کالم

پاک سعودیہ اقتصادی تعلقات کا فروغ

سعودی عرب کے اعلیٰ سطح وفد کا دورہ پاکستان دونوں جہاں ایک طرف دونوں ملکوں کےبڑھتے ہوئے تاریخی تعلقات کا ثبوت ہے وہی اس سچائی پر بھی مہرتصدیق ثبت کرچکا کہ دونوں برادر اسلامی ممالک تیزی سے تبدیل ہونے علاقائی اور عالمی منظر نامہ میں ایک دوسرے کے ہم قدم ہیں ، سعودی وزیر خارجہ کا اعلی سطحی وفد کے ہمراہ پاکستان کا دورہ ایسے موقعے پر کیا گیا جب ایک طرف غزہ میں اسرائیل کی سے بدترین بمباری کا سلسلہ جاری تو دوسری جانب دمشق میں ایرانی قونصل خانے پر نتین یاہو کی بلااشتعال کاروائی نے مشرق وسطی کو جنگ کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے ، اسرائیل کی بدترین کاروائی کے رد عمل میں ایران کا میزائل اورڈرون کے ساتھ اسرائیل پر حملے نے مشرق وسطی کی صورت حال مزید پیچیدہ کر دی ، سعودی وزیر خارجہ کی سربراہی میں پاکستان کا دورہ کرنے والے وفد نے صدر مملکت آصف علی زرداری سے ملاقات کی ، اس موقع پر صدر مملکت کا کہنا تھا کہ پاکستان سعودی عرب کے ساتھ اپنے موجودہ تعلقات کو دوررس حکمت عملی اور اقتصادی شراکت داری میں تبدیل کرنے کا خواہاں ہے ، سعودی وزیر خارجہ نے جواب میں کہا سعودیہ پاکستان کے ساتھ تعلقات کو بہت اہمیت دیتا ہے اور مضبوط شراکت داری کےلئے اقدمات کررہا ہے ،سعودی وزیر خارجہ نے اپنے پاکستانی ہم منصب اسحاق ڈار کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے بھی اس عزم کا اظہار کیا کہ پاکستان اور سعودی عرب خطے اور دنیا بھر کی معاشی خوشحالی اور سلامتی کے لیے مل کر کام کرتے رہیں گے، پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے سعودی وفد نے چیف آف آرمی سٹاف جنرل عاصم منیر سے بھی ملاقات کی ، ملاقات میں مختلف شعبوں میں دوطرفہ تعاون کو مذید فروغ دینے کےلئے باہمی مفادات اور پالیسوں پر گفتگو کی گی ، درحقیقت دونوں ممالک بڑھتے ہوئے معاشی تعلقات کی اہمیت سے باخوبی آگاہ ہیں ، حکومت معزز وفد کو خصوصی سرمایہ کاری کونسل اوراس کے مقاصد سے متعلق آگاہ کرچکی ، توقع کی جا رہی ہے کہ مستقبل قریب میں سعودیہ پاکستان میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے کا ادارہ رکھتا ہے ، تاریخی سچ یہ ہے کہ غزہ کا جاری بحران ہی نہیں دونوں ممالک کئی دہائیوں سے علاقائی اور عالمی مسائل پر یکساں موقف رکھتے ہیں،آج بھی پاکستان اور سعودی عرب کا فلسطین اسرائیل جنگ پر موقف بڑی حد تک یکساں ہے ، دونوں ملک سمجھتے ہیں کہ فلسطینیوں کےلئے الگ ریاست کے قیام تک درپیش تنازعہ کا حل ممکن نہیں، پاکستان اور سعودی عرب غزہ میں اسرائیل کی جانب سے وحشیانہ بمباری کا بھی خاتمہ چاہتے ہیں، دونوں نے اب تک تیس ہزار سے زائد نہتے اورمصوم فلسطینیوں کے قتل کی بھرپور انداز میں مذمت کی ہے جس میں جان بحق ہونے والوں کی اکثریت خواتین اور بچوں کی بتائی گی ، سچ یہ ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات کسی مخصوص علاقائی یا عالمی حالات کے تابع نہیں بلکہ دونوں ملک کئی دہائیوں کے مذہبی ، سیاسی وثقافتی تعاون کے بندھن میں بندھے ہوئے ہیں، تاریخی طور پر انیس سو چالیس میں قرارداد پاکستان کی منظوری کے ساتھ ہی ولی عہد سعود بن عبدالعزیز نے کراچی کا دورہ کیا ، اس موقعہ پر مرزا البوالحسن اصفہانی سمیت اس وقت کے آل انڈیا مسلم لیگ کے رہنماﺅں نے ولی عہد کا پرتپاک استقبال کیا ، تاریخی سچ ہے کہ سعودی عرب پاکستان کو تسلیم کرنےوالے ابتدائی ممالک میں شامل تھا، میں دونوں ممالک میں دوستی کا معاہدہ ہوا، میں شاہ سعود نے کراچی میں ہاوسنگ سیکم کا سنگ بنیاد رکھا جو سعود آباد کہلائی، کی پاک بھارت جنگ اور پھر کی عرب اسرائیل جنگ میں پاکستان اور سعودی عرب ایک دوسرے کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے رہے ، اس تاریخی لمحے کو بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا جب میں ذواالفقار علی بھٹو اور شاہ فیصل کے درمیان تاریخی تعلقات کا آغاز ہوا جس کے نتیجے میں لاہور میں اوآئی سی کا مثالی اجلاس ہوا، پاکستانی عوام شاہ فیصل سے پناہ محبت رکھتی تھی یہی وجہ ہے کہ پنجاب کا شہر فیصل آباد ، اسلام آباد کی شاہ فیصل مسجد اور شاہراہ فیصل ان ہی کے نام سے منسوب ہے ، اس مثبت پیشرفت سے بھی صرف نظر نہیں کیا جاسکتا کہ سعودی عرب نے زوالفقار علی بھٹو کے دور میں پاکستانی محنت کشوں کو اپنے ہاں کام دیا جس کے نتیجے میں جہاں ایک طرف لاکھوں پاکستانیوں کی زندگیاں بدل گئیں وہی حکومت پاکستان کو بھی زرمبادلہ کی شکل میں قابل زکر فائدہ ہوا، سعودی عرب نے پاک بھارت کشدیگی کے خاتمے اور پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو منزل مقصود تک پہنچانے میں نمایاں تعاون کیا، افغانستان پر روسی حملے کے بعد سعودی عرب نے پاکستان کی بھرپور مالی وسیاسی امداد جاری رکھی ،سعودی عرب پرامن اور متحد افغانستان کے حق میں ہے، دونوں ممالک کا اتفاق ہے کہ افغانستان خطے ہی نہیں عالمی امن میں بھی اپنا بھرپور کرداد ادا کرے ، پاکستان اور سعودیہ تعلقات کا ایک اور پہلو سی پیک ہے ، پاکستان کی جانب سے محمد بن سلمان کو سی پیک میں شمولیت کی باضابطہ دعوت دی جاچکی ہے ، وزیر اعظم شبہازشریف برملا کہہ چکے کہ پاکستان ولی عہد محمد بن سلمان کے دورے کا شدت سے منتظر ہے جس کے نتیجے میں دونوں ممالک میں کئی شعبوں میں شراکت دادی کے نئے افق نمایاں ہونے کا امکان ہے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri