کالم

مجھے کیا برا تھا مرنا اگر ایک بار ہوتا !

یہ فریاد پہلے پہل غالب نے کی تھی ، مگر کون جانتا تھا کہ یہ فریاد غالب کے بعد ہماری قسمت میں تقدیر کی طرح ثبت کر دی جائے گی ۔ حالات ایسے بدتر ہو جائیں گے کہ ہر کسی کے منہ سے یہی فریاد سننے کو ملے گی ، کون جانتا تھا ۔ موت ایک یقینی عمل ہے جو سب کو آنی ہے ۔ موت کا ذائقہ ہر ذی روح نے چکھنا ہے مگر یہ ذائقہ اگر روز روز چکھنے کو ملے تو سوچیے انسان کس اذیت سے دوچار ہو گا ؟ دراصل یہ موت انسان کی یکبارگی موت نہیں بلکہ انسان کی لمحوں میں موت ہے ۔ مگر اس سے زیادہ اذیت ناک عمل یہ ہے کہ یہ اذیت سہنے والا شخص اگر سفید پوش ہو تو کیا صورتحال ہو گی ۔ یہ وہی صورتحال ہو گی کہ ایک شخص جسے دیمک چاٹ رہی ہے مگر بتانے سے قاصر ہے ۔ جب سے پاکستان بنا ہے یہی صورتحال پاکستان کی اس قوم کی قسمت میں لکھ دی گئی ہے جس کے سدھرنے کے امکانات دور دور تک نظر نہیں آتے ۔ عوام روز روز اندر ہی اندر مر رہی ہے مگر التجا کس سے کرے ؟ عوام روز روز خود کو اندر سے کھا رہی ہے مگر کس کو دل کی کہانی سنائے ؟ یہاں کون سنتا ہے ؟ حکومتی اراکین ووٹ لے کر اتنے اونچے عہدوں پر جا بیٹھتے ہیں کہ پھر اگلے ووٹ ہونے تک ان تک کسی شخص کی آواز پہنچنا نا ممکنات میں سے ہے ۔ اس پر عوام کو مذہب کا ٹیکا لگایا جاتا ہے کہ یہ جو کچھ ہے یہ اللہ کی طرف سے ہے ۔ بیشک سب اللہ کی طرف سے ہوتا ہے ۔ مگر کیا آپ اللہ سے برائی کو ، ظلم کو ، بربریت کو ، نا انصافی کو ، جوڑ سکتے ہیں ؟ کیا خدا عادل نہیں ؟ کیا خدا رحیم نہیں ؟ کیا خدا بھلائی کرنے والا نہیں ؟ اگر ہے تو یہ خدا کی شان کے منافی ہے کہ ہم کہیں کہ یہ بھوک ، یہ ظلم ، یہ بربریت ، یہ نا انصافی یہ قہر ، یہ افلاس ، خدا کی طرف سے ہے ۔ ایسا نہیں ہے ۔ بلکہ خدا نے اس دنیا میں انسان کو اپنا نائب بنا کر بھیجا ہے ۔ مگر وہ نائب اس دنیا میں آ کر خود خدا بن گیا ہے ۔جب یہ چھوٹے چھوٹے خدا ہر جگہ اپنے سے نچلے طبقے کا خون چوسنے پر تیار بیٹھے ہوں تو بتائیے کیسے کوئی انسان جی سکے گا ؟؟ کیسے کوئی شخص یہ کہے گا کہ میں ایک اسلامی جمہوریہ مملکت میں رہتا ہوں جو کلمے کی بنیاد پر بنی تھی ۔جب ہر آدمی اپنے سے چھوٹے کا خون چوس رہا ہے اور ہر خون چوسنے والے کا خون کوئی اور چوس رہا ہے تو بتائیے یہ پل پل کی موت مرنا نہیں تو اور کیا ہے ؟ گویا پوری امت کا شیرازہ بکھر چکا ہے ، یعنی اب یہ امت مسلمہ نہیں بلکہ امتِ قاتلہ و مقتولہ بن چکی ہے۔ جہاں کسی کا حق محفوظ نہیں ، جہاں روز کئی مقتول اپنے قتل کے مقدمات لے کر دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں ۔ جہاں روز کئیوں کی عزتیں اور گھر بار لوٹے جا رہے ہیں ۔ اور لٹنے والوں کے غم کی شنوائی کہیں نہیں ۔ کیونکہ قتل کرنے والے وہ ہیں جنہیں اسلام نے کہا کہ "سب مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں ” ۔ جب بھائی بھائی کا گلہ گھونٹے گا تو کون کہے گا کہ یہ ظلم ہو رہا ہے ۔!بھلا یہ بھی کوئی ظلم ہے کہ روز کئی مزدور سڑکوں پر دھکے کھاتے ہیں اور رات کے وقت اسی فٹ پاتھ پر سو جاتے ہیں اور کئی امرا پیسے کے نشے میں دھت ان پر اندھا دھند گاڑیاں چڑھا دیں ۔ بھلا یہ بھی کوئی ظلم ہے کہ راہ چلتی ہوئی عورت کے کان کی بالیاں اسلامی مملکت پاکستان میں کوئی کھینچ کر لے جائے اور نغمے بجیں کہ ہم زندہ قوم ہیں ۔ جس ملک میں سیاسی جماعتیں آپس میں کرسی کیلئے گتھم گتھا ہیں ، اور حکمران ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے میں مصروف ہیں ، مہنگائی آسمان کو پہنچنے کی بجائے ، دو آسمان پار کر چکی ہے ، غریب کو جان کے لالے پڑے ہیں ، سفید پوش روز پھانسیاں لے رہے ہیں ، کئی والدین روٹی نہ ہونے کے باعث رات کو اپنے بچوں کا گلہ گھونٹ کر انہیں ابدی نیند سلا دیتے ہیں ، وہاں پل پل موت نہ ہو تو کیا ہو گی ؟ کیا یہ پل پل کی موت پوری امت مسلمہ کی موت نہیں ؟حفیظ تائب کا ایک شعر ہے کہ :
اے نویدِمسیحا !تری قوم کا حال عیسی کی بھیڑوں سے ابتر ہوا
اس کے کمزور اور بے ہنر ہاتھ سے چھین لی چرخ نے برتری یا نبی
نہیں معلوم !یہ پل پل کی اذیت اور یہ کرب کب ختم ہو گا اور کب اس قوم کو سکون اور راحت نصیب ہو گی ۔
میر تقی میر نے اپنے زمانے میں فرمایا تھا کہ :
میر صاحب زمانہ نازک ہے
دونوں ہاتھوں سے تھامیے دستار
مگر اب صورتحال اس سے کئی گنا بدتر ہو چکی ہے !
تھا میر جی کا دور غنیمت ،کہ ان دنوں
دستار ہی کا ڈر تھا ، مگر اب تو سر کا ہے
قوم کی دستار تو کھو چکی ، اب سر دا پہ ہے ، دیکھیے کب تک یہ سلسلہ چلے !

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri