کالم

مسلم دنیا کی بے بسی

فلسطینیوں پر اسرائیلی جبر اور ظلم کی انتہا ہوچکی، اور اس وحشیانہ جارحیت پر بین الاقوامی برادری اور مسلم امہ کی بے حسی بھی کھل کر سامنے آچکی ہے ۔ بلاشبہ جب تک دنیا کے مہذب معاشرے اسرائیل کی دہشت گردی کے خلاف متحد ہو کر مو¿ثر آواز بلند نہیں کریں گے یہ ناجائز ریاست پوری دنیا میں دہشت گردی پھیلانے کا باعث بنتی رہے گی۔ اسرائیلی فوج کی سفاکانہ بمباری، قتل و غارت گری پر مسلم ملکوں کی حکومتوں اور افواج کی افسوسناک بے عملی کے مقابلے میں لبنان کی غیر سرکاری تنظیم حزب اللہ کی اسرائیل کے خلاف جاری مو¿ثر کارروائیاں مظلوم فلسطینی مسلمانوں اور ان کی مزاحمتی تنظیم حماس کی عملی تائید و حمایت کی نادرمثال ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیلی حکمراں حسن نصراللہ اور ان کے ساتھیوں کے خون کے پیاسے بن کر ان کے وجود کو صفحہ ہستی سے مٹانے کیلئے مسلسل کوشاںرہے ہیں ۔ حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ کی اسرائیلی حملے میں شہادت بلاشبہ پوری مسلم دنیا کا ناقابل تلافی نقصان ہے ۔ آج بدترین اسرائیلی مظالم پر نہتے فلسطینی اپنا دفاع پتھروں سے کررہے ہیں جبکہ اسرائیلی گولہ بارود، ٹینک اور جنگی جہاز ان کیخلاف استعمال کررہے ہیں، یہ تمام مناظر پوری دنیا دیکھ رہی ہے ۔ فلسطینی معصوم بچوں، بوڑھوں، جوانوں اور عورتوں کا قتل عام اس امر کا واضح ثبوت ہے کہ اب اسرائیل کی ریاست پوری دنیا میں دہشت گرد ریاست کے طور پر ابھر کر سامنے آئی ہے جو امریکا اور برطانیہ کی کوششوں سے ناجائز طور پر وجود میں آئی تھی۔ اسرائیلی مبینہ مظالم کے باوجود عالم یہ ہے کہ عالمی طاقتیں مسلسل اسرائیل کی پشت پناہی کرتی چلی آرہی ہیں، اور عرب ممالک نے بھی امریکا کو اپنی سرزمین پر فوجی اڈے دے رکھے ہیں کیونکہ ان ممالک میں بادشاہت ہے اور حکمران امریکا کے زیر سایہ رہ کر اپنا اقتدار مضبوط بنائے رکھنا چاہتے ہیں ، اور ساتھ ہی اسرائیل کو بھی اپنی سرزمین پر اعلانیہ اور غیر اعلانیہ طور پر رسائی دیتے رہتے ہیں جبکہ مسلم امہ کے اکثر شاہی خاندان اسرائیل کے ساتھ اپنے باقائدہ روابط بھی استوار کرچکے ہیں جبکہ ریاست پاکستان نے اپنے قیام سے لےکر آج تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا کبھی سفارتی تعلقات قائم نہیں کئے اور کبھی فلسطینیوں کی حمایت سے پیچھے نہیں ہٹی۔ اب ہونا تو یہ چاہیے کہ غزہ میں اسرائیل آگ و خون کی جو ہولی کھیل رہا ہے اس کے جواب میں فوری طور پر عرب اور مسلم ریاستیں جو اسرائیل کے ساتھ اپنے سفارتی روابط استوار کرچکی ہیں، ان روابط کو ختم کرنے کا اعلان کردیتیں مگر افسوس ہے کہ ابھی تک ان ممالک کی جانب سے کوئی احتجاجی ردعمل بھی سامنے نہیں آیا، جبکہ برطانیہ اور امریکا کے بڑے شہروں میں اسرائیلی مظالم کیخلاف عوام کا شدید ردعمل سامنے آرہا ہے ۔ آج مسلمان ممالک کے پاس تیل ہے، انسانی قوت ہے، افریقہ، ایشیا، یورپ کے براعظموں میں موجود بڑی تعداداور غیر مسلم ممالک میں ان کی افرادی قوت اور جائدادوں کی موجودگی اور بڑی بڑی عالمی طاقتوں کے ساتھ تعلقات ہیں ، مگر یہ ان تمام نعمتوں کے باوجود انتہائی ذلت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ۔ اس وقت کی مسلم لیڈرشپ نفرت زدہ اور خوفزدہ اور زیادہ تر عیاش ہاتھوں میں ہے سو کسی سے کوئی امید نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے سیاسی رہنما بھی عالمی برادری، اقوام متحدہ اور سول سوسائٹی تنظیموں سے مداخلت کرنے کی اپیل کرتے نظر آتے ہیں ۔ یہ اپیل مسلم دنیا کی بے بسی اور نا اہل مسلم قیادت کا ثبوت ہے۔ مسلم دنیا کی یہ بے بسی جدید علوم، سائنس، ٹیکنالوجی اور تحقیق و اختراعات کے میدان میں ترقی یافتہ دنیا سے بہت پیچھے رہ جانے کا نتیجہ ہے ۔ اگر مسلم ممالک خصوصاً بے پناہ قدرتی وسائل رکھنے والی عرب ریاستیں پرتعیش زندگی کے بجائے مسلمانوں کے دور اول کی طرح علمی و سائنسی تحقیق و ترقی کو اپنی اولین ترجیحات میں شامل رکھتیں تو عین ممکن تھا کہ وہ آج پوری دنیا کا علمی مرکز و محور ہوتیں اور فلسطین و کشمیر سمیت دنیا میں کہیں بھی مسلمان ظلم و حق تلفی کا شکار نہ ہوتے ۔ آج بھی اس رسوا کن حالت سے نجات اسی صورت میں ممکن ہے کہ مسلم دنیا اپنے شاندار ماضی کی طرح ایک بار پھر علم و تحقیق کے میدانوں میں پیشقدمی کو اپنی اولین ترجیحات میں شامل کرے ، اس کام کیلئے اجتماعی تعاون اور کاوشوں پر توجہ دی جائے اور وسائل کا خاطر خواہ حصہ سے اس کیلئے مختص کیا جائے ۔ اب جب دشمن ہمیں واکی ٹاکی اور پیجر کے ذریعے نشانہ بنارہے ہیں، مسلم دنیا کی حکومتیں ، پالیسی ساز، ماہرین اور اسکالر خواب غفلت سے جاگیں اور نئے جذبوں کے ساتھ ایک باوقار مستقبل کی صورت گری کی خاطر علم و تحقیق کے میدانوں میں پیش رفت کی قابل عمل منصوبہ بندی کرکے اس پر عمل درآمد کو یقینی بنائیں۔ دور جدید میں علم، سائنس اور ٹیکنالوجی ہتھیار ہیں، جس ملک کے پاس معاشی توپ ہوئی ،سائنسی میزائل ہوا، علم کا ٹینک ہوا اور ٹیکنالوجی کی گولیاں ہوئیں وہی ملک زندہ بھی رہے گا اور ترقی بھی کرسکے گا۔ فلسطین میں اسرائیل کی درندگی اس امر کا تقاضا کررہی ہے کہ اب ہر طرح سے فلسطینی عوام کی مدد کی جائے ۔ وقتی جنگ بندی سے یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا اس سلسلے میں مستقل حل کےلئے عالمی طاقتوں کو اپنا رویہ بدل کر آزاد اور خود مختار فلسطین کے قیام کے سلسلے میں عملی اقدامات کرنے ہونگے ۔ 57 مسلم ملکوں کی تنظیم او آئی سی کو بھی اس موقع پر اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے ۔ مسلم ملکوں کی تنظیم او آئی سی کے مقاصد میں یہ امور اگرچہ شامل ہیں لیکن اس کے قیام کو نصف صدی سے زیادہ مدت گزر جانے کے باوجود اس سمت میں عملی اقدامات کا فقدان رہا ہے ۔ اس سنگین صورتحال پر اگر مسلم ممالک نے ہوش کے ناخن نہ لیے، اسرائیلی مظالم کیخلاف منظم و مربوط آواز بلند نہ کی تو پھر یاد رکھنا چاہیے کہ ہماری داستاں تک نہ ہو گی داستانوں میں ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے