کالم

ڈبو کے شہر کو یک دم اتر گیا پانی

سب سے پہلے پاکستان، پھر افغانستان

ہماری ریاست ماں جیسی نہیں ، ورنہ کوئی ماں اپنے بچوں کو پانی میں غرق نہیں ہونے دیتی ۔ ہماری ریاست باپ جیسی بھی نہیں کہ جو اپنے بچوں کا کفیل ہو ۔ہماری ریاست ،جیسا کہ بتایا جاتا ہے کوئی نظریاتی ریاست ہے ۔اس سے مراد یہ ہے کہ کسی نظریے کی چادر میں چھپ کر ریاست اپنی پرستش کروانا چاہتی ہے اور جبراً ایسا کروا بھی رہی ہے ۔ لوگوں کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیئے کہ اسلام میں بت پرستی مکمل طور پر حرام ہے۔کسی بھی قسم کے بت کو توڑنا ، پاش پاش کرنا ہر مسلمان کا فرض ہے ۔دوسری بات یہ کہ چونکہ حکومت کا نظام یہاں ناکام و نامراد ہو چکا ہے اس لیے معاشرتی نظم و نسق کے دیگر متبادلات پر غور وفکر کرنا ضروری ہو گیا ہے۔حالیہ سیلاب کے دوران بلوچستان اور جنوبی پنجاب میں جو تباہی مچی ،اور جس طرح سے ہمارے تنخواہ دار حکمرانوں نے روپوشی اختیار کی ہے ۔اسے عامتہ الناس کو یاد رکھنا چاہیے۔سیلاب زدہ علاقوں میں بیماریاں پھیلنے کا بھی خدشہ ہے۔ جب سے ملک کے بیشتر علاقوں میں تند و تیز بارشوں اور بھارت کی طرف سے خاموش دریاں میں چھوڑے پانی کی وجہ سے سیلاب بلاخیز نے تباہی مچا رکھی ہے ،ملت پاکستانیہ کو شرم اور حیا کی طرف متوجہ کرنے والے سیالکوٹ کے خواجہ آصف بالکل غائب ہیں ۔ شرلی بے بنیاد کی تحقیق کے مطابق جس وزیر کو وفاقی کابینہ میں بالکل فارغ رکھنا ہو ،اسے وزیر دفاع بنا دیا جاتا ہے ۔ خواجہ آصف جونسا جونسا کی تکرار کے ساتھ اپنے سیاسی مخالفین پر طنز کے بے تدبیر تیر چلانے میں بڑے ماہر ہیں ۔وہ دوسرے سیاستدانوں سے ہر اس خوبی کی توقع رکھتے ہیں ، جو خود ان کے اپنے اندر نہیں ہوتی۔قوم کو شرم و حیا کی طرف متوجہ کرنے والے خواجہ آصف اس وقت خود اپنے وزیراعظم شہباز شریف اور اپنی حکومت کو خواب غفلت سے بیدار کرنے اور شرم و حیا کی ضرورت و اہمیت سے آگاہ کرنے میں غفلت کا مظاہرہ کیوں کر رہے ہیں؟ وہ ملک کے سیاسی منظر سے بالکل غائب ہیں ۔بلوچستان اور جنوبی پنجاب کے زیریں علاقے پانی کی غارت گری کا شکار ہیں ۔صوبائی حکومت کی غفلت شعاری ایک طرف ،لیکن ہماری ازخود انقلابی وفاقی حکومت اپنا فرض کیوں ادا نہیں کر رہی؟شہبازشریف نے شروع شروع میں اپنی انگلی لہرا لہرا کر انقلابی باتیں کرنا شروع کی تھیں۔پھر بھیک مانگنے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔یہ تو سچ ہے کہ مصیبت بتا کر نہیں آتی ،لیکن موسمی پیشگوئی اب سائنس بن چکی ہے ۔سیلاب تو بتا کر ہی آیا ہے ، بارش کا بھی پیشگی اندازہ کر لیا جاتا ہے ۔ اس کے بعد اس کے اثرات کو قابو کرنے کی منصوبہ بندی اور اقدامات کی ذمہ داری حکومت پر آتی ہے ۔تحصیل دار سے لے کر کمشنر تک ،اورکمشنر سے لے کر چیف سیکرٹری اور پھر وزرا اور وزیر اعلیٰ تک سب کی ذمہ داری شروع ہوتی ہے۔لیکن پنجاب کے اداکار وزیر اعلیٰ پرویز الہٰی اپنی سیاسی مصروفیات میں اس قدر الجھے بیٹھے ہیں کہ انہیں ابھی تک سیلاب زدگان کی طرف توجہ دینے کی فرصت نہیں ملی۔شائد ان کا خیال ہے کہ ان کی وزارت اعلیٰ تو پی ٹی آئی کے ووٹوں پر کھڑی ہے ، جنوبی پنجاب کے غریب سرائیکیوں کے ووٹ پر تو نہیں،لہٰذا انہوں نے تونسہ یا فاضل پور یا کوہ سلیمان کے اطراف کا دورہ کرنے کی بجائے بنی گالہ جا کر عمران خان کے دربار میں حاضری دینا مناسب سمجھا۔سنا ہے کہ انہوں نے اپنے شہر گجرات کے لیے اربوں کے ترقیاتی فنڈز کا اعلان کیا ہے۔شکر ہے گجرات جنوبی پنجاب میں واقع نہیں ،ورنہ اس فنڈ سے غریب لوگوں کا بھی کچھ بھلا ہو سکتا تھا۔ ستم ظریف کا موقف ہے کہ پاکستان کے مرکزی سیاست دان ،چاہے وہ صوبائی حکومت میں ہوں ،چاہے وفاقی حکومت میں ،وہ جانتے ہیں کہ جنوبی پنجاب کے ایم پی ایز اور ایم این ایز کو تو نقد ادائیگی کر کے بازار سے ہی خریدنا ہے ۔ تو پھر ان کے ووٹروں کی دلداری کرنے کیا ضرورت ہے۔ وہاں کا سردار ،وڈیرا ،خان ، پیر اور سجادہ نشین اصل بیماریاں ہیں ،جو سیلاب گزر جانے کے بعد بھی موجود اور ناقابل علاج رہیں گی ۔میں نے ستم ظریف کو سمجھایا ہے کہ جنوبی پنجاب کو ریاست پاکستان کا ایک حصہ سمجھ کر سوچنے کی مشق کرنی ہو گی۔بالکل اس طرح جیسے بلوچستان کو پاکستان کا ایک با عزت حصہ ماننا پڑے گا۔ میں نے اسے بتایا کہ سیلاب کی بے رحم تباہ کاری کا مسئلہ سیاسی نہیں انسانی المیہ ہے ۔لیکن افسوس اور عبرت کا مقام یہ ہے کہ ہماری حکومتیں اس باب میں مکمل خاموشی اختیار کیے بیٹھیں ہیں۔اب جبکہ ان گنت اموات اور نقصان ہو چکا ہے تو خبر آئی ہے کہ وزیراعظم اورآرمی چیف نے ٹیلیفون کے ذریعے رابطہ کر کے سیلاب متاثرین کی بحالی کےلئے اقدامات کرنے پر اتفاق کر لیا ہے ۔ بس یہی المیہ ہے کہ ابھی تک وزیراعظم ضرورت ہے ہی کی تکرار کیے جارہے ہیں۔وہ یہ نہیں بتاتے کہ یہ ضرورت کون پوری کرے گا۔سنا ہے کہ وزیراعظم نے چیئرمین این ڈی ایم اے سے بھی ٹیلی فون پر گفتگو کی ہے۔ چیئرمین این ڈی ایم اے نے وزیراعظم کو سندھ میں بارشوں اور سیلاب کی تازہ ترین صورتحال سے آگاہ کیا۔ اس پوری گفتگو میں جنوبی پنجاب کے مظلوم اور غرقاب علاقوں کا اشارتا ًبھی ذکر نہیں آیا۔ہاں مگر شہباز شریف نے پھر وہی کیا ،جو انہیں کرنا آتا ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف صاحب بلوچستان ، جنوبی پنجاب اور سندھ کے بہت سے علاقے بدترین سیلاب کی زد میں ہیں۔ذرا کوہ سلیمان کے اطراف پھنسے ہوئے مجبور لوگوں کی خبر لیں۔ بلائیں ذرا خواجہ آصف کو جو قوم کو بتایا کرتا تھا کہ کوئی شرم ہوتی ہے ،کوئی حیا ہوتی ہے۔میں اس سے پوچھوں گا کہ اتنی اہم بات شہباز شریف کو کیوں نہیں بتائی؟شاعر باکمال فیصل عجمی کے شعر یاد آرہے ہیں،وہ کہتے ہیں کہ؛
زمیں کی نوحہ گری سن کے ڈر گیا پانی
ڈبو کے شہر کو یک دم اتر گیا پانی
میں ایک بار پکارا کوئی بچاو¿ مجھے
پھر اس کے بعد میرے منہ میں بھر گیا پانی
جو ڈوب گئے ، وہ تلاش مرگ میں تھے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے