلات پر قابو پایا جا سکتا ہے یہ بھی بہت ضروری ہے کہ حکومت اپنے اخراجات میں کمی لائے عوامی دولت کو ماموں جی کا مال سمجھ کر خرچ نہ کیا جائے بلکہ جہاں جہاں اخراجات میں کمی لائی جا سکتی ہو ضرور کمی لائی جائے اور وہ نظر بھی آئے پاکستان کی ایکسپورٹ میں بھی وقت کے ساتھ اضافہ ہونا چاہیے ایکسپورٹرز کو مناسب اور ضرورت کے مطابق مراعات ملنی چاہیں تاکہ ملک کی آمدنی میں اضافہ ہو اور قرض کی دبیز تہیں بھی ہلکی ہوں عوام تو ہمیشہ ہی سے ملک کیلئے قربانیاں دیتے چلے آ رہے ہیں یہ وقت امرا کیلئے سوچنے اور عمل کر نے کا ہے کہ وہ ملک کے قرض اتارنے میں حکومت کی مدد کریں ہمارے ملک میں کئی فلاحی ادارے عوامی خدمت میں مصروف ہیں انہوں نے اس بات کا اظہار بھی کیا ہے کہ ان سب کیلئے ملک کا قرض اتارنا مشکل نہیں حکومت ان سے رابطہ کرے اور بات چیت کے ذریعے لائحہ عمل تیار کرے لیکن حکومت کی جانب سے مثبت جواب ان اداروں کومثبت جواب نہیں مل رہا جسکی وجہ حکومت وقت بہتر سمجھتی ہوگی لیکن عام سوچ یہی ہے کہ اگر اپنے مل بیٹھ کر ملک کو قرض کے سنگلوں سے آزاد کر سکنے کے قابل ہیں تو دیر کس بات کی۔ اس وقت ماحول یہ ہے کہ ادارے آپس میں دست و گریباں ہیں عدلیہ بھی کسی سے پیچھے نہیں جج صاحبان جس انداز بیان سے اپنے قیمتی خیالات کا اظہار فرما رہے ہیں کیا یہ ان کی شا ن کی مطابقت میں ہے عام آدمی خصوصا نئی نسل بزرگوں اور صاحب اختیار اشرافیہ سے کیا سیکھ رہی ہے یہی نہ کہ لڑنے بھڑنے کے شائستہ انداز کیسے ہوتے ہیں اللہ ہمارے ملک پر رحم فرمائے ہم کبھی بھی ایک قوم نہیں بنے صرف قومی ترانوں میں میوزک کے ساتھ سننے ایک قوم بننےکا موقع ملتا ہے وہ بھی چار پانچ منٹ کیلئے لیکن حقیقت اس تشہیر سے قطعی مختلف ہے سوشل میڈیا نے الگ گند پھیلایا ہوا ہے ایک سیلزمین ملک کے نامور شخص کیلئے اسکی فیملی کے سامنے گھٹیا زبان استعمال کر سکتا ہے جذباتی لوگ جشن منانے لگے ہمارے اخلاقی اقدار کا جنازہ نکل چکا۔ اندرون ملک لا اینڈ آرڈر کے حالات تسلی بخش نہیں ملک کی دشمن طاقتوں سے عسکری جوانوں کے مقابلے میں آئے دن شہدا کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے