کالم

میرا ملک بچا لے اے مولا

پاکستان کی تاریخ جب اپنے ابتدائی اوراق پر نظر ڈالتی ہے تو ایک شاندار تصویر سامنے آتی ہے۔ یہ وہی ملک تھا جو جاپان اور جرمنی جیسے ممالک کو امداد دیا کرتا تھا، اسلامی دنیا کے کمزور ملکوں کو زکوٰة بھیجتا تھا، اور جہاں شاہ ایران ہر چند ماہ بعد تشریف لا کر ترقی کی رفتار دیکھ کر متاثر ہوتے تھے۔ سعودی عرب کے شاہ فیصل نے تو اسے اسلامی قلعہ قرار دیا تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب پاکستان حقیقتاً ایک باوقار، خود مختار اور اسلامی دنیا کے رہنما کے طور پر ابھر رہا تھا۔ جب پاکستان وجود میں آیا تو دنیا حیران رہ گئی کہ یہ نوزائیدہ مملکت کس طرح اپنے قدم جما سکے گی۔ وسائل کی کمی تھی، ادارے نہ تھے، خزانہ خالی تھا، اور دشمن طاقتیں گھات لگائے بیٹھی تھیں۔ لیکن یہی وہ وقت تھا جب قوم نے اتحاد، قربانی اور عزم سے دنیا کو دکھایا کہ اگر نیت صاف ہو تو کمزور قومیں بھی اپنی جگہ بنا سکتی ہیں۔
قیام کے بعد ابتدائی بیس برس میں پاکستان نے جس رفتار سے ترقی کی، وہ ناقابلِ یقین ہے۔ زرعی اصلاحات، صنعتی ترقی، تعلیم و صحت کے میدان میں اقدامات اور دفاعی شعبے میں مضبوطی نے پاکستان کو دنیا میں ایک مقام دلایا۔ ستر کی دہائی تک پاکستان وہ ملک تھا جو جاپان، جرمنی اور دیگر ممالک کو نہ صرف مالی امداد دیتا بلکہ اسلامی دنیا کو زکو بھی فراہم کرتا۔ یہ ایک فخر کی بات تھی کہ غریبوں کے لیے مختص فنڈز کسی دوسرے اسلامی ملک تک پہنچائے جاتے۔پاکستان کی جغرافیائی اہمیت نے اسے اسلامی دنیا کا مرکز بنایا۔ شاہ فیصل جب بھی پاکستان آتے تو کہتے کہ یہ ملک امتِ مسلمہ کا قلعہ ہے۔ ایران کے بادشاہ ہر چند ماہ بعد یہاں کا دورہ کرتے اور پاکستان کی ترقی دیکھ کر متاثر ہوتے۔ اس وقت پاکستان کے ادارے مضبوط، معیشت متوازن اور قیادت میں ایک وژن موجود تھا۔ دنیا میں یہ تاثر تھا کہ یہ ملک آگے جا کر اسلامی دنیا کی قیادت کرے گا۔مگر پھر حالات نے پلٹا کھایا۔ سیاست دانوں کی باہمی چپقلش، اداروں کے درمیان اختیارات کی کھینچا تانی اور عوامی فیصلوں میں مداخلت نے ملک کو کمزور کر دیا۔ قائداعظم نے واضح کہا تھا کہ بیوروکریسی اور فوج عوام کے نمائندوں کے سامنے جواب دہ ہیں، مگر بدقسمتی سے یہ اصول توڑ دیا گیا۔ جب بھی عوام اپنے ووٹ کے ذریعے فیصلہ کرتے، طاقتور طبقے مداخلت کرتے اور نتیجہ کچھ اور نکلتا۔ یوں جمہوریت کو پنپنے نہ دیا گیا۔ جب جمہوری پودا جڑ نہیں پکڑتا تو قومیں ترقی نہیں کر سکتیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہم دیکھتے ہیں کہ کسی ملک میں فوجی سربراہ وزیراعظم نامزد کرتا ہے تو ہمیں حیرت نہیں ہوتی، کیونکہ یہ پاکستان میں بارہا ہو چکا ہے۔اس تاریکی میں بھی کچھ ادوار ایسے آئے جب امید کی کرن نظر آئی۔ عوام کو لگا کہ شاید ملک دوبارہ اپنی کھوئی ہوئی عظمت کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اس وقت چند اقدامات کیے گئے جو تاریخ کا حصہ ہیں۔ عام آدمی کے لیے فلاحی پروگرام شروع کیے گئے۔ پہلی بار غریب کو یہ احساس ہوا کہ ریاست اس کی ماں ہے۔ امداد براہِ راست مستحقین تک پہنچی، بیوروکریسی یا دلالوں کو درمیان سے نکالا گیا۔ صحت کے میدان میں انقلابی قدم اٹھایا گیا۔ ہیلتھ کارڈ کی بدولت عام کسان، مزدور، ریڑھی بان اور کمزور طبقے کو یہ سہولت ملی کہ وہ بڑے سے بڑے اسپتال میں علاج کرا سکے۔ یہ وہ سہولت تھی جو ماضی میں صرف امیر طبقے کو حاصل تھی۔تعمیراتی شعبے میں نئی راہیں کھلیں۔ گھروں کی تعمیر کے منصوبے آئے، روزگار بڑھا، دیہاڑی دار طبقے کو کام ملا۔ ایک عام مزدور کو روزانہ کی بنیاد پر آمدنی نصیب ہوئی اور لوگوں کے خواب حقیقت میں بدلنے لگے۔ خارجہ محاذ پر بھی ایک وقت ایسا آیا کہ پاکستان نے واضح کیا کہ وہ کسی طاقت کا غلام نہیں۔ بڑے ملکوں کے سامنے جھکنے کے بجائے وقار کے ساتھ بات کی گئی۔ یہ رویہ عوام میں اعتماد کا باعث بنا۔ نوجوانوں نے پہلی بار محسوس کیا کہ ان کا ملک دنیا میں باوقار انداز میں کھڑا ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ طاقتور طبقوں کے خلاف احتساب کی بات کی گئی۔ اگرچہ یہ عمل مکمل نہ ہو سکا، مگر عوام نے یہ ضرور جان لیا کہ کوئی مقدس گائے نہیں ہے۔ طاقتور کو بھی عدالت کے کٹہرے میں لایا جا سکتا ہے۔
یقینا ہر دور میں کمزوریاں رہیں۔ مہنگائی نے عوام کا جینا دوبھر کیا، بے روزگاری نے نوجوانوں کو مایوس کیا، اور انتظامی نااہلیاں سامنے آئیں۔ لیکن ان سب کے باوجود ایک فرق ضرور آیا کہ قوم کو اپنی خود داری کا احساس ہوا۔ اب سوال یہ ہے کہ مستقبل کا راستہ کیا ہے؟ پاکستان کی بقا اور ترقی کا راز صرف اور صرف جمہوریت میں ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ یہ ملک ایک بار پھر اسلامی قلعہ بنے تو ہمیں اداروں کو اپنی حدود میں رکھنا ہوگا۔ عوامی نمائندوں کو فیصلوں کا اختیار دینا ہوگا۔ ووٹ کی طاقت کو تسلیم کرنا ہوگا۔آج پاکستان کے پاس سب کچھ ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی نوجوان آبادی، ایک مضبوط فوج، ایٹمی قوت، وسائل اور ایسی جغرافیائی حیثیت کہ دنیا کی نظریں اس پر جمی ہیں۔ مسئلہ صرف یہ ہے کہ ہم اپنی قوت کو ضائع کرتے ہیں۔ اگر یہی قوم اتحاد، محنت اور انصاف کو اپنا شعار بنا لے تو وہ دن دور نہیں جب پاکستان دوبارہ اپنے مقام پر پہنچے گا۔ پاکستان کا اصل مقصد ایک اسلامی فلاحی ریاست بنانا تھا۔ جہاں تعلیم عام ہو، صحت ہر کسی کو میسر ہو، انصاف سب کو ملے، اور کوئی بھوکا نہ سوئے۔ آج ضرورت اس خواب کو حقیقت بنانے کی ہے۔شاہ فیصل نے پاکستان کو اسلامی قلعہ کہا تھا۔ یہ اعزاز آج بھی ہمارے سر پر قرض کی طرح ہے۔ ہمیں اپنے آپ کو اس قابل بنانا ہوگا کہ یہ خطاب ہم پر فخر کی صورت میں رہے، شرمندگی کی نہیں۔ پاکستان کو اب سر اٹھا کر چلنا ہوگا۔ بار بار جھکنے کا دور ختم ہونا چاہیے۔ ایک بار سر اٹھایا ہے تو اب جھکنا نہیں چاہیے۔ اللہ کرے یہ وطن محفوظ رہے، جمہوری بھی ہو، اسلامی بھی، اور فلاحی بھی۔ یہی وہ خواب ہے جو ہمارے بزرگوں نے دیکھا تھا، یہی وہ خواب ہے جسے ہم نے اپنی آئندہ نسلوں کیلئے حقیقت بنانا ہے۔میرا ملک بچا لے اے مولا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے