ریاستی دہشت گردی سے نمٹنا کسی بھی ملک کیلئے ایک چیلنج ہی نہیں بلکہ انتہائی حساس عمل ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے افغانستا ن اور بھارت کی دہشت گرد تنظیمیں جہاں عرصہ دراز سے اپنے اپنے ملکوں میں خوف اور دہشت کے خون آلود ناخن گاڑے ہوئے ہیں وہاں چند دہائیوں سے انتہا پسندی ، دہشت گردی اور شرانگیز کارروائیوں سے علاقائی امن کیلئے سوالیہ نشان بنی ہوئی ہیں۔پاکستان میں خیبر پختونخواہ اور بلوچستان میں پاکستانی سکیورٹی فورسز کی جانب سے مختلف آپریشنزاور انسداد دہشت گردی کے حوالے سے کی گئی موثر کارروائیوں سے دہشتگردوں کے عزائم کو بارہا ناکام بنایا گیا ہے مگر دشمن ابھی بھی اپنی سازشوں اور منفی ہتھکنڈوں سے باز نہیں آیااور دہشت گردی کی آڑ میں ہر شعبہ زندگی کو متاثر کر رہا ہے۔ حال ہی میں بلوچستان میں کو ئٹہ کے علاقے افنان سے گرفتار ہونیوالے پروفیسرڈاکٹر محمد عثمان قاضی کے حوالے سے مصدقہ حقائق جان کر دل دھک سے رہ گیا کہ ایک شخص علم کی مسند پر بیٹھ کر اور انبیا کی وراثت (علم)کا مصداق ہو کر دہشت گردوں کا سہولت کار کیسے بن گیا؟ پروفیسر عثمان قاضی کے اعتراف جرم نے جلتی پر تیل ڈالنے کا کام کیا اور یہ سو چنے پر مجبور کر دیاکہ علم تو انسان کو جہالت کی تاریکیوں سے نور ہدایت کی طرف چلنے کا روشن راستہ فراہم کرتا ہے۔علم تو امن و استحکام اور مشترکہ مفاد کا داعی ہوتا ہے۔ جب اس علم کی ترسیل ایک استاد کے ہاتھ میں آتی ہے تو وہ معاشرے کیلئے رول ماڈل بنتا ہے ۔ استاد ایک ایسا رہنما ہوتا ہے جو صرف کتابی علم ہی نہیں دیتا بلکہ طلبہ میں شعور بیدار کرتا ہے۔استاد کی شخصیت طلبہ کے اخلاق و کردار پر ایسے نقوش ثبت کرتی ہے جو تاحیات ان کے ممد و معاون رہتے ہیں ۔ پروفیسر عثمان جیسے وطن کے غدار کے نام کیساتھ پروفیسر لفظ کا استعمال بھی اس مقدس شعبہ کے ساتھ غداری ہے۔ چونکہ وضاحتی طور پر لکھنا نا گزیر ہے اس لیئے یہ عریضہ لکھتے وقت ہاتھوں پہ لرزہ ضرور طاری ہے کہ ایک شخص ایک مقدس مسند پر بیٹھ کر ملک و قوم کے ساتھ غداری کیسے کر سکتا ہے۔لیکن افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ محمد عثمان قاضی نے دہشت گردوں کا آلہ کار بن کر شیوہ پیغمبری اور ناموس وطن پر ایک ایسازخم لگانے کی کوشش کی ہے جسے اگر وطن کی شیر دل پاک افواج کے نوجوان بروقت کارروائی سے ناکام نہ بناتے تو یہ ارض پاکستان کیلئے ناسور بن جاتا۔ حیرانی اس بات پر ہے کہ ملک دشمن عناصرنے سوشل میڈیا کا سہارا لے کر اس ریاستی دہشت گردوں کے سہولت کار کو”ریاستی جبر کا شکار "بنا کر پیش کیا اور ایک کھلی سچائی کو جھوٹ اور منافقت کے زمرے میں تبدیل کرنے کی کوشش کی۔ المیہ یہ ہے کہ جب بھی سکیورٹی فورسز نے ملک کو اندرونی و بیرونی خطرات سے بچانے کی کوشش کی ہے ، شرپسند عناصرنے افواج پاکستان کو تنقید کا نشانہ بنایااور بالاخر حقیقت نے افواج پاکستان کو مثبت اقدام پر سرخرو کیا ۔ محمد عثمان قاضی کے حوالے سے حقائق واضح کرتے ہوئے یہ بتاتا چلوں کہ پروفیسر محمد عثمان قاضی عرف (امیر)محض (BUITEMS)بلوچستان یونیورسٹی آف انفارمیشن ٹیکنالوجی انجینیئرنگ اینڈ مینیجمنٹ سائنسز کے پروفیسر ہی نہیں تھے بلکہ گزشتہ 4 سے 5 سالوں سے کالعدم تنظیم بی ایل اے اور اس کے خود کش ونگ ، مجید بریگیڈ کے کلیدی کارندے اور ہینڈلرتھے اور یونیورسٹی پلیٹ فارم کے پس پردہ نوجوان طلبہ کو انتہا پسندی کی طرف مائل کرنے اور بھرتی کرنے کیلئے استعمال کر رہے تھے۔دکھ اس بات کا ہے کہ مادر علمی تعلیم کیلئے نہیں بلکہ دہشت گرد نظریات پھیلانے کیلئے استعمال ہو رہا تھا۔افسوس ناک امر یہ ہے کہ یہ شخص جس نے اپناپورا کرئیر ریاست کے بل بوتے پر بنایا ،اور اس کی تعلیمی مساعی کی تکمیل ریاست کے خرچ پر ہوئی۔قائد اعظم یونیورسٹی کے سکالر شپ پر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد گریڈ 19پر فائز ہوا جبکہ اس کی اہلیہ بھی گریڈ 17پر اپنے فرائض منصبی ادا کررہی تھی۔یوں یہ سارا خاندان ریاستی سہولتوں سے مستفید ہو رہا تھا اور کم ظرفی کی انتہا ہے کہ ان سب سہولیات کے باوجود اس پڑھے لکھے جاہل نے ایک لمحے کیلئے بھی ریاست کے بارے میں نہ سوچا اور وطن سے غداری کرتے ہوئے دہشتگرد گروہوں کا سہولت کار بن گیا۔ محمد عثمان قاضی کچھ ایسے نیٹ ورکس کی پشت پناہی کر رہا تھا جنہوں نے بیگناہ لوگوں سمیت سکیورٹی فورسز کو نقصان پہنچایا۔بی ایل اے کمانڈر بشیر زیب، رحمان گل اور ڈاکٹر بیبتان بلوچ کے احکامات پرکام کرتے ہوئے اور یونیورسٹی کے ماحول سے پورا فائدہ اٹھاتے ہوئے طلبہ کو فوج مخالف پراپیگنڈے کا حصہ بھی بنا رہا تھا ،ساتھ ہی ساتھ ان ملک دشمن عناصر کیساتھ مل کر اگست میں یوم آزادی کے موقع پر اہم ترین تقریبات پر حملہ کرنے کی سازش بھی کر رہا تھا۔اس سے قبل حقائق اور پروفیسر عثمان قاضی کے اپنے بیان سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ اس نے 9نومبر 2024 کو بابر رفیق نامی دہشتگرد کو کوئٹہ ریلوے اسٹیشن پر حملے کیلئے بھیجا تھا۔ جس کے نتیجے میں32عام شہری اور22 سکیورٹی اہلکارشہید ہوئے ،ریاستی سہولتوں سے مستفید ہونے والا دہشتگردوں کا سہولت کار اس پر بھی خوش نہ ہوا بلکہ14 اگست کے موقع پر کوئٹہ میں ہونے والی ایک بڑی تقریب میں خود کش حملے کی تیاری کر رہا تھا تاکہ دہشت گرد شیر دل ( بہاالدین مری)کو پناہ دے سکے اور فورسز کی کارروائیوں سے بچا جا سکے۔ جہاں ایک طرف پروفیسر محمد عثمان قاضی کا اعتراف جرم بلوچستان میں سکیورٹی فورسز کی بروقت کارروائی اور امن وامان کی صورتحال کو قابومیں کرنے کا منہ بولتا ثبوت دے رہا ہے، وہاں اب بھی بی ایل اے سے وابستہ گروہ اسے "عوام کی فکری آواز” کے طور پر پیش کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ محمد عثمان قاضی کے بیانیہ کے بعد مخالف پراپیگنڈے پر کچھ سوالات ضرور جنم لیتے ہیں: پہلا سوال ریاست مخالف بیانیے سے متعلق پیدا ہوتا ہے کہ ایک شخص جس نے مکمل طور پر ریاستی وظائف،سکالر شپس اور سرکاری ملازمت سے فائدہ اٹھایا ہو، پھر بھی دہشت گرد گروہوں کے نیٹ ورکس کا حصہ ہو اور ان کیلئے اپنی ہی ریاست کیخلاف راستہ ہموار کرنے میں مدد فراہم کرتا ہو، تو ایسے شخص کو مظلوم یا دانشور کے طور پر کیسے پیش کیاجا سکتا ہے؟ دوسرا سوال صحافیوں اور دانشوروں پر اٹھتا ہے کہ یہ لوگ جب ایسے شخص کی حمایت میں لب کشائی کرتے ہیں یا لکھتے ہیں تو کیا ایک لحظہ بھربھی یہ احساس پیدا نہیں ہوتا کہ آپ ایک ایسے نیٹ ورک کو تقویت دے رہے ہیں جس نے درجنوں بیگناہوں کو شہید کیا ہو۔ یقینا اہل دانش ہرگز ایسے فرد کی حمایت نہیں کرینگے۔ تیسرا سوال بیانیہ جنگ سے متعلق جنم لیتا ہے۔ کیا آپ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ یہ در حقیقت بیانیہ جنگ ہے جس میں دہشت گردی کو نظریاتی جدہ جہد کا نام دے کر حقیقت حال کو عام آدمی کی نظر سے دور رکھنے کی کوشش کی جارہی ہے؟ اگر ہاں تو آپ کس کے ایجنڈے کو تقویت دے رہے ہیں۔چوتھا سوال ریاستی پالیسی کا استحصال ہے۔اگر کوئی شخص ریاستی وسائل بروئے کار لاکر تعلیم کے حصول سے لیکر سرکاری عہدے پر فائز ہو اور پھر انہی وسائل کے خلاف بغاوت کرے تو کیا یہ صریحا ریاستی دھوکہ دہی اور غداری نہیں ؟ پانچواں سوال میڈیا اور خاص طور پر سوشل میڈیا کے کردار پر کھڑا ہوتا ہے کہ کیا میڈیا پر ایسے افراد کو فکری رہنما یا ریاستی جبر کا شکاردکھا کر عوام میں اشتعال پیدا کرنا ، انہیں گمراہ کرنا ، اپنی ہی افواج اور سکیورٹی فورسز کیخلاف اکسانا دہشت گردی کو جواز فراہم کرنے کے مترادف نہیں ۔ یہ سب ایسے سوالات ہیں جن کا جواب یقینا ارض پاکستان کے ہر باشعوراور حب الوطن شہری کے پاس ہوگا لیکن ایسے افراد جن کا مقصد وطن سے غداری کا جواز تلاش کرنا، قومی و ملی مفاد کے برعکس ریاست کو عدم استحکام سے دوچار کرنا ، انتہا پسندی اور منافرت پھیلانا ہو، وہ ان سب سوالات کے جوابات دینے سے ضرور گریز کریں گے۔ مگر وطن عزیز کی سالمیت اور بقا کیلئے پاک فوج نے ہمیشہ مثبت اور رفاہی کردار ادا کیا ہے۔دہشتگردی سے نمٹنے کیلئے سکیورٹی فورسز کا ہر لائحہ عمل قابل تحسین ہے ۔ افواج پاکستان خطے میں انسداد دہشتگردی کے خلاف اٹھا ہوا ہر قدم ملک و قوم کی امن وسلامتی، ترقی و خوشحالی اور استحکام کا ضامن ہے۔