کالم

میانوالی ریلوے اسٹیشن۔۔۔!

سناٹا اور ہُو کا عالم تھا، چاروں اطراف میں دیکھا، نہ بندہ اور نہ ہی بندے کی ذات۔پھر بک سٹال کی طرف بڑھا ،جس سے ہم کتابیں، اخبارات اور رسائل خریدتے تھے لیکن وہ سٹال غائب تھا،یہاں پر پکوڑے بنتے تھے، دل للچایا اور منہ میں پانی آگیا، چلوپکوڑے کھالیتے ہیں لیکن پکوڑے بنانے والے کا بھی کوئی اتا پتا اور سراغ نہ ملا۔جب کوئی نہ ملا تو وہاں چند بینچ پڑے تھے جس پر سستانے کےلئے نیم دراز انداز میں بیٹھا اور اپنے چھوٹے بھائی ارشد خان کو بھی ہاتھ کے اشارے سے بیٹھنے کےلئے کہا۔یہاں ہر وقت چہل پہل ہوتی تھی اور لوگوں کا آنا جانا لگا رہتا تھا لیکن اب یہاں حالات ہی بدل چکے ہیں، کیا یہ سپنا ہے یا حقیقت۔۔ ؟ جب ٹرین تیزی سے آکر یہاں رک جاتی تھی،جہاں ایک میلے کا سماں ہوتا تھا،کوئی گرم گرم انڈے اور چائے،کوئی پکوڑے اور کوئی ریوڑیاں۔۔۔، حتیٰ کہ ہر کوئی اپنی اپنی اشیاءبیچنے کےلئے صدائیں بلند کرتا تھا، ہر طرف سے آوازیں گونج اٹھتی تھیں، شورو غل اور ہنگامہ برپا ہوتا تھالیکن اس میں بھی سرور اور مزاہوتا تھا ، عجیب و غریب اور دل فریب ماحول ہوتا تھا، کوئی چائے پینے سے لطف اندوز ہورہا ہے تو کوئی پکوڑے کھا رہا ہے۔کوئی اخبار، رسائل اور کتابیں خرید رہا ہے، ہر طرف چہل پہل تھی اور ہونٹوں پر تبسم تھی،اتنے میں سٹی بجتی اور ریل گاڑی مخصوص ہارن کے ساتھ دھیرے دھیرے روانہ ہوجاتی تھی،اسٹیشن کے باسی سب پیچھے سے ٹرین کو اسوقت تک دیکھتے رہتے تھے، جب تک وہ نظروں سے اوجھل نہیںہوجاتی تھی ، ایسا تال میل جیسے خوبرو دوشیزہ ناز وا نداز سے زلفیں رخسار پرگرا دیتی ہے اور شگفتہ گلاب چہرے کو حجاب سے ڈھانپ لیتی ہے ۔میانوالی ریلوے اسٹیشن سمیت تمام ریلوے اسٹیشنوں کا یہ منظر اور نظارہ یکساں تھا۔ 1650ءمیں برطانیہ میں لوہے کی پٹری پر پہیوں والی گاڑیاں جس کو گھوڑے کھینچتے تھے، 1804ءمیںٹریوی تھک انجن بنانے کی ٹھان لی مگرجارج اسٹیفن سن کہاں پیچھے رہنے والا تھا، وہ یہ بازی لے گیا اور تاریخ اپنے نام کرلی۔پھر وہ 1815ءمیں بھاپ کا انجن بنانے میں کامیاب ہوا جو پٹری پر رواں دواں ہونے لگا۔1825ءمیں انگلستان میں ریلوے لائن بچھائی اور1839ءمیںجارج اسٹیفن سن کا انجن 36 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے دوڑنے لگا۔انگریزوں نے1845ءمیں ہندوستان میںریلوے لائن بچھانی شروع کی، کلکتہ سے رانی گنج،بمبئی سے کلیان، مدارس سے ارکو تک ریلوے لائن بچھائی۔1860ءمیںکراچی سے ریلوے لائن بچھانی کی شروعات بھی کی اور پھر برصغیر پاک وہند کے طول وعرض میںریلوے لائن بچھائی۔پہلے پہل بھاپ کا انجن ان ریلوے لائنوں پر دوڑتا تھا اور پھر ڈیزل انجن نے قبضہ کرلیا اور جگہ سنبھالی، اس کی چودھراہٹ ختم کرلی اور اپنی راج داری قائم کرلی۔سدا حالات ایک جیسے نہیں رہتے ہیں، حالات نے کروٹ بدلی اوروقت نے کایا پلٹی،برصغیر پاک و ہند میں سیاسی ہلچل پیدا ہوئی اور دنیا کے اس خطے میں بھونچال آگیا۔ صدیوں سے ساتھ رہنے والے ایک دوسرے سے دور ہوگئے،اُن کی آنکھوں میں سفیدی آگئی، وہ پھر سے اپنا آنگن ،اپنی گلی اور اپنے بیلی دیکھ نہ پائے۔ نہ جانے اُن کو کس کی نظر لگی کہ مل کر اور اکٹھے رہنے والے لنگوٹے یار ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوگئے۔ مگر بعض اپنے علاقے اور دوستوں کو نہیں بھولے، ان میں سے ایک روشن لعل ہیں، وہ اپنے علاقے کی محبت کو فر اموش نہ کرسکے، دہلی میں بھی اپنے محلے کانام "میانوالی نگر”رکھا۔انھوں نے متعدد بارمیانوالی کا وزٹ کیا اوراپنی محبت کا اظہار کیا، یارو احباب سے بیٹھک ہوئی اور اپنے در ودیوار کا بوسا لیا۔اپنے آبائی علاقے سے محبت فطری عمل ہے، علاوہ ازیں میانوالی کا اپنا ایک مخصوص جذبہ ہے جو اپنے لوگوں میں کشش کا کردار ادا کرتا ہے۔میانوالی شجاعت، دیانت، محبت اور عزت کا نام ہے، میانوالی کے لوگوں میں یہ اوصاف نمایاںہوتے ہیں۔میانوالی کا نام سنتے ہی آپ کے ذہن میں عمران خان، مولانا عبدالستار خان نیازی ، مولانا کوثر نیازی، نواب آف کالاباغ ملک امیر محمد خان،امیر عبد اللہ خان روکھڑی،فقیر عبدالمجید،حاجی اکرام اللہ خان پائی خیل، حاجی غلام رسول خان شادی خیل، مقبول احمد خان،عطا ءاللہ خان عیسیٰ خیلوی اور شفاءاللہ خان روکھڑی جیسی شخصیات سامنے آجاتی ہیں۔اس علاقے کا نام بغداد سے آئے صوفی بزرگ میاں علی کی نسبت سے میانوالی پڑگیا۔ میانوالی کو9 نومبر1901ءمیں ضلع کا درجہ ملا، اس قبل یہ ضلع بنوں کی تحصیل تھی۔
"یہ اعجاز ہے حسنِ آوارگی کا
جہاں بھی گئے داستان چھوڑ آئے”
انگریز ہندوستان آئے تو انھوں نے یہاں بھی ریلوے لائن بچھائی اور ہر چھ کلومیٹر کے بعد ریلوے اسٹیشن بنایا۔ انھوں نے میانوالی میں بھی متعدد ریلوے اسٹیشن بنائے، میانوالی ریلوے اسٹیشن کا افتتاح 18 مارچ 1892ءمیںکیا۔ گو کہ انگریزوں نے بر صغیر پاک و ہند کو ریل نظام سے منسلک کیا لیکن اُن کے جانے کے بعد جن کے پاس اس حصے کا عنانِ اقتدار رہا،انھوں نے اس سسٹم کو تباہ کیا اور ملک بھر میں سینکڑوں ریلوے اسٹیشن بند کیے۔درحقیقت یہ لوگ فلاحی اور ترقیاتی کام نہیں کرسکتے ہیں البتہ یہ لوگ دبئی، آسڑیلیا اور مغربی ممالک وغیرہ میںجائیدادیں خرید سکتے ہیں۔گو کہ یہ خطہ دنیا کا خوبصورت ترین اور قدرتی دولت سے مالامال ہے اور یہاں ترقی اور خوشحالی کے امکانات زیادہ ہیں۔ محکمہ ریلوے کی زمینوں پر باغات لگائے جائیں جس سے ماحول خوش گوار ہوجائے گا، وافر مقدار میں پھل پیدا ہونگے جو ملک کی ضرورت سے زائد کو ایکسپورٹ بھی کرسکیں گے جس سے ملک کے زرمبادلہ میں اضافہ ہوگا۔دنیا بھر میں ریل ترقی اور جدت کی جانب گامزن ہے، اس لئے وطن عزیزمیں ریل سسٹم کو بہتر کرنا بھی وقت کا تقاضا ہے، غیر آباد اسٹیشنوں کو پھر سے آباد کریں، جہاں ایک آدھ ریل گاڑی چلتی ہے، وہاں درجنوں گاڑیوں کو چلائیں۔ میانوالی ریلوے اسٹیشن کو ماڈل اور ملازمین کے کوارٹرز کی تعمیر نو ناگزیر ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri