کالم

کائنات کے بیک یارڈ کی سیر

سب سے پہلے پاکستان، پھر افغانستان

میں ایک تھیوریٹیکل فزیسسٹ ہوں۔ تھیوری اور تصورات پر کام کرتاہوں۔اپنی اس فضیلت کا احساس مجھے میٹرک سائنس کے دوران فزکس کی اردو زبان میں لکھی نصابی کتاب پڑھتے ہوئے ہو گیا تھا،ہمارے سائنس کے استاد ہمیں اردو اصطلاحات کے ساتھ فزکس کے تصورات سمجھانے کی کوشش کیا کرتے تھے ۔سمجھ تو خیر کیا آنی تھی، یہ پتہ ضرور چل گیا تھا کہ فزکس کوئی ایسا مضمون نہیں ہے کہ جس میں فیل ہو جانے کا امکان ہو ۔وہ ملک میں بدترین ڈکٹیٹر شپ کا دور تھا ، کئی ملا لوگ مدرسے کی چٹائی سے اٹھ کر پجارو جیپ پر سوار ہو چکے تھے۔ ہر طرف جہاد کا شور تھا ۔بعض دینی مدرسے مجاہد سپلائی کرنے کے مراکز بن چکے تھے۔تو اسی ماحول میں یہ اندازہ بھی ہوگیا تھا کہ پاکستان میں مستقبل فزکس کا نہیں ، میٹا فزکس کا ہے۔بعد میں جب علامہ اقبال کو پڑھنا شروع کیا تو انہوں نے چپکے سے کان میں بتا دیا کہ یہ کائنات ابھی تک ناتمام ہے ، اور مسلسل تعمیر و ترتیب و تغیئر کا کام جاری ہے ۔ پھرری کنسٹرکشن آف ریلیجس تھاٹ اِن اسلام میں انہوں نے حضرت آئن سٹائن کی جس والہانہ انداز میں ستائش کی، اس سے اس بات کا اندازہ بھی ہو گیا تھا کہ اقبال حیات و کائنات کے معاملات میں فزکس کی مرکزی حیثیت کے قائل اور معترف تھے۔انہوں نے تو یہاں تک سراغ لگا لیا تھا کہ مسلمانوں کے سیاسی اور معاشی زوال کا سبب میٹا فزکس تھی ۔بہرحال اگر کائنات مسلسل زیر تعمیر ہے تو پھر لازماً اس کا عقبی صحن یا بیک یارڈ انواع و اقسام کی فالتو اشیا سے بھرا پڑا ، بلکہ اٹا پڑا ہوگا۔ کائنات کے عقبی صحن میں بکھری ہوئی پراسرار مرئی اور غیر مرئی اشیا کیا ہیں؟ان کی حقیقت کیا ہے ؟ یہ سب کیسی ہیں؟ اقلیم فزکس میں کی جا چکی تحقیق کے مطابق اس بارے میں ابھی تک کچھ بھی علم نہیں ہو سکا۔ جہاں ایک طرف بلیک ہول کے اندرون تحیئر ، اور اخفا کے سوا کچھ بھی معلوم نہیں ہو سکا ،وہیں دوسری طرف کائنات کے عقبی صحن یا بیک یارڈ کی موجودگی اور مشمولات ابھی تک احاطہ علم میں نہیں آ سکے ۔ابھی یہ قیاس و گمان کی سرزمین پر مقیم اور فردا کے منتظر ہیں ۔پر ابھی حال ہی میں ایک کتاب اس عقدہ مشکل کی کشود کےلئے منظر عام پر آئی ہے ۔ جیسا کہ میں نے پہلے بتایا ہے کہ میں ایک تھیوریٹیکل فزیسسٹ ہوں ، تصورات پر کام کرتا ہوں ۔تو اسی لیے ڈاکٹر صنوبر الطاف کی ‘کائنات کے بیک یارڈ سے نے فوراً متوجہ کر لیا۔ڈاکٹر صنوبر الطاف دیکھنے میں تو ناسا کی کسی فلکیاتی کار گاہ کی کم سخن سائنسدان لگتی ہیں۔ایک ایسی فلکیاتی سائنسدان،کہ جس نے معمول کے تحقیقی مشاہدات کے دوران اچانک کائنات کے کسی نادر مگر مخفی گوشے کا اچانک مشاہدہ کر لیا ہو، اور اس متحیر کر دینے والے مشاہدے کی ساری حیرت انکی آنکھوں میں تحریر ہو گئی ہو ؟ کیا پتہ؟ لیکن عملًا وہ ایک وفاقی یونیورسٹی میں اردو کی استاد ہیں ،یہ بات تو میرے علم میں تھی۔پر وہ کائنات کے اسرار و رموز سے بھی دلچسپی رکھتی ہیں ،یہ میں نہیں جانتا تھا۔عموما ًاردو والے سرسری جہان سے گزرنے کو ترجیح دیتے اور جہان دیگر کی تلاش سے گریزاں نظر آتے ہیں۔پر مجھے لگا کہ ڈاکٹر صنوبر الطاف ہماری حیات پر کائنات کے پیہم اثرات کی نقاب کشائی میں دلچسپی رکھتی ہیں۔وہ خیال کرتی ہیں کہ ہر کائنات نہ صرف کثیر الابعاد ہوتی ہے ،بلکہ اس کا عقبی صحن یا بیک یارڈ زائد از ضرورت اشیا سے بھی معمور رہتا ہے ۔ دراصل مجھے ایسا لگتا ہے کہ زندگی کی یہی زائد از ضرورت اشیا ، چاہے وہ مادی ہوں یا غیر مادی ہماری پرسنل یونیورس یعنی ذاتی کائنات کا کل اثاثہ ہوا کرتی ہیں ،یا ہو سکتی ہیں ۔ یا ہونی چاہئیں ۔کائنات کے بیک یارڈ سے کی نظمیں زیادہ تر نامکمل افسانے نظر آتے ہیں۔کہانی اور نظم کے فرق و امتیاز کو شدت سے محسوس کرنے والی شاعرہ نظم کے ہر طرف سے کشادہ معنی اور تصورات کی لامتناہی جہات کی وجہ سے اسے اپنے ابلاغ کا ایک زیادہ موثر وسیلہ خیال کرتی ہے۔ کائنات کا مشاہدہ ابھی تک صرف تصویری رہا ہے ، لیکن کائنات کے بیک یارڈ سے میں صنوبر الطاف نے جو مشاہدات ،تاثرات اور احساسات نظم کیے ہیں ،وہ سارے کے سارے چھو کر محسوس ہونے والے ، آنکھ کھول کر دیکھے جا سکنے والے ہیں ۔ بعض صورتوں میں قریب ہو کر ان مشاہدات کی حدت ،جدت اور مہک تک کا اندازہ کیا جا سکتا ہے ۔چھیالیس نظموں کا یہ مجموعہ اپنے اندر تنہائی سے گریز کے ساتھ ساتھ تنہائی سے الجھنے کی ساری کیفیات اپنے اندر رکھتا ہیں ۔میرا تاثر تھا کہ شائد اس کائنات کے عقبی صحن میں سے کچھ ایسا سامان مل ہی جائے جو بالکل الگ ، جدا اور کائنات میں ایک اور طرح کی توسیع کی نوید بن سکے۔لیکن جس طرح شیطان گناہ تازہ تر کےلئے ترس گیا ہے ،بلکہ کار جہاں سے فراغت کا طلب گار ہے،اسی طرح صنوبر الطاف کسی نادر درد ، کسی انوکھے دکھ ،کسی جدا محرومی،کسی الگ قسم کی اداسی ،کسی ہو نہ سکنے والی محبت کے رنج یا کسی راحت کے پالتو پرندے کی طرح سے آکر بازو پر بیٹھ جانے کا تاثر تلاش نہیں کر سکی ہیں۔بیک یارڈ کا یہ سارا سامان،یہ سارا کباڑ انہوں نے بڑی ترتیب سے جوڑ رکھا ہے۔جس طرح دوسرے اپنا سامنے کا لان سجاتے سنوارتے ہیں ،اسی طرح صنوبر الطاف نے اپنی کائنات کے بیک یارڈ کو بھی مرتب کر رکھا ہے۔وہ جانتی ہے کہ ؛ کہانی، آخری ورق پلٹ جانے کے بعد شروع ہوتی ہے۔وہ بدھ تک سے پوچھ سکتی ہے کہ
یہ بھی سنا ہے کہ لوگ تمہارے پاس آتے ہیں
سکون کی تلاش میں
ایک لامحدود سکون
سدھارتھ تم انہیں کون سا سکون دیتے ہو؟
وہی جو تم نے مجھ سے چھینا؟
میرے سدھارتھ!
میرے بدھا!
او میرے خدا!
مجھے یوں لگتا ہے کہ صنوبر الطاف اچھی طرح سے جانتے ہوئے کہ اپنا سکون اپنے سوا کوئی دوسرا غارت نہیں کرسکتا ،پھر بھی معصوم بدھا،یا تنہا خدا پر ناحق سکون چھیننے کا الزام دھر رہی ہے۔اسے علم ہونا چاہئے کہ جس تنہائی سے وہ الجھن محسوس کرتی ہے ،وہی تنہائی اور اکیلا پن خدا کا امتیاز ہے۔اسے اپنے ہونے کی خوشی کا احساس ہے۔ اس کی تحریر سے ایک جدا قسم کے زعم کا اندازہ بھی کیا جا سکتا ہے۔ وہ اپنی ذات سے وابستہ محسوسات کی دنیا سے باہر نہیں نکلتی، اسے ابھی ذات کی تسخیر کے عمل گزرنا ہے ۔کیا پتہ اس تسخیر کائنات کے بعد اس کے بیک یارڈ یا عقبی صحن میں کیا کچھ نیا اور بالکل نادر اور انوکھا کچھ مل جائے ۔بین السطور وہ اپنے ہونے ، جینے اور سوچنے سے خوش ہے ۔اس کے رنج ،اس کی اذیت کے سامان پرانے ہیں۔ اس نے اس بیک یارڈ کو سطح پر رہتے ہوئے ،ایک دو زاویوں سے ملاحظہ کیا ہے ۔مجھے یقین ہے کہ اب ، جب وہ اڑنا شروع کرے گی ، تو اس پر یہ راز کھلے گا کہ جب ہم چیزوں کو بلندی سے دیکھتے ہیں تو وہ کس طرح یک جان اور مرتب نظر آنا شروع ہو جاتی ہیں۔ اس کی یہ پرواز اسے وجود کی کشش ثقل سے آزاد ہونے کے بعد میسر آئے گی ۔اسے معلوم ہونا چاہئے کہ وہ ایک شاعرہ کے طور پر صرف انسان ہی نہیں ہے ،وہ ایک پرندہ بھی ہے، ایک بادل بھی ، وہ لمبی چھلانگ لگانے والا ایک ہرن بھی ہے اور ایک سست رو ہتھنی بھی ،وہ چٹان سے گرتا ہوا پرشور پانی بھی ہے اور دھیرے دھیرے بہتی ندی بھی، وہ ہوا بھی اور صبح بھی ، وہ شام بھی اور رات کا خواب بھی ، وہ اپنا انسان بھی خود ہے ، اپنا شیطان بھی خود ہے ۔تب چونکہ میں ایک تھیوریٹیکل فزیسسٹ بھی ہوں، تو میں بتا سکتا ہوں کہ تب اس کا موضوع سخن اپنی کائنات کا عقبی صحن یا بیک یارڈ کی بجائے کائنات کی توسیع پذیر صورت کی تفصیل پر مبنی ہو گا۔اور وہ جان جائےگی کہ ناتمامی ہی کائنات کا اصل حسن ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri