نئے وفاقی بجٹ کے خدوخال کے مطابق حکومت معاشی ترقی کا ہدف حاصل کرنے میں ناکام ہوچکی ہے پھربھی نہ جانے وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کس بنیادپر کہہ رہے ہیںکہ ہر کوئی مان رہا ہے کہ ملکی معیشت میں بہتری آچکی ہے، آنے والے بجٹ میں ایسی اصلاحات لا رہے ہیں جس سے ملک آگے بڑھ سکے گا۔ ۔ وفاقی حکومت کی جانب سے مالی سال 2024ـ25 کی اقتصادی کارکردگی پر مبنی اکنامک سروے کے مطابق رواں مالی سال پاکستان کی معیشت کی عبوری شرح نمو 2.68 فیصد رہی، جو مقررہ ہدف 3.6 فیصد سے نمایاں طور پر کم ہے اس دوران معیشت کا حجم 39 ارب 30 کروڑ ڈالر کے اضافے سے 410 ارب 96 کروڑ ڈالر تک پہنچا جب کہ گزشتہ سال یہ حجم 371 ارب 66 کروڑ ڈالر تھا۔ معیشت کا حجم ملکی سطح پر 9600 ارب روپے بڑھا اور مجموعی حجم 114.7 ہزار ارب روپے رہا، جو گزشتہ سال کے 105.1 ہزار ارب روپے کے مقابلے میں نمایاں اضافہ ہے اسی طرح فی کس سالانہ آمدن 144 ڈالر کے اضافے سے 1680 ڈالر رہی(جبکہ عوام کا مہنگائی، بیروزگاری اور افراط ِ زر کے نتیجہ میں ہونے والے منفی اثرات سے براحال ہے ) حکومت خود تسلیم کررہی ہے کہ ملکی زرعی شعبے کی کارکردگی مجموعی طور پر مایوس کن رہی۔ اہم فصلوں کی شرح نمو منفی 13.49 فیصد رہی جبکہ ہدف منفی 4.5 فیصد تھا۔ کاٹن جیننگ میں بھی شدید کمی دیکھی گئی اور یہ شعبہ منفی 19 فیصد تک سکڑ گیا۔ زرعی شعبے کی مجموعی گروتھ 0.56 فیصد رہی، جو کہ ہدف یعنی 2 فیصد سے کم تھی۔ اسی طرح لائیو اسٹاک اور دیگر فصلوں میں قدرے بہتری دیکھی گئی، جن کی شرح نمو بالترتیب 4.72 اور 4.78 فیصد رہی۔ جنگلات اور ماہی گیری کے شعبے بھی اہداف سے پیچھے رہے۔ صنعتی شعبے کی مجموعی شرح نمو 4.77 فیصد رہی، جو کہ 4.4 فیصد کے ہدف سے زیادہ تھی۔ چھوٹی صنعتوں اور سلاٹرنگ میں بالترتیب 8.81 اور 6.34 فیصد گروتھ ریکارڈ کی گئی، جبکہ بڑی صنعتیں منفی 1.53 فیصد کی شرح سے سکڑ گئیں۔ بجلی، گیس اور پانی کی فراہمی کے شعبے میں غیر معمولی گروتھ 28.88 فیصد رہی، جو مقررہ ہدف 2.5 فیصد سے کئی گنا زیادہ ہے۔ تعمیرات کے شعبے نے بھی 6.61 فیصد گروتھ کے ساتھ توقعات سے زیادہ بہتر کارکردگی دکھائی۔ خدمات کے شعبے کی مجموعی گروتھ 2.91 فیصد رہی، جو مقررہ ہدف 4.1 فیصد سے کم ہے۔ ہول سیل اور ریٹیل ٹریڈ کی گروتھ انتہائی کم یعنی صرف 0.14 فیصد رہی۔ انفارمیشن اینڈ کمیونیکیشن، فنانس، رئیل اسٹیٹ، تعلیم، صحت اور سوشل ورک میں معتدل اضافہ ہوا۔ پبلک ایڈمنسٹریشن اور سوشل سیکورٹی کی گروتھ 9.92 فیصد رہی، جو مقررہ ہدف 3.4 فیصد سے تقریباً 3 گنا زیادہ ہے۔ اس تناظرمیںامیرِ جماعتِ اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمن کا کہنا ہے کہ آئی پی پیز کو ٹیکس سے استثنیٰ دیا جارہا ہے جس سیعام عوام پر ٹیکس کا بوجھ ڈالا جارہا ہے، ایک لاکھ 25 ہزار تنخواہ والے شخص کو ٹیکس سے چھوٹ دی جائے۔حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ بجٹ میں پھر خوف پیدا ہونا شروع ہوگیا ہے، پانچ ماہ سے مہنگائی بڑھتی جارہی ہے، مصنوعی دعوؤں سے معیشت بہتر نہیں ہوتی، عملی اقدامات سے ہوتی ہے، تنخواہ دار طبقے نے ٹیکس کی مد میں 400 ارب روپے جمع کرائے بڑے جاگیرداروں کی شوگر ملیں ہیں، یہ حکومتوں میں ہوتے ہیں، مخصوص طبقے کو لوٹ مار کرنی ہے، ٹیکس جمع نہیں کرانا، تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس کا نظام ازسر نو بنایا جائے، حکومت بجلی کے ٹیرف میں مستقل کمی نہیں کر رہی۔ انہوں نے مزید کہا کہ عام صارفین سے لوٹ مار کی جارہی ہے، مخصوص طبقے کی مراعات بڑھ رہی ہیں، عوام کو کوئی ریلیف نہیں دیا جارہا، دو ہزار ارب روپے آئی پی پیز کو دیے جارہے ہیں 67 ہزار افراد انتظامیہ کی ناقص حکمتِ عملی کی وجہ سے حج نہیں کر سکے”۔ یہ ساری باتیں اپنی جگہ پر نہ جانے اس میں کتنی حقیقت ہے کتنا فسانہ لیکن تنخواہ دار طبقے کے لئے انکم ٹیکس ریلیف سے متعلق اہم پیشرفت سامنے آئی ہے کیونکہ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) انکم ٹیکس کی شرح کم کرنے پر آمادہ ہو گیا ہے۔ ذرائع نے کہا کہ تمام سلیبز پر انکم ٹیکس کی شرح میں کمی کا امکان ہے، انکم ٹیکس ایکٹ کی شق 129 میں ترمیم زیر غور ہے، سالانہ ٹیکس فری آمدن کی حد 6 لاکھ سے بڑھائی جا سکتی ہے۔ ذرائع نے کہا کہ ماہانہ 83 ہزار روپے تنخواہ تک ٹیکس فری کرنے پر اتفاق ہوا، ایک لاکھ روپے ماہانہ تنخواہ پر ٹیکس 5 فیصد سے کم ہو کر 2.5 فیصد ہونے کا امکان ہے۔ ذرائع نے کہا کہ ایک لاکھ 83 ہزار روپے پر انکم ٹیکس 15 سے کم ہوکر 12.5 فیصد ہوسکتا ہے، 2 لاکھ 67 ہزار ماہانہ تنخواہ پر انکم ٹیکس 25 کے بجائے 22.5 فیصد ہو سکتا ہے۔ تین لاکھ 33 ہزار روپے تک تنخواہ پر ٹیکس 30 کے بجائے 27.5 فیصد ہو سکتا ہے، تین لاکھ 33 ہزار سے زائد تنخواہ پر ٹیکس 32.5 فیصد ہو سکتا ہے۔IMF کے ساتھ مذاکرات کے دوران پاکستان نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ دفاعی ضروریات مؤخر نہیں کی جا سکتیں جس پر IMFنے دفاعی بجٹ میں ضروری اضافے پر رضامندی ظاہر کرتے ہوئے بجٹ مذاکرات میں دفاعی ترجیحات تسلیم کر لیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہاجارہاہے کہملک بھر کے بجلی صارفین کو مالی سال 2025ـ26میں بجلی کی قیمتوں میں نمایاں اضافے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے کیونکہ تمام سرکاری بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں (ڈسکوز) نے نیپرا سے اربوں روپے کی اضافی رقوم صارفین سے وصول کرنے کی اجازت مانگ لی ہے۔ یہ درخواستیں نیپرا کو ملٹی ایئر ٹیرف (MYT) کے تحت جمع کرائی گئی ہیں جو مالی سال 2025ـ26سے 2029ـ30تک کے عرصے پر محیط ہے۔ نیپرا نے ان درخواستوں پر سماعت 13 جون کو مقرر کر دی ہے اور تمام فریقین کو اپنی رائے دینے کی دعوت دی ہے۔ آٹھوں سرکاری ڈسکوز گیپکو، میپکو، کیسکو، سیپکو، حیسکو، پیسکو، ٹیسکو اور ہزیکو نے مالی سال 2025ـ26کے لیے عبوری ریونیو تقاضے پیش کیے ہیں جن کی مجموعی مالیت کھربوں روپے تک پہنچتی ہے۔ بجلی مہنگی ہونے کا مطلب ہے مسائل کا شکار ،بدحال عوام کیلئے مہنگائی کا ایک طوفان منتظرہے خداخیر کرے۔