کالم

نفسِ پےغمبر علی المر تضیٰ کرم اﷲ وجہہ

اسلام کے بطل جلےل ،صاحب نہج البلاغہ ،شےر ےزداں ،شاہ مرداں ،حضرت علی کرم اﷲ وجہہ کو قدرت نے اتنے امتےازات اور اعزازات سے نوازا ہے کہ ان مےں سے کوئی اےک امتےاز اور اعزاز دنےا بھر کی ناموری اور آخرت کی سرخروئی کےلئے کافی ہے ۔امےرالمومنےن علیؑ ابن ابی طالب کی زندگی کتاب حکمت کا آئےنہ اور ان کی شہادت دےن حق پر قربان ہونے کا بےن ثبوت ہے ۔ آپ کی محبت کو زبان نبوت نے اےمان اور آپ کے ساتھ عداوت کو نفاق قرار دےا ۔آپ ؑ ہی کا ہاتھ اپنے ہاتھوں مےں لےکر سرور کائنات نے فرماےا” جس شخص کا مےں مولا ہوں علی ؑاس کا مولا ہے “ ۔حضرت علی ؑ خانوادہ رسالت مآب کی منفرد شخصےت اور حضور نبی پاک کے عم زاد ، حضرت عبدالمطلب کے پوتے اور حضرت ابوطالب ؓ اور حضرت فاطمہ بنت اسد کے لخت جگر ہونے کے ناتے بجا طور پر اپنے شجرہ طےبہ پر نازاں تھے ۔ان کا خانہ کعبہ مےں پےدا ہونا اےسا معجزہ ہے کہ ان سے پہلے ےا ان کے بعد کسی کو ےہ اعزاز حاصل نہےں ،اسی طرح مسجد خدا وندی مےں شہادت پا کر کسی کی زبان پر ےہ کلمہ جاری نہےں ہوا کہ رب کعبہ کی قسم مےں کامےاب ہوا ۔علی ؑ کی زبان سے نکلے ہوئے اےک جملے نے دنےا والوں کو پےغمبرانہ سےاست کا مزاج سمجھا دےا کہ ” اگر مےرے سامنے دےن نہ ہوتا تو مےں پورے عرب کا سب سے بڑا سےاستدان ہوتا ۔“ حدےث پاک مےں فرماےا گےا ہے کہ ” مےں علم کا شہر ہوں اور علیؑ اس کا دروازہ ہے“تو ضروری ہے کہ اگر شہر علم مےں داخل ہونا مقصود ہو تو پہلے در علم کی معرفت حاصل کرنا ہو گی ۔آپؑ کو ہمےشہ دنےا نے مسجد کا نمازی اور مےدان کا غازی دےکھا ۔کہا جاتا ہے کہ صاحب فکرو نظر ےا فلسفی عمل سے بےگانہ ہوتا ہے ،اسی طرح کسی عالم کا شجاع ہونا محل نظر ہے ۔گوےا بہادر ےا تلوار کا دھنی صاحب علم نہےں ہوتا ،علم اور شجاعت دو متضاد خصائص ہےں جو کسی اےک شخص مےں جمع ہونا معجزے سے کم نہےں ۔امےرالمومنےن حضرت علی کرم اﷲ وجہہ مےں ےہ دونوں متضاد صفات بدرجہ اتم موجود پائی گئےں ۔نہج البلاغہ کے خطبات اور اقوال اےسا دلکشا مرقع ہےں کہ ہر سطر مےں جہان معرفت کھلتا دکھائی دےتا ہے ۔کہا جاتا ہے کہ نہج البلاغہ کو پڑھ کر قرآن مجےد کے کلام الہٰی ہونے اور اس کے اعجاز کا انسان قائل ہو جاتا ہے کہ اےک بندے کے زور کلام کا ےہ عالم ہے تو خالق کائنات کے کلام کی معجز نمائی کا کےا رنگ ہو گا ۔اےک مرتبہ کسی ےہودی نے سوال کےا کہ آپ بتائےے کہ کون سے جاندار انڈے دےتے ہےں اور کونسے جاندار بچے دےتے ہےں ۔آپ ؑ نے فرماےا کہ وہ جاندار جن کے کان اندر ہےں انڈے دےتے ہےں اور جن کے کان باہر ہےں وہ بچے دےتے ہےں ۔ےہودی کھڑا سوچتا رہا ،حضرت علی¾ مسجد سے نماز پڑھ کر واپس جا رہے تھے کہ دےکھا وہ ےہودی اسی مقام پر حےرت زدہ کھڑا ہے اسے دوسرا سوال نہ سوجھا کہ عمل پےدائش سے کان کا کےا تعلق ہے اور آج بھی ےہ سوال عالم طب کےلئے لمحہ فکرےہ مہےا کرتا ہے ۔شاہ روم کا اےلچی حضرت ابوبکر صدےقؓ کے پاس حاضر ہوا ۔قےصر روم نے اپنے تےن سوالوں کے جواب مانگے تھے ۔سوال اور جواب دونوں ملاحظہ فرمائےں۔ وہ کونسی چےز ہے جو خدا کے واسطے نہےں ……وہ کےا چےز ہے جو خدا کے پاس نہےں ……وہ کےا چےز ہے جسے خدا نہےں جانتا۔ان سوالوں کی ہئےت پر بہت سے صحابہ کرام کو غصہ آ گےا ۔قےصر روم کے اےلچی کو کہا گےا کہ ےہ کفر ہے ۔اپنے سوالوں سمےت واپس چلے جاﺅ ۔اےک صحابی ابن عباسؓ نے کہا کہ کےوں نہ حضرت علیؑ سے بھی اس بابت پوچھ لےا جائے ۔حضرت علیؑ مسکرائے اور گوےا ہوئے…..جو چےز خدا کے واسطے نہےں وہ اس کا شرےک ہے ……کہ اس کا کوئی شرےک ہے ہی نہےں ……جو چےز خدا نہےں جانتا……وہ تمہارا قول ہے کہ عےسیٰ خدا کے بےٹے ہےں ۔خدا اس کو اپنا بےٹا نہےں جانتا کہ آسمانوں اور زمےنوں مےں اس کا کوئی بےٹا ہے ۔تمہارا آخری سوال ےہ ہے کہ وہ کونسی چےز ہے جو خدا کے پاس نہےں ہے ۔وہ ظلم ہے۔قےصر روم کے اےلچی نے ےہ جوابات سن کر اسی وقت کلمہ طےبہ کی صدا بلند کی اور اسلام قبول کر لےا ۔حضرت علیؑ کی شجاعت کے تذکروں سے کتابےں بھری ہےں ۔بدرو حنےن ،خندق و خےبر مےں آپ نے کفار ،ےہودو نصاریٰ اور ہر مخالف قوت کو شکست دے کر پرچم اسلام کو سر بلندی عطا کی ،خےبر کا دروازہ اکھاڑ کر ہاتھوں پر اٹھا ےا ،دونوں طرف کے لشکر ےہ منظر دےکھ کر انگشت بدنداں رہ گئے ۔مرحب ےہودی لشکر مےں نامی گرامی پہلوان کوپچھاڑا ،قتل کےا مگر اس کے بدن پر قےمتی زرہ کو ہاتھ نہ لگاےا ۔ےہ زرہ اور خود سونے کے تھے لےکن حضرت علیؑ کی غےرت و حمےت نے گوارا نہ کےا کہ اس کے بدن سے زرہ اتار لی جائے بلکہ آپ نے مال غنےمت بھی ضرورت مندوں مےں تقسےم کر دےا ۔رمضان المبارک کی انےس تارےخ تھی ،بدھ کی رات تھی ۔ آپؑ اپنی دختر ام کلثومؓ کے ہاں تشرےف فرما تھے ۔ نماز مغرب سے فارغ ہوئے تو آپ کی صاحبزادی نے جو کی دو روٹےاں ،دودھ کا پےالہ اور نمک پےش کےا ۔آپؑ نے فرماےا کہ رسول خدا نے کبھی گوارا نہےں کےا کہ اےک وقت مےں دستر خوان پر دو قسم کی چےزےں ہوں ۔اےک چےز اٹھا لو ۔حضرت ام کلثومؓ نے دودھ کا پےالہ اٹھا لےا ۔آپ ؑ نے چند لقمے نان جوےں کے تناول فرمائے ۔آپ محراب عبادت مےں کھڑے ہو کر بےد مجنوں کی طرح کانپتے ۔ آنکھوں مےں آنسوﺅں کی جھڑی سے رےش مبارک اور لباس تر ہو جاتے ۔انےس رمضان المبارک کی رات بار بار صحن مےں نکلتے ،آسمان کی طرف نظر دوڑاتے ،ستاروں کو دےکھتے اور فرماتے ”خدا کی قسم ےہی وہ رات ہے جس کی خبر مجھے رسول اﷲ نے دی تھی“۔پو پھٹنے مےں ابھی دےر تھی ۔آپ ؑمسجد کوفہ مےں داخل ہوئے ۔آپ کا قاتل مسجد مےں پہلے سے ہی موجود تھا ۔مسجد کی قندےلےں گل تھےں ۔چند رکعت نماز پڑھی ۔تسبےح کے بعد بام مسجد پر آئے اور صبح کی سفےدی سے مخاطب ہو کر فرماےا کہ ”گواہ رہنا مےں نے تمام زندگی تجھے طلوع ہوتے ہوئے دےکھا اور تو اےک دن بھی اےسے وقت پر طلوع نہےں ہوئی کہ مےں سوےا ہوا ہوں“۔اس کے بعد اذان دی ۔مسجد مےں سونے والوں مےں آپؑ کا قاتل ابن ملجم بھی تھا ۔اسے کہا اے شخص اوندھا مت لےٹ ،اےسے سونے کو اﷲ پسند نہےں کرتا ۔ تےرے دامن اور دل مےں کےا ہے مےں بتا سکتا ہوں ۔نماز شروع ہوئی ۔آپؑ سجدہ اول مےں گئے ۔ابن ملجم نے زہر سے بجھی ہوئی تلوار سے سر پر وار کےا ……آپؑ نے صدا بلند کی ”رب کعبہ کی قسم مےں کامےاب ہوا “۔لوگ آپؑ کے قاتل کو مارنے لگے تو منع فرماےا ۔قاتل پکڑا گےا تو اس سے پوچھا کےا مےں تمہارا اچھا امام نہےں ۔ ےہ فرما کر شربت کا جام اس کی طرف بڑھاےا ۔ ےہ کردار امامت انسانےت سے محبت کا معتبر حوالہ بن کر تارےخ مےں ہمےشہ جگمگاتا رہے گا ۔علیؑ کی شرافت کا نقش دشمن کے دل مےں بھی مرتسم رہے گا کےونکہ آج بھی صورت حال وہی ہے مگر کوئی علیؑ کی طرح سلوک کرنے کا حوصلہ نہےں رکھتا۔
کوئی تو ہوتا جو قاتل کی تشنگی کا خےال رکھتا
کہ نفرتوں کی زمےں پر اب بھی علیؑ محبت کا آئےنہ ہے
اس ماہ کی اکےسوےں رات کا تےسرا حصہ گزر گےا تو آپؑ کی روح مقدس نے رےاض جنان کی طرف پرواز کی ۔آپؑ کی عمر اس وقت ترےسٹھ برس تھی ۔آپؑ کا عہد خلافت تےن ماہ کم پانچ سال کا عرصہ رہا ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے