بھارت میں اقلیتوں کیساتھ کم ذات ہندو بھی انتہا پسندوں کی زد میں رہتے ہیں بہار میں دلتوں کے 80 گھروں کو جلا کر خاکستر کر دیا گیا ہے۔ بہار کے ضلع نوادہ کے ننورا گاﺅں میں بدھ کی شام دلت بستی پر مسلح افراد نے حملہ کیا اور پوری بستی کو آگ لگا ڈالی، لوگوں نے وہاں سے بھاگ کر اپنی جان بچائی جبکہ 80 گھر جل کر بھسم ہوگئے اور غریب لوگوں کی زندگی کی جمع پونجی خاک کا ڈھیر بن گئی۔ یہ واقعہ زمینی تنازع کے باعث پیش آیا، کسی جانی نقصان کی اطلاع نہیں ملی جبکہ پولیس نے 10 افراد کو گرفتار بھی کر لیا ہے۔ہولناک واقعے کے بعد علاقے میں شدید خوف و ہراس پھیل گیا۔ اس واقعے پر بہار کی سیاست میں ہلچل مچ گئی ہے۔ آر جے ڈی لیڈر تیجسوی یادو نے سوشل میڈیا پر حکومت پر شدید تنقید کی ہے ، اور اسے مہا جنگل راج اور مہا راکشس راج کا نام دیا۔ دلتوں پر یہ ظلم ناقابل برداشت ہے اور حکومت کی لاپروائی کو اس واقعے کا ذمہ دار قرار دیا۔آر جے ڈی کے ترجمان مرتیونجے تیواری نے بھی اس واقعے کی مذمت کی اور کہا کہ وزیر اعظم مودی اور این ڈی اے حکومت کو اس مسئلے پر خاموش نہیں رہنا چاہئے۔ بھارت میں ذات پات کے نظام اور ہندو انتہا پسندی نے نا صرف مسلمانوں اور سکھوں کے لئے مشکلات پیدا کر دی ہیں بلکہ نچلی ذات کے ہندوو¿ں (دلتوں) کے لئے بھی جینا دو بھر ہو گیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہزاروں دلت ہندو مذہب چھوڑ کر بدھ مت ہو گئے ہیں۔ایک رپورٹ کے مطابق بھارت میں ظلم،غربت اور سماجی تفریق کے شکار نچلی ذات کے ہندو تیزی سے دیگر مذاہب میں داخل ہورہے ہیں جن میں سب سے زیادہ افراد اسلام کی طرف راغب ہورہے ہیں۔ 1950 میں بھارت نے ہندو ذات پات کو ختم کردیا تھا لیکن اس کے باوجود صدیوں پرانی تفریق اور تعصب بھارتی معاشرے میں موجود ہے۔ بھارت کی ایک ارب 20 کروڑ کی آبادی میں 84 فیصد ہندو ہیں اور اب بھی برہمن، کیشتریا، ویشیا اور شودر جیسے طبقات میں تقسیم ہیں جب کہ دلت (نچلی ذات) یا شودر بھارتی کچرا ا±ٹھانے اور صفائی وغیرہ کے کام کررہے ہیں اور اسی بنا پر ان کی بڑی تعداد اسلام کی جانب مائل ہورہی ہے اور اس کے علاوہ ان کی تعداد سکھ اور عیسائیت کی جانب بھی راغب ہورہی ہے۔ اسلام قبول کرنےوالے ایک دھوبی نے بتایا کہ اسلام قبول کرنے سے خاندانی عداوت اور دیگر مسائل کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ ہندووں کے مطابق دنیا میں مسلمانوں کا تاثر بہت اچھا نہیں جب کہ ایک اور شخص عبدالرحمان کا کہنا تھا کہ دلت سے مسلمان ہونے کے بعد ان کے پرانے مذہب کے افراد نے ان پر قاتلانہ حملہ کیا جس میں ان کے پیر اور سینے پر گولیاں ماری گئیں۔ دلت افراد کی عام شکایت یہ ہے کہ ملازمتوں میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہوتا اور وہ صرف غلاظت اٹھانے اور لاشوں کو ٹھکانے لگانے کا کام کرتے ہیں۔ بھارت کے دیگر علاقوں کے دلت افراد بدھ ازم سمیت دیگر مذاہب اختیار کررہے ہیں جبکہ مدھیا پردیش میں دلت افراد کی سب سے زیادہ تعداد اسلام قبول کررہی ہے۔بدھ مت مذہب اختیار کرنے والے افراد کا کہنا ہے کہ نچلی ذات کے ہندو ہونے کی وجہ سے ان کی زندگی اجیرن ہو چکی تھی بہت عرصے سے ہندو مذہب چھوڑ کر بدھ مت اختیار کرنے کا سوچ رکھا تھا کیونکہ اس میں سب لوگ برابر ہیں۔ بھارت میں کوئی بھی شخص کوئی بھی مذہب اپنا سکتا ہے لیکن اگر دلت ناراض ہو کر بدھ مت میں داخل ہوئے ہیں تو اس پر سب کو سنجیدگی سے غور کرنا چاہیئے۔واضح رہے کہ چند ماہ قبل گجرات کے گاو¿ں اونا میں کچھ دلت نوجوانوں کو پولیس کی موجودگی میں ہندوانتہا پسندوں نے بری طرح تشدد کا نشانہ بنایا تھا، اس واقعے کی ویڈیو وائرل ہونے کے بعد پورے گجرات میں بڑے پیمانے پر مظاہرے شروع ہوگئے تھے۔اس وقت بھارت میں بالخصوص بی جے پی کی موجودہ مودی سرکار کے دور میں مسلمانوں‘ سکھوں‘ عیسائیوں اور دوسری اقلیتوں کی جو درگت بن رہی ہے اور حکومتی سرپرستی میں انہیں جس طرح جبری ہندو بنایا جارہا ہے‘ اسکے پیش نظر بھارت کے سیکولر چہرے اور ”آہنسا“ کے پرچار کی مکمل طور پر قلعی کھل چکی ہے جبکہ اقوام عالم کو اسی حوالے سے انتہاء پسند جنونی ہندوﺅں کی نمائندہ مودی سرکار کے ہاتھوں علاقائی اور عالمی امن کو سخت خطرات لاحق نظر آتے ہیں اس لئے عملاً ہندو ریاست میں تبدیل ہوتے بھارت میں کوئی اقلیت وہاں مستقل رہائش اور شہریت حاصل کرنے کا رسک لینے کی روادار نہیں ہو سکتی۔ بھارت میں مسلمان‘ سکھ‘ عیسائی اقلیتیں تو کجا‘ نچلی ذات کے دلت ہندوﺅں کا بھی جنونی برہمنوں اور کھتریوں کے ہاتھوں جینا دوبھر ہوچکا ہے۔ مغربی دنیا کو شاید بھارت میں مسلمان اقلیتوں کو جبری ہندو بنانے پر زیادہ تشویش لاحق نہیں ہوئی ہو گی مگر عیسائیوں کو جبری ہندو بنانے کے بھارتی اقدامات نے مغرب و یورپ کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور اسے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی قرار دیکر بھارت پر ہندو انتہا پسندی کے بڑھتے ہوئے رجحان کو روکنے کیلئے دباﺅ ڈالا جارہا ہے۔ راجستھان کے جالور ضلع کے سورانا گاو¿ں کے ایک نجی اسکول میں نو سالہ معصوم طالب علم اندر کمار میگھوال کو کیا معلوم تھاکہ وہ، جس مٹکے سے شدت پیاس بجھانے کی کوشش کر رہا ہے، وہ اس کی موت کا پیغا م ثابت ہو گا۔ اس معصوم لڑکے کو کیا معلوم ہو گا کہ پیدائشی امتیاز کیا چیز ہوتی ہے؟ اسی طرح اتر پردیش کے بہرائچ ضلع میں ایک 13 سالہ دلت لڑ کے کو فیس ادا نہ کرنے پر اس کے اونچی ذات کے ٹیچر نے اتنا مارا کہ وہ میگھوال کی طرح نو دن تک موت و زیست کی جنگ لڑتے ہوئے ہار گیا۔ ایک اور ریاست مدھیہ پردیش کے ایک سرکاری اسکول کے ٹیچر نے 12ویں جماعت کی دلت لڑکی کو اپنی نسلی عصبیت کا نشانہ بنایا۔ یہ واقعات دراصل برفانی تودے کے اوپری سرے کے مانند ہیں، جس کی گہرائی کا پتہ نہیں چلتا۔ خود بھارت کے نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے مطابق ہر دس منٹ بعد ایک دلت ظلم و زیادتی کا شکار ہوتا ہے، جو اس تلخ حقیقت کو واشگاف انداز میں بیان کرتا ہے کہ آزادی کے 75 سال بعد بھی ملک بھر میں ذات پات کی جاہلانہ عصبیت قانون سازی کے باوجود زندگی کے ہر شعبے میں کار فرما ہے۔