کالم

چھ ججز کے خط کا معاملہ اور لارجر بینچ کی تشکیل

ملک جو پہلے ہی کئی سنگین قسم کے بحرانوں سے دوچار ہے گزشتہ ہفتے ایک نئے بحران یا قضیئے نے کھلبلی سے مچاد ی ہے۔اس قضیے کا تعلق ریاست کے دو اہم ستونوں عدلیہ اور سیکورٹی ادارے سے جڑا ہے۔حیران کن طور پرملک کے خفیہ اداروں کی عدالتی امور میں مداخلت کے الزامات پر مشتمل چیف جسٹس سپریم کورٹ کو لکھے گئے اسلام آباد ہائیکورٹ کے چھ ججزکے خط کی شکل میں ایساواقعہ سامنے آیا جس نے ملکی سطح پر بھونچال کی کیفیت پیدا کر کے ملکی نظام عدل پر سنگین شکوک و شبہات کا راستہ کھول دیا ۔ خط میں اندیشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ عدالتی معاملات میں مداخلت کا سلسلہ اب جاری ہے، اس ضمن میںچھ ججز نے بعض واقعات کا ذکر بھی خط میں حوالہ دیا۔اس خط کے سامنے آتے ہی چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے فوری نوٹس لیتے ہوئے سپریم کورٹ کا فل کورٹ اجلاس طلب کیا جس کے فیصلے کے تحت چیف جسٹس اور وزیر اعظم کی مشاورت کے بعد وفاقی کابینہ کی منظوری سے انکوائری کمیشن کے قیام کا اعلان کیا گیا۔ کابینہ کے اجلاس میں معزز جج صاحبان کے خط میں انتظامیہ کی مداخلت کے الزام کی نفی کرتے ہوئے اسے نامناسب قرار دیااور واضح کیا کہ ملک کی سیاسی قیادت دستور پاکستان 1973میں طے کردہ ریاستی اداروں میں اختیارات کی تقسیم کے اصول پرپختہ یقین رکھتی ہے۔ بعد ازاں جسٹس ریٹائرڈ تصدق حسین جیلانی نے میڈیا سے گفتگو میں واضح کیا کہ انہوں نے کمیشن کی شرائط کار کا بغور جائزہ لینے کے بعد ذمے داری قبول کی ہے ، کمیشن کا مقصد عدلیہ کی آزادی برقرار رکھنا ہے اور اس ضمن میں تحقیقاتی عمل مکمل طور پر شفاف اور میرٹ پر ہوگا۔اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ جج صاحبان کے الزامات کی تحقیقات کے لیے اصول پسندی اور غیرجانبداری کے حوالے سے غیرمتنازع سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس تصدق حسین جیلانی پر مشتمل تحقیقاتی کمیشن کے قیام کے فیصلے نے یہ توقع پیدا کردی تھی کہ اس معاملے کی جامع چھان پھٹک ہوجائے گی۔ لیکن اچانک کیا ہوا کہ جسٹس تصدق حسین جیلانی صاحب نے کمیشن کی سربراہی سے معذرت کر لی جس کی توقع نہیں۔جسکے بعدچیف جسٹس آف پاکستان نے چھ ججز کی طرف سے لکھے جانے والے خط پر سپریم کورٹ کا سات رکنی لارجر بینچ تشکیل دے دیا۔حیران کن طور پر یہ سات رکنی بینچ سپریم کورٹ اور وزیر اعظم کی طرف سے رضا مندی کے بعد ایک رکنی کمیشن بنانے کے صرف دو دن کے بعد بنایا گیا جبکہ اس سے پہلے ہم جانتے ہیں کہ چیف جسٹس سپریم کورٹ اور وزیراعظم پاکستان کے مابین اہم ملاقات میں کئی امور طے پاجانے کے بعدمذکورہ یک رکنی کمیشن جسٹس تصدق جیلانی کی سربراہی میںبنا یا گیا تھاجو نامعلوم وجوہات کی بنا پر تحلیل ہو گیا ہے۔جیلانی کمیشن کے قیام کے بعدسپریم کورٹ نے باقاعدہ پریس ریلیز بھی جاری کر دی تھی اور اس معاملے پر واضح طور پرکہا گیاکہ کیا کیا ٹرمز آف ریفرنس کو شامل کیا جائے گا اور کن کن معاملات پر تصدق جیلانی کمیشن اپنی انکوائری کرے گا اور ثبوتوں کی روشنی میں حقائق کو سامنے لایاجائے گا۔ وزیراعظم پاکستان اور چیف جسٹس آف پاکستان کی ملاقات کے بعد غیر جانبدار ماہرین اور عوام یہ سمجھ رہے تھے کہ چھ ججز کی جانب سے حساس ادارے پر اپنی نوعیت کے سنگین الزامات لگائے جانے کے بعد یہ معاملہ اب اپنے منطقی انجام تک پہنچ جائے گا کیونکہ کمیشن کے ٹی آر اوز نے جو کہ حکومت نے مرتب کیے اس میں یہ لکھا ہوا تھا کہ اس معاملے کی مکمل چھان بین کی جائے گی اور چھ ججز جنہوں نے یہ الزامات لگائے ہیں ان کو ثبوت پیش کرنے پڑیں گے۔یقینا ایسا کرنا لازمی بھی ہوتا ہے،کیونکہ جب کوئی الزام لگاتا ہے تو پھر ٹھوس ثبوت تو لازمی سامنے لانا ہوتے ہیں۔جیلانی کمیشن ٹوٹنے کے بعد چیف جسٹس سپریم کورٹ کی طرف سے سات رکنی لارجر بینچ کے بنائے جانے کے اعلان کے ساتھ ہی اب صورتحال بدلتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔یہاں کئی حلقوں کی طرف سے یہ کہا جا رہا ہے کہ اس سے ایک بات بہت واضح طور پر سامنے آئی ہے کہ اس لارجر بینچ بنائے جانے کا مقصد ان چھ ججز کو ریلیف دینا مقصود ہے کیونکہ یک رکنی کمیشن کے سامنے اِن تمام چھ ججز کو پیش ہونا تھا اور پیش ہونے کےساتھ ساتھ ان تمام ججز نے جو الزامات لگائے تھے ان الزامات کو ثابت بھی کرنا تھا لیکن اب چونکہ سپریم کورٹ کی جانب سے ایک لارجر بینچ بنا دیا گیا ہے، جہاں ہو سکتا ہے عمومی بات چیت کی جائے اورخدشہ ہے کہ کورٹ کے لارجر بینچ میں اس خط میں لگائے گئے مخصوس الزامات کی کوئی خاطرخواہ چھان پھٹک نہ کی جا سکے اور نہ ہی شایدان ججز کو ثبوت دینے کےلئے زوردیا جائے گا ۔یہ بھی ایک قابل غور نکتہ ہے،امید ہے کہ لارجر بینج اس نکتے کوضرور سامنے رکھے گا۔ایسا نہ کیا گیا تو اس شبہ کو تقویت ملے گی کہ اعلیٰ عدلیہ نے یہ لارجر بینچ تشکیل صرف اس لیے کیا ہے کہ اپنے چھ ججز کو کوئی ریلیف دیا جائے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri