کالم

پانی قدرت کا انمول تحفہ، کفایت شعاری اپنائیں

اللہ تعالی کی بے شمار نعمتوں میں سے پانی وہ انمول تحفہ ہے جس کے بغیر زندہ رہنا ممکن نہیں جیسے جیسے آبادی بڑھ رہی ہے ویسے ویسے پانی کی قلت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ دنیا کے بیشتر ممالک کو پانی کی کمی کا مسئلہ درپیش ہے ایک رپورٹ کے مطابق آنے والے چند سالوں میں پاکستان میں پانی کا بدترین بحران آ سکتا ہے آئی ایم ایف کی رپورٹ کے مطابق دنیا میں پانی کی انتہائی کمی کا سامنا کرنے والے ممالک میں پاکستان اس وقت تیسرے نمبر پر ہے زیر زمین پانی کی سطح بڑی تیزی سے گر رہی ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ ہم ہوش کے ناخن لیں اور اللہ کی انمول نعمت پانی کی قدر کریں پانی کے استعمال میں کفایت شعاری سے کام لیں ہمارا مذہب بھی ہمیں معاملات زندگی میں اعتدال پسندی اور کفایت شعاری کا درس دیتا ہے دریا کنارے وضو کرتے وقت بھی پانی کے زیادہ استعمال کو ناپسندیدہ عمل قرار دیا گیا ہے روز مرہ کے کاموں میں کفایت شعاری سے کام لیکر بہت سا پانی بچایا جا سکتا ہے دیکھا گیا ہے کہ اگر کوئی وضو کر رہا ہے تو وضو مکمل ہونے تک مسلسل پانی بہائے جا رہا ہے ، شیو کرتے وقت ، دانت صاف کرتے وقت بھی مسلسل پانی ضائع ہو رہا ہوتا ہے ، برتن دھوتے وقت بھی گھنٹوں پانی مسلسل چلتا رہتا ہے ، پودوں کو پانی دیتے وقت بھی بہت سا پانی ضائع کیا جاتا ہے اکثر گھروں میں بچے ہاتھ منہ دھوتے وقت یا نہاتے وقت پانی کی ٹوٹی کھول کر دیر تک کھیلتے رہتے ہیں بچوں کو کم پانی استعمال کرنے کی ترغیب دی جائے یاد رہے قطرے قطرے سے دریا بنتا ہے کفایت شعاری اپنائیں پانی بچائیں۔ ہمارے پڑوسی ممالک بارشی پانی کو ذخیرہ کرنے کیلئے چھوٹے بڑے سینکڑوں ڈیم بنا چکے ہیں مگر ہماری حکومتیں پانی کے متوقع سنگین بحران کو اب تک سنجیدہ نہیں لے رہی ہیں ہمارے حکمران طبقے کو کبھی بھی کسی بحران کا براہ راست سامنا نہیں کرنا پڑا اس لیے شاید انہیں فکر لاحق نہیں ہوتی۔ میں فرانس میں تھا پانی کی میٹر ریڈنگ کے لیے جب پہلی مرتبہ میٹر ریڈر آیا تو یہ جان کر مجھے حیرانگی ہوئی کہ گھر میں پانی کے تین میٹر ہیں یعنی پانی کے ہر پوائنٹ پر الگ میٹر لگا ہوا تھا میٹر ریڈر کے چلے جانے کے بعد میں نے اپنے پڑوسی سے پوچھا کہ کیا پانی کے تین میٹر ہیں اگر تین ہیں تو کیوں ؟ بتایا گیا کہ یہ اس لیے کہ معلوم ہو سکے کہ ضرورت سے زیادہ پانی کہاں استعمال ہوا ہے اگر استعمال نہیں ہوا تو پھر ضرور کہیں سے لیکیج ہو رہی ہے اگر واقعی لیکیج ہے تو اسے فوری طور پر روکا جاتا ہے تاکہ پانی ضائع نہ ہو۔ تصویر کا دوسرا رخ بلکہ بے رخی کا یہ حال ہے کہ میں منگلا کالونی اپنے ایک دوست کے گھر گیا ہوا تھا ان کے صحن میں لگی ہوئی پانی کی ٹوٹی سے فل پریشر کیساتھ پانی ضائع ہو رہا تھا میں نے حیرت سے پوچھا مسلسل پانی ضائع ہو رہا ہے آپ ٹوٹی بند کیوں نہیں کرتے میرے کہنے پر موصوف اٹھے اور بھاری بھر ایک پتھر ٹوٹی پر رکھ دیا جس سے پریشر تو ذرا کم ہو گیا مگر پانی بند نہیں ہوا مجھے بتایا گیا کہ یہ سرکاری کوارٹر ہیں اور ان کی مینٹیننس سرکار نے کرنا ہوتی ہے ہم لوگ متعلقہ مینٹی نینس انکوائری میں شکایات درج کروا کروا کر تھک گئے ہیں مگر کوئی شنوائی نہیں موصوف نے بتایا ایسا ایک دو گھروں میں نہیں ہے تقریبا ہر گھر میں اسی طرح پانی ضائع ہوتا رہتا ہے یہ کہ تنخواہ دار طبقے کے لیے ممکن نہیں کہ وہ سرکاری گھر کی ضروری مرمت بھی اپنی جیب سے کروائے کیونکہ مہنگائی کے اس دور میں گھریلو اخراجات ہی پورے نہیں ہو پاتے۔ پانی کی قدر ان لوگوں سے پوچھیں جو صاف پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں گرمی کے شدید موسم میں پاکستان کے مختلف علاقوں میں ہر سال پانی کی کمی ہو جایا کرتی ہے اور تو اور اسلام آباد راولپنڈی جیسے شہر بھی گزشتہ کئی سالوں سے پانی کی قلت کا شکار ہیں سی ڈی اے سیکٹرز میں تو سی ڈی اے کی ذمہ داری ہے کہ وہ رہائشیوں کو پانی مہیا کرے مگرپرائیویٹ ہاسنگ سوسائیٹیز کا کوئی پرسان حال نہیں ان سوسائیٹیز کے رہائیشیوں نے اپنے اپنے گھروں میں بورنگ تو کروا رکھی ہیں مگر زیر زمین پانی بڑی تیزی سے نیچے جا رہا ہے اس لیے بورنگ بھی ناکام ہو چکی ہے لوگ تین تین چار چار ہزار روپے میں ٹینکر منگوانے پر مجبور ہیں ۔ حکومت وقت بارشی پانی ذخیرہ کرنے کے لیے چھوٹے بڑے ڈیم بنانے پر خصوصی توجہ دے ورنہ آنے والے سالوں میں
پانی کے متوقع بحران پر قابو پانا ناممکن ہو جائے گا۔ موسمیاتی تبدیلیاں دنیا بھر کیلئے بہت بڑا چیلنج بنتی جا رہی ہیں ماہرین کے مطابق تیسری جنگ عظیم پانی پر ہو گی اس لیے ہمارے حکمران اس مسئلہ کو حسب معمول معمولی نہ لیں بلکہ اس جانب خصوصی توجہ دیں کیونکہ بڑی تیزی سے وقت ہاتھ سے نکل رہا ہے اگر اب بھی ٹال مٹول سے کام لیا گیا تو یہ ناقابل معافی مجرمانہ غفلت ہو گی پاکستانی عوام نت نئے بحرانوں کا مقابلہ کرنے کے عادی ہو چکے ہیں شاید اسی لیے ہمارے حکمران بیحس ہو چکے ہیں ۔ منگلا اور تربیلا ڈیم چار ملین ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرتے ہیں جو کہ آبادی کے لحاظ سے ناکافی ہے ابھی تو صوبے پانی کی تقسیم پر لڑ رہے ہیں ایسا نہ ہو پانی کی جنگ گھر گھر پہنچ جائے کچھ عرصہ قبل میں نے سابق وزیر پانی و بجلی کا بیان سنا تھا جس میں وہ فرما رہے تھے 2030 تک پانی کا ایسا بحران آنے والا ہے کہ عوام بجلی اور دیگر تمام بحرانوں کو بھول جائیں گے وزیر موصوف نے آنے والے پانی کے بحران کا تو بتا دیا نہیں بتایا تو یہ نہیں بتایا کہ حکومت اس بحران سے بچنے کے لیے کیا کیا عملی اقدامات کرنے جا رہی ہے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri