کالم

مسلم ممالک پر یہودیوں کا قبضہ

کیا اسرائیل اپنے آپ کو گریٹر اسرائیل میں تبدیل کرنا چاہتا ہے؟ کیا اسرائیل خطے کے دیگر ممالک کی سرزمین کے حصے ہڑپ کر ایک ایسی ریاست میں تبدیل ہونا چاہتا ہے جس میں متعدد خطوں کے ٹکڑے ہوں۔یہ سوال ایک بار پھر سوشل میڈیا میں گردش کر رہا ہے۔ غزہ کے بعد جنوبی لبنان اور بیروت میں اسرائیلی حملوں کے حوالے سے جو تصویریں سامنے آئی ہیں ا±ن میں بعض اسرائیلی فوجیوں کو گریٹر اسرائیل کے نقشے والے بیج لگائے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔گریٹر اسرائیل کا تصور نیا نہیں۔ اسرائیل کی طرف سے یہ بات ایک زمانے سے کہی جارہی ہے۔ گریٹر اسرائیل کا تصور یہ ہے کہ یہودیوں سے آسمانی کتب میں جس سرزمین کا وعدہ کیا گیا ہے اس میں اردن، مصر، فلسطین، عراق، شام اور لبنان کے علاقے شامل ہوں گے۔جنوری میں اسرائیلی مصنف ایوی لپکن کا ایک انٹرویو وائرل ہوا تھا جس میں اس نے دعوٰی کیا کہ ایک ہماری سرحدیں موجودہ سعودی عرب سے نہرِ فرات یعنی عراق تک پھیلی ہوئی ہوں گی۔ دریدہ دہن اسرائیلی مصنف یہ یہ دعوٰی بھی کیا تھا کہ ایک مکہ اور مدینہ بھی ہمارے زیرِنگیں ہوں گے۔صہیونیت کے بانی تھیوڈور ہرزل کے مطابق یہودیوں کی ارضِ موعود میں لبنان، شام، عراق، سعودی عرب، مصر اور اردن کے علاوہ ایران اور ترکی کے علاقے بھی شامل ہونگے۔ اقوامِ متحدہ نے 1947 میں فلسطین کو یہودی اور عرب ریاست میں تقسیم کرکے بیت المقدس کو بین الاقوامی شہر قرار دیا تھا مگر سابق اسرائیلی وزیرِ اعظم بیگن کا کہنا تھا کہ فلسطین کی یہ تقسیم غیر قانونی ہے، بیت المقدس یہودیوں کا ہے اور یہودیوں ہی کا رہے گا ۔ اسرائیل میں ہر دور میں گریٹر اسرائیل کے تصور کو پروان چڑھایا گیا ہے۔ اسرائیلی یہودیوں کو باور کرایا گیا ہے کہ آسمانی کتب میں جن علاقوں کا ذکر ہے وہ سب کے سب ا±ن کے ہیں اور ایک گریٹر اسرائیل میں شامل ہونگے۔ فی زمانہ اسرائیل میں گریٹر اسرائیل کا بنیادی تصور یہ ہے کہ اس میں گولان کی پہاڑیاں، غرب اردن اور غزہ شامل ہیں ۔ مشرقِ وسطیٰ کے امور کے ماہر عمر کریم کہتے ہیں گریٹر اسرائیل کا تصور محض فسانہ ہے۔ یہودیوں کی مذہبی تعلیمات کے مطابق گریٹر اسرائیل سے مراد سلطنتِ عثمانیہ کے وہ تمام علاقے ہیں جہاں یہودی آباد تھے۔ مصر سے نکل کر آنے پر یہودی فلسطین میں آباد ہوئے تھے اور اسرائیلی حکومت اسے آج بھی جودیہ صوبے کا حصہ مانتی ہے۔ گریٹر اسرائیل محض ایک تصور ہے جس کی عملی تعبیر ممکن نہیں۔ جب یہودی یوسف علیہ السلام کے دور میں مصر میں آباد ہوئے تب ان کی حکومت شام تک تھی اور وہیں سے گریٹر اسرائیل کا تصور آیا ہے۔ ہم بحیثیت قوم شرمسار ہیں کہ فلسطینیوں کےلئے جو کچھ کرنا چاہیے تھا وہ ہم نہیں کرسکے۔ اقوام متحدہ اور عالمی ادارے دیکھ رہے ہیں کہ انسانی حقوق پامال ہو رہے ہیں لیکن وہ اسرائیل کا ساتھ دے رہے ہیں۔ ہمیں جمہوریت کا سبق پڑھا جا رہا ہے اور مظلوم فلسطینیوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔جنوبی افریقا فلسطینیوں کا مقدمہ لے کر عالمی عدالت انصاف گیا لیکن یہ توفیق کسی مسلم ملک کو نہیں ہوئی۔ہر ایک شخص اور ملک کو اپنی بساط کے مطابق کردار ادا کرنا چاہیے۔فلسطینیوں کی جنگ محض ایک جنگ نہیں بلکہ جہاد ہے۔اسرائیل کسی صورت کامیاب نہیں ہوگا۔فلسطینی مسلمانوں نے قربانیاں دیکر اپنا فرض پورا کردیا ہے۔مومن کبھی مایوس نہیں ہوتا کامیابی مسلمانوں کا مقدر ہے۔ مسلم حکمرانوں کی غیرت امریکا اور یورپی ممالک کے حکمرانوں کی طرح ہونی چاہیے ۔ یورپی ممالک بھی اسرائیل کا کھل کر ساتھ دے رہے ہیں۔مسلم حکمران مظلوم فلسطینیوں کا ساتھ کیوں نہیں دے سکتے۔دنیا میں اربوں مسلمان ہیں، مسلم ممالک وسائل سے مالا مال ہیں، لیکن فلسطینی اس کے باوجود بے یارو مددگارہیں۔انسانی حقوق کے ادارے مسلمانوں کے بہتے لہو پر خاموش ہیں۔ہم ہر سطح پر مظلوم فلسطینیوں کے ساتھ ہیں۔ گریٹر اسرائیل کا منصوبہ مدینے منورہ تک پہنچنے کا ہے، گریٹر اسرائیل کے نقشے میں مدینہ بھی آتا ہے، اسرائیل اگر کامیاب ہوجاتا ہے تو خطے کے کسی ملک کی خیر نہیں۔لہٰذا اس وقت تمام نفلی عبادات سے افضل عبادت غزہ کے لوگوں اور مجاہدین کی مالی امداد ہے۔مٹھی بھر مجاہدین نے اسرائیل اور اس کے حواریوں کا غرور خاک میں ملادیا ہے۔عالم اسلام میں بہت سی زمینوں پر غیروں کا قبضہ ہے لیکن یہاں مسئلہ زمین کا نہیں نا اس بات کا ہے کہ غیروں نے قبضہ کیا ہوا ہے۔ اصل مسئلہ بیت المقدس کا ہے ۔ فلسطین کا مسئلہ مسجد اقصیٰ کا ہے ۔ جب سے صہیونیوں کا قبضہ ہوا ہے تو امت مسلمہ پر فرض ہے کہ اسے یہودیوں سے آزاد کرائے ۔ ہمسائیہ ممالک میں اسرائیلی کارروائیوں میں دن بہ دن اضافہ ہو رہا ہے۔ گزشتہ چند ماہ کے دوران اس نے ایران، شام اور لبنان میں ٹارگٹڈ حملے بھی کیے ہیں اور اقوامِ متحدہ اور امریکہ سمیت دیگر مغربی ممالک کی جنگ بندی کی کوششوں میں ناکامی کے بعد اسرائیلی کارروائیاں ہر گزرتے دن کے ساتھ بے باک ہوتی جا رہی ہیں۔اسرائیل میں بہت سے یہودی اس خطے کو ’ایرٹز اسرائیل‘ یا ’لینڈ آف اسرائیل‘ کے نام سے جانتے ہیں اور یہ اسرائیل کی موجودہ سرحدوں سے کہیں بڑا جغرافیائی علاقہ ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے