پہلگام حادثے کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی میں مزید اضافہ ہوگیا ہے، یوں تو1947ءسے پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات استوار نہیں مگر جب سے بھارت میں ایک مخصوص سوچ نے اقتدار سنبھالا ہے، پاک بھارت کشیدگی میںبہت اضافہ ہوچکا ہے۔ مودی سے قبل بھارت ایک سیکولر ملک تھا ،جہاں اقلیت بھی سکون سے رہتے تھے مگر مودی کے اقتدار کے بعد بھارت ایک کٹر فرقے کا ملک بننے کی جانب گامزن ہے، وہاں پر مسلمان اور دیگرمذاہب کے افراد کے لئے جینا مشکل کردیا ہے۔برصغیر پاک وہند میںہندو اور مسلمان ہزاروں سال اکٹھے رہے،اب بھی پاکستان کے بعض علاقوں میں ہندو اور مسلمان ساتھ رہتے ہیں،اسی طرح بھارت میں بھی ہندو اور مسلمان ایک ساتھ رہتے ہیں۔بھارت میں مسلمان صوفیا ءکے مزارات پر ہندو خواتین اور حضرات بھی جاتے ہیںاورحتیٰ کہ اُن کے سالانہ تقریبات کے انتظامات میں ہندو بھر پورحصہ لیتے ہیں اور کھانا وغیرہ بھی تقسیم کرتے ہیں۔محترم روشن لعل چکڑ صاحب مذہب کے لحاظ سے ہندو ہیں مگر وہ ہر چند سالوں کے بعد پاکستان آتے ہیں،پاکستان میںلوگ اُن کو وی آئی پی پروٹوکول دیتے ہیں،اُن سے محبت کا اظہار کرتے ہیں، ہر شخص یہی تمنا کرتا ہے کہ محترم روشن لعل چکڑ صاحب اُن کے پاس قیام کریں اور اُن کی دعوت قبول کریں۔دونوں فریقین کے مذاہب مختلف ہیں لیکن ایک دوسرے سے عقیدت رکھتے ہیں،برصغیر پاک و ہندکی مٹی میں محبت اور احترام کا جذبہ بے پناہ ہے ،اس خطے کے 95 فی صد لوگوں میں مجموعی طورپرمحبت اور احترام کا جذبہ موجود ہے مگر5فی صد لوگوں میں ایک مخصوص جنونیت کا جذبہ ہے جو کسی کو برداشت نہیںکرتے ہیں، اسی جذبے کے مالک انسانیت کا نقصان کرتے ہیں، معاشروں کوبرباد کرتے ہیں اور اپنے مفادات کےلئے سب کچھ تس نس کرنے کےلئے آمادہ رہتے ہیں۔میری بات پر یقین نہ آئے تو آپ غور کریں، دنیا کے وسائل پر کتنے فی صد لوگ قابض ہیں؟ کون لوگ اسلحہ بیچنے کےلئے جدل کا سماں پیدا کرتے ہیں؟اب تو زمین کے اندر پوشیدہ خزانوں کے حصول کےلئے جنگیں کروائی جاتی ہیں یا مختلف حربے استعمال کیے جاتے ہیں؟95 فیصد لوگ غور وفکر نہیں کرتے ہیںکہ اُن کو اصل معاملات سے توجہ ہٹانے کےلئے مہنگائی، غربت ، ملازمت اور دیگر چکروں میں لگایا ہوا ہے ۔برصغیر پاک وہند کو سونے کی چڑیا کہا جاتا ہے، یہ خطہ قدرتی وسائل اور معدنی دولت سے مالا مال ہے مگر پاکستان اور بھارت میں اکثریت آبادی خطِ غربت سے نیچے زیست بسر کرنے پر مجبور ہے۔کہنے کو بھارت کی معیشت بہتر ہورہی ہے مگر عملی طور پر عام آدمی کی زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں آرہی ہے۔وسائل پر سب سے پہلا حق مقامی لوگوں کا ہوتا ہے، اگر مقامی لوگوں کو محروم رکھا جائے اور وہاں کی دولت کوئی باہر لے جائیں تو یہ ڈکیتی ہے۔دولت کو مقامی لوگوں پر صرف کرنا چاہیے اور اسی طرح وسائل کو بھی مقامی لوگوں کے استعمال میں لانا چاہیے۔پاکستان اور بھارت میں رہنے والے لوگ کہنے سے توسب باہر سے آئے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہاں کے رہنے والے زیادہ تر افراد مقامی ہیں۔برصغیر پاک وہند میںکسی بیرونی حملہ آور نے لوگوں کو اسلام قبول کرنے پر مجبور نہیں کیابلکہ یہاں کے لوگوں نے صوفیاءسے متاثر ہوکر اسلام قبول کیا۔صوفیاءکرام باعمل تھے، پریکٹیکل کام کرتے تھے، اُن کے قول و فعل میں تضا د نہیں ہوتا تھا۔صوفیا کرام کی جاگیریں نہیں تھیںلیکن اُن کی محفلیںآباد ہوتی تھیں،وہ انسانیت سے محبت کا درس دیتے تھے ۔ اس خطے کے لوگوں میں انسانیت سے کا محبت جذبہ بہت زیادہ ہے مگر صرف چند فی صد افراد ہیںجو مخصوص طبقے کے مفادات کےلئے اس خوبصورت خطے میں جنگوں اور پریشانیوں کا ماحول بنایا ہواہے،پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگیں ہوچکی ہیں جس سے دونوں ممالک کاجانی و مالی نقصان ہوچکا ہے ۔ خدانخواستہ اب جنگ ہوئی تو اس کے نقصانات ناقابل برداشت ہونگے کیونکہ دونوںاٹیمی ممالک ہیں۔دنیا کا یہ خوبصورت خطہ تباہ ہوجائے گا، مودی اسرائیل چلا جائے تو شاید بچ جائے لیکن دونوں ممالک کے شہری کیسے بچ جائیں گے؟مودی عقل کے ناغن لیں، کروڑوں ہندوﺅں کو کیوںقتل کرنا چاہتے ہو؟جنگ سے کم ازکم ایک ارب سے زیادہ افراد متاثر ہونگے ۔ ہر طرف تباہی اور بربادہی ہوجائے گی۔اسرائیل کےلئے اپنے ملک اور اپنے لوگوں کو موت کے دہانے پر کیوں پہنچارہے ہو؟ جنگ و جدل معاملات کا حل نہیں ہے، تصادم سے مسائل حل نہیں ہوتے بلکہ ٹیبل ٹاک کے ذریعے معاملا ت اور مسائل حل کیے جاسکتے ہیں۔چین کودیکھیں، پاکستا ن اور بھارت سے دو سال بعد معرض وجود میں آیا لیکن آج ہر مارکیٹ پر چین کا راج ہے،ہر جگہ چین کا ڈنکا بج رہا ہے۔پاکستان اور بھارت کو چین کے نقشے قدم پر چلنا چاہیے۔پاکستان اور بھارت بہترین پڑوسیوں کی طرح رہیں، ایک دوسرے کا لحاظ کریں، ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے کی پالیسی ختم کریں، دشمنی نہیں بلکہ دوستی کریں،ترقی اور خوشحالی کا سفر شروع کریں،پاکستان اور بھارت استوار تعلقات قائم کریں، ہتھیاروں کی دوڑ کی بجائے تعلیم کے میدان میں دوڑیں لگائیں،ہر شہر ی کو فری تعلیم اور مفت صحت کی سہولتیں دیں، لوگوں کوروز گار اور دیگر بنیادی سہولیات دیں۔اس خطے کا صرف مخصوص طبقہ تصادم کے ماحول کے لئے کوشاں ہے حالانکہ خوشگوار اور دوستانہ ماحول سے دونوں ممالک کی تقدیر بدل سکتی ہے ،ترقی یافتہ اور خوشحال ملک بن سکتے ہیں۔سابق بھارتی وزیراعظم اٹل بہارواجپائی کی نظم کے چند اشعار قارئین کی نذر کرتاہوں۔
” بھارت پاکستان پڑوسی، ساتھ ساتھ رہنا ہے
پیار کریں یا وار کریں ،دونوں کو ہی سہنا ہے
تین بار لڑچکے ، لڑائی کتنا مہنگا سودا
روسی بم ہو یا امریکی،خون ایک بہنا ہے
جو ہم پر گزری بچوں کے سنگ نہ ہونے دیانگے
جنگ نہ ہونے دینگے۔”