” وہ جس کے لئے محفل کونین سجی ہے
فردوس بریں جس کے وسیلے سے بنی ہے
احمد ہے محمد ہے وہی ختمِ رسول ہے
مخدوم و مربی ہے وہی والءکل ہے
وہ میرا نبی ﷺ، میرا نبی ﷺ، میرا نبی ﷺ ہے
وہ میرا نبی ﷺ، میرا نبی ﷺ، میرا نبی ﷺ ہے
کائنات ارض و سما میں 12 ربیع الاول کا دن مسرت، شادمانی اور فرحت لاتا ہے۔خاص اہتمام ہوتے ہیں میلاد کی خوشیاں اور مومنوں کے پر مسرت چہرے دیکھ کر دل کو عجب لطف، چین اور سرور ملتا ہے کیوں نہ ہو کہ جن کےلئے یہ کونین سجائی گئی انکی آمد کا دن جو ہے۔حضور اکرم سے پیر کے دن روزہ کا پوچھا گیا تو فرمایا کہ یہ میری ولادت کا دن ہے سو اس روز جس انداز سے بھی نعمت عظمی کا شکر ادا کیا جائے مستحسن ہے ۔ جسٹس ر پیر محمد کرم شاہ الازیری ضیالنبی جلد دوئم میں لکھتے ہیں کہ جب مکہ کے سردار عبدالمطلب کی جواں سال بیوہ بہو کے گھر ازلی سعادتوں اور ابدی مسرتوں کا نور چمکا۔ایسا مولود تولد ہوا کہ جس کے من موہنے مکھڑے نے صرف اپنی غمزدہ ماں کو ہی سچی خوشیوں سے مسرور نہیں کیا بلکہ ہر درد کے مارے کے لبوں پر مسکراہٹیں بکھیر دیں”جب یہ خبر حضرت عبدالمطلب کو ملی تو فرط شوق سے دوڑے سیدہ آمنہ کے گھر پہنچے اور پوتے کے پرنور چہرے کو دیکھ کر اللہ کا شکر ادا اور اس موقع پر عربی زبان میں کہا گیا قصیدہ بھی روایت کہ وہ اللہ کا شکر بجا لاتے اور اپنے اس بیٹے کو پاک مطہر اور سردار کہتے ہیں۔سیدہ آمنہ کے گھر میں ایسے وجود مسعود کی آمد ہوئی اور ایسی باد صبا چلی کہ جس نے آتش کدہ ایران بجھا دیا. کیا ہوا تھی کیا فضا تھی،معطر مطہر اور معنبر ۔بقول شاعر
” اتری ہے رقص کرتے ہوئے شبنمی ہوا
جنگو، لغت، گلاب، قلم روشنی ہوا
کعبہ حطیم، گنبد خضرا در رسول
پھر اس کے بعد اور کسے ڈھونڈتی ہوا
ہر دور میں شعرا نے آقا کے حسن و جمال کا نقشہ کھینچا برصغیر کے نعت گو کا انداز بھی کمال ہے
حسن ظاہر میں آپ اجمل ہیں
خلق باطن میں آپ اکمل ہیں
بے تامل عقل یہ کہتی ہے
کل خلائق میں آپ افضل ہیں
آقا کریم کی مدحت میں زبانیں رطب اللساں اور قلم چلتے رہے۔دور رسالت مآب میں بھی عہد صحابہ میں بھی اور آج بھی۔عمومی طور پر حضرت حسان عہد رسالت مآب میں نعت گو شاعر معروف مگر نامور محقق اور سکالر ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے نہ صرف ان اصحاب کی تعداد چونتیس تک لکھی بلکہ انکے نعتیہ اشعار بھی جمع کر کے باقاعدہ ایک کتاب مرتب کی ہے جبکہ 16جلدوں پر مشتمل سیرہ الرسول ان کی معرکہ آرا تصنیف کہ جو تاریخ کی دو یا تین ضخیم ترین تفاسیر میں شمار کی جاتی ہے۔علاوہ ازیں ہر سال مینار پاکستان میں عالمی میلاد کانفرنس کا انعقاد ان کا عظیم کارنامہ ہے۔آقا کے رخ مبارک بارے حضرت ابوطالب کے اشعار "وہ گورے مکھڑے والے کہ جن کے وسیلہ سے بارش مانگی جاتی ہے، یتیموں کے فریاد رس اور بیواں کے سہارا ہیں کو عبداللہ بن عمر اکثر بطور حوالہ پیش کرتے. حضرت ابوبکر صدیق، عمر فاروق اور مولائے کائنات کے نعتیہ اشعار عامر بن اکوع، اسود بن سریع، اسد بن زنیم رضوان اللہ اور دیگر کی آپ کی شان میں مدح سرائی تاریخ کا حصہ۔یہ سلسلہ ازل سے جاری ہے اور تاابد تک جاری رہے گا۔مسلم تو مسلم غیر مسلم شعرا بھی مدحت رسول میں پیچھے نہ رہے.کوثری رام اپنی عقیدت کا اظہار یوں کرتے ہیں
کچھ عشق پییمبر میں نہیں شرط مسلماں
ہے کوثری ہندو بھی طلبگار محمد
ایک اور ہندو شاعر یوں رقمطراز ہے
ہوجائے گر عشق، اس میں چارہ تو نہیں
فقط مسلم کا محمد پہ اجارہ تو نہیں
آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے محبوب چچا حضرت ابو طالب قادر الکلام اور فصیح اللساں شاعر کہ جن کی زیر سرپرستی آقا کریم اپنی دعوت و تبلیغ کا فریضہ بے خوف و خطر سرانجام دے رہے تھے کے اشعار بطور نمونہ ان قارئین کےلئے پیش خدمت کہ جو ان کے ایمان بارے گومگو کا شکاراس کو تاریخ ابن کثیر، فتح الباری، سیرہ النبوی، شرح نہج البلاغہ ابن ابی حدید نے نقل کیا ہے۔واللہ لن یصلو الیک بجمعھم حتی او شد فی التراب دفینا،فاصدع بامرک ما علیک غضاض والبشر و قرابدک منہ عیونا "خدا کی قسم(اے بھتیجے)یہ کفار تم تک اس وقت تک نہیں پہنچ سکتے جب تک میری پشت میری قبر کی مٹی تک نہ جا ملے۔پس تم اپنے کام کو مکمل کرو اور کسی کا خوف نہ رکھو، اپنی تبلیغ سے لوگوں کو بشارت دیتے اور اس کے ذریعے آنکھوں کو سرور پہنچاتے رہو ۔ برصغیر پاک و ہند کے شعرا نے اس باب میں قسمت پائی کہ کم و بیش ہر معروف شاعر نے نعت کے باب میں کچھ نہ کچھ حصہ پایا. چند خوش بخت شعرا کے کلام قارئین کی نذر کہ جس سے وہ اپنے قلب و روح کی پاکی و تازگی کا سامان کر سکتے ہیں ۔ ایک شاعر نے کیا خوب تضمین لکھی
” ہے کمال رتبہ مصطفی بلع العلی بکمالہ
یہ اثر ہے ان کے جمال کا کشف الدجی بجمالہ
کسی ایک ادا کی تو بات کیا حسنت جمیع خصالہ
وہ کہ جس نے خدا کا پتہ دیاصلو علیہ والہ
کسی نے اپنی عقیدت کا اظہار یوں کیا.
” آسماں گر ترے تلووں کا نظارہ کرتا
روز اک چاند تصدق میں اتارا کرتا.
دھوم زروں میں آنا الشمس کی پڑھ جاتی ہے
جس طرف سے ہے گزر چاند ہمارا کرتا
کتاب فطرت کے سرورق پر جو نام احمد رقم نہ ہوتا
یہ نقش ہستی ابھر نہ سکتا وجود لوح و قلم نہ ہوتا
نہ لوح حق سے نقاب اٹھتا نہ ظلمتوں کا حجاب اٹھتا
فروغ بخش نگاہ عرفاں گر چراغ حرم نہ ہوتا
کسی نے اسم گرامی کی برکات کو ایسے بیان کیا.
نام محمد سے دلوں سے سرور ملتا ہے
نگاہ فکر کو تازہ شعور ملتا ہے
نصیب کیسا بھی ہو بوسیلہ محمد دیکر
خدا سے جو بھی مانگو ضرور ملتا ہے
کسی نے بصیرت کی آنکھ سے خلد کو شہر طیبہ میں دیکھا تو یوں لکھا
"جن کی حسرت ہے کہ وہ خلد کا منظر دیکھیں
شہر طیبہ میں چلیں روضے کا سرور دیکھیں
بوئے اطہر سے معطر ہیں میرے آقا کی
باغ طیبہ کی بہاروں کا مقدر دیکھیں.
احمد رضا بریلی کہتے ہیں.
” واہ کیا جود و کرم ہے شہہ بطحا تیرا
نہیں سنتا ہی نہیں مانگنے والا تیرا
تیرے ٹکڑوں پہ پلے غیر کی ٹھوکر پہ نہ ڈال
جھڑکیاں کھائیں کہاں چھوڑ کے صدقہ تیرا
غرض ہر ایک نے بتوفیق الٰہی مدحت رسول میں اپنا حصہ ڈالا مگر مخلوق عاجز اور ان کا ذکر ارفع و اعلیٰ، کہ جس کی کوئی حد ہے نہ کنارہ.،اختتام اس عاجزی اور بے بسی کے ساتھ کہ
تھکی ہے فکر رساں مدح باقی ہے
قلم ہے آبلہ پا مدح باقی ہے
ورق تمام ہوا مدح باقی ہے
اور عمر تمام لکھا مدح باقی ہے
صلو علیہ والہ، صلو علیہ والہ