کالم

مہنگائی کا طوفان اور پنشن بوجھ

گزشتہ سے پیوستہ
1999 اور 2000 میں معاشی سروے کی بنیاد پر پرویز مشرف نے پیرس کلب سے ملاقات کی اور پاکستان کو اس طوفان سے نکالا جو ملک کی مکمل معیشت کو اپنی لپیٹ میں لینے والا تھا رفتہ رفتہ معیشت مستحکم ہونے لگی اور پاکستان قرضوں پر موجودہ تمام سود اور کچھ قرض خود بھی ادا کرنے کے قابل ہو گیا 2008 میں کل بیرونی قرضہ جو 39 بلین ڈالرتھا کم ہو کر 34 بلین رہ گیا یہی وہ سال تھا جب وژن 2020 پیش کیاجس کے مطابق 2020 تک پاکستان قرضوں سے پاک ملک بن جائے گا 2000 سے 2008 تک 9 سال میں پاکستان میں ڈالر کی قدر میں استحکام رہا یہ 52 اور 62 کے درمیان رہالیکن 2008 میں بے نظیر بھٹو کے انتقال کے بعدجب آصف علی زرداری نے صدر پاکستان بن کر حکومت سنبھالی تو پاکستان میں بدترین معاشی بدحالی کے دور کا آغاز ہوگیا آصف علی زرداری ایک بار پھر آئی ایم ایف کے پاس گئے اس بار 7.2 بلین ڈالر کا قرضہ لیا گیا ڈالر کی قیمت بڑھنے لگی مجموعی قرضہ جو 39 سے کم ہو کر 34 ارب ڈالررہ گیا تھا وہ بڑھ کر 59 ارب ڈالرہو گیا اسکے بعدن لیگ کا سنہرا دور شروع ہوا تو بیرونی قرضہ 59 بلین ڈالر سے بڑھ کر 93 بلین ڈالرتک پہنچ گیا۔ جولائی 2016 سے جنوری 2017 تک صرف 6 ماہ میں پاکستان نے حیرت انگیز طور پر 4.6 بلین ڈالر کا نیاقرض لیا جبکہ سکوک بانڈز کی فروخت سے ایک ارب ڈالر آئے اور اس سیل کو کامیاب بنانے کے لیے نیشنل موٹروے کو گروی رکھ دیا گیا ہے یہ سلسلہ یہیں نہیں رکا بلکہ قرضوں کے حصول کے لیے تمام قومی ریڈیو اسٹیشنز اور بیشتر اہم سرکاری عمارتیں بھی گروی رکھ دی گئی ہیں اگر اندرونی قرضوں کی بات کریں تو اس میں بھی ایک بڑا سرپرائز ہمارا استقبال کرے گا مشرف دور میں ہر پاکستانی 40 ہزار روپے کا مقروض تھا اور اندرونی قرضہ تین ہزار ارب روپے یا 3 کھرب روپے تھا زرداری کے دور میں یہ اعداد و شمار بڑھ کر 80 ہزار روپے فی پاکستانی اور اندرونی قرضے 12 کھرب روپے ہو گئے نون لیگ نے فی پاکستانی قرضہ 80 ہزار سے بڑھا کر 175 ہزار روپے اور اندرونی قرضہ 21 کھرب روپے کر دیا یہ قرضے ہماری صنعتوں کےلئے بھی کینسرثابت ہوئے بہت سی مصنوعات جو کبھی پاکستان کی مشہور برآمدات تھیں اب ان پر چین اور بنگلہ دیش میڈ کا لیبل لگا ہوتا ہے اورپھر پاکستان درآمدکی جاتی ہیں پچھلے 10 سالوں میں ہماری ٹیکسٹائل انڈسٹری کا تقریباً 70 فیصد حصہ بندہوچکا ہے یا بنگلہ دیش منتقل ہوگیا گزشتہ 60 سالوں میں پاکستان نے تقریبا 22 بار آئی ایم ایف قرضہ لیا ہے اگر ہم انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) سے قرض لینے کی پاکستان کی تاریخ پر ایک نظر ڈالیں تو پہلی بار ہم نے آئی ایم ایف کے دروازے پر دستک 1958 میں دی تھی جب جنرل ایوب خان نے ملک کو سب سے پہلے آئی ایم ایف کے راستے پر لے جا کر اسٹینڈ بائی معاہدے کے تحت خصوصی ڈرائنگ رائٹس (SDR) 25 ملین کے حصول کے لیے ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے اسکے بعد ایوب کی فنانس ٹیم نے بالترتیب 1965 اور 1968 میں آئی ایم ایف کے دو بیک ٹو بیک پروگراموں کی پیروی کی جہاں پاکستان باضابطہ طور پر آئی ایم ایف کا نیا کلائنٹ بن گیا ایوب خان کے بعد ذوالفقار علی بھٹونے 18 مئی 1972 کو ایک بار پھر ریاست کو آئی ایم ایف کے دروازے پر لے گئے ان کے دور میں، پاکستان 1972 سے 1974 تک مسلسل تین بار آئی ایم ایف کے پاس گیاتب سے لیکر اب تک یہ سلسلہ رکا نہیں تھما نہیں اگردیکھنا ہوکہ قرضوں کی دوڑ میں سب سے آگے کون ہے تو مجموعی طور پر 47 فیصد قرضے پی پی پی نے حاصل کیے اس کے بعد مسلم لیگ (ن) نے 35 فیصد جبکہ فوجی آمریتیں محض 18 فیصد کے ساتھ پیچھے رہ گئیں آج صورتحال یہ ہے کہ ایک طرف ایٹمی طاقت کے دیوالیہ ہونے کی باتیں ہو ر ہی تھی تو دوسری طرف حکمران اشرافیہ اور کرپٹ افسران کے بیرونی اکاونٹس پھل پھول رہے تھے اب زرا ہماری کم عقلی کی انتہا بھی ملاحظہ فرمائیں کہ ہمیں اپنے قرض کی قسط ادا کرنے کےلئے بھی دنیا کی منت سماجت کرنا پڑتی ہے اور دنیا ہم کو قرض دینے کو تیار نہیں آئی ایم ایف نے قرض دینے کی حامی بھری ہے تو ہم خوشی سے شادیانے بجا رہے ہیں ایک دوسرے کو مبارکبادیں دے رہے ہیں اور قرض ملنے کی امید پر فخر کررہے ہیں کہ اس قرض سے ہم اپنا پرانا قرضہ اتاریں گے لیکن یہ نہیں سوچتے کہ آخر یہ قرض بھی سود سمیت واپس کرنا ہے وہ کون واپس کرے گا؟ ہماری عمر میں تو یہ ممکن نہیں تو پھر کیا ہمارے بچے یا ان کے بچے یا ان کے بچوں کے بچے یہ قرض اتارتے ہوئے غلامی کی زنجیریں پہنیں رکھیں گے ہم وہ غافل قوم ہیں جو اپنی آنے والی نسلوںکو قرض کی غلامی کی زنجیریں ڈال کر خوشی اور فخر محسوس کررہے ہیں آخر میںپنجاب حکومت کی عید کے دنوں میںکام کی تعریف نہ کرنا بھی زیادتی ہوگی نگران وزیر اعلی محسن نقوی کی دلچسپی اور لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی نے کے افسران سے لیکر عام خاکروبوں تک کے لوگوں کی محنت نے لاہور کو جس طرح صاف ستھرا رکھا وہ بھی قابل تعریف ہے اور حکومت ایل ڈبلیو ایم سی کے ملازمین کو ایک تنخواہ کے برابر الاﺅنس بھی ۔ ختم شد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے