75برس گزر جانے کے باوجود میرا ملک معاشی بحران سے آزاد نہیں ہوا، ہر سال بجٹ بنایا جاتا ہے ،اعلان کے ساتھ اس پر قومی اسمبلی میں دھواں دار تقاریر بھی ہوتی ہیں لیکن عوام کے نمائندے اپنی ذات کے علاوہ مفادات نچلی سطح تک پہنچنے نہیں دیتے،کہا جاتا ہے قرض لے کر ملک کو چلایا جارہا ہے، خوفناک ہندسوں کو پوشاک پہناکر عوام کا سانس خشک کرنے کیلئے حکومتی چالیں چلتی رہتی ہے۔ عوام زندہ آباد یا پھر مردہ آباد کے نعروں سے سوا خالی ہاتھ ہی رہتے ہیں ۔ اشیائے خوردونوش اُن کی پہنچ سے دور منہ چڑاتی ہیں، قرض پر قرض عوام کا نصیب ،نئی گاڑیاں اور بڑے بنگلے عوامی نمائندوں کا مقدر بنا رہتا ہے۔ خدا ہمیں بیدار بخت اور بیدار ضمیر بنا دے۔ مردہ ضمیروں نے کافی نقصان پہنچادیا۔ مردہ ضمیر وہ ہیں جو ملک اور قوم کے نقصان کی پرواہ کئے بغیر صرف اپنی منفعت کی فکر کرتے ہیں، اگر معاشرے میں باضمیرپیدا ہوگئے تو امید ہے مردہ ضمیر ضرور روپوش ہوجائینگے،حق آئے گا تو باطل مٹے گا۔ ضمیر کی آواز کا یہی پیغام ہے کہ یہ ظاہری شان وشوکت جسکے حصول کیلئے ہم مرے جارہے ہیںایک واہمہ ہے۔ لباس کے اندر ہر آدمی ایک ہی آدمی ہے۔ یہ ملک لاکھوں قربانیوں سے معرض وجود میں آیالیکن ابتدا ہی سے چند ہوس پرست جو نکوں نے اس کا خون چوسنا شروع کردیا اور اب تک ان کے چیلے اپنے بزرگوں کی روایات کو زندہ رکھے ہوئے ہیں، کسی غریب کو کیا فرق پڑتا ہے اس پر اگر مغل حکومت کرے یا بھٹی ، سب مسلمان ہیں لیکن اپنے مفادات پر سب کچھ قربان،یہ وقت بہت اہم ہے غور، فکر کرنے وقت ہے سنجیدگی اختیار کرنے کا لمحہ ہے لیکن عوام بیدار ہیںلیڈر مستقبل سے بے نیاز صرف دولت بنانے اور سمیٹنے کے کاروبار میں مصروف ہیں ، چین ہم سے بعد میں آزاد ہوا ، آج اس کی اہمیت دنیا میں اگر ہے ، امریکہ جیسی شیطانی طاقت اس سے گھبرارہی ہے ، ہمیں کسی تاریخ یا حقائق کی پرواہ نہیں۔ ضمیر مستقل مردہ ہوچکے ہیں، اگر کوئی مخلص دوست جھنجوڑکر حقائق کا سامنا کروانے کی کوشش بھی کرتے تو تعلقات میں بگاڑ پیدا ہونے کے مواقع اپنی جگہ بنالیتے ہیں، میرے خیال میںہر شخص صبح اپنا چہرہ آئینے میں تو دیکھتا ہی ہے لیکن اپنی پی رو برو ہوکر شرمندگی کا احساس بھی نہیں ہوتا ، آئینہ بولتا ہے کہ آج تیرے سر پر غرور تاجوری ہے کل اسی سر پر شور نوھہ گری ہوگا۔جس زمین پرتو اتراکے چل رہا ہے اسی میں تیرا ٹھکانہ ہے ، دوگز زمین چاہیے یہ ملتی بھی ہے یا نہیں کون جانے، آسمانوں پر نگاہ رکھنے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ ان کے پاؤں زمین پر ہی رہتے ہیں ، وہ اپنے ہی جیسے فرعونوں کے دروازوں پر دستک دیتا ہے کہ وہاں سے ہوس کی تشنگی مٹانے کا آب حرام مل سکے لیکن اپنے دل پر دستک دینے کیلئے اس کے ہاتھ مفلوج ہوجاتے ہیں، یہی کیفیت میرے ملک کے قائدین کی ہے وہ امریکہ ، یورپی ممالک ، آئی ایم ایف ورلڈ بینک ایشین بینک ڈویلپمنٹ بینک وغیرہ کی قدم بوسی کرتے رہتے ہیں کہ ملک کے نام پر قرض ملے۔۔۔(جاری)