آئینی ترمیمی مسودے کا آج کل ہر طرف چرچا ہے ۔ یہ مسودہ کہاں سے آیا او راس میں در اصل ہے کیاکہ جس پر اتنا ہنگامہ برپا ہے۔ لوگ سڑکوں پر ہیں اور وکلاءبھی بار کونسل کی راہداریوں میں سراپا احتجاج ہیں اور فضل الرحمن اور بریسٹر گوہرپارلیمنٹ کے اندر باہر گرج برس رہے ہیں۔یقینا یہ معاملہ ہی ایساہے کہ جس پر ہراہل علم باشعور شخص پریشان اور حکومتی پالیسیوں پر نالاں ہے کہ احتجاج کررہا ہے ۔اپوزیشن اور کچھ حکومتی ارکان اس آئینی ترمیم کے حق میں نہیں ہیں وہ الگ بات ہے کہ پی ڈی ایم کے بڑے نواز ،شہباز ، بلاول اور زرداری اس آئینی ترمیمی مسودے کو لانے کے مکمل موڈ میں ہیں ۔وہ اس آئینی ترمیمی مسودہ کو پارلیمنٹ میں پیش بھی کرنا چاہتے تھے کہ فضل الرحمن نہ ماننے اورکچھ آزاد رکن پارلیمنٹ کو ساتھ نہ دیکھتے ہوئے اس سے وقتی طور پر باز آگئے ۔ اب ایک بار پھر عوامی خراب موڈ ، سڑکوں پر مختلف کمیونٹی کی ہوتے احتجاج کے سبب ، بالخصوص شنگھائی تعاون تنظیم اجلاس پاکستان میں قریب پاکر وقتی طور پر پھر سے مو¿خر کرگئے ہیں جونہی اس کانفرنس سے نمٹیں گے فوری پہلا کام آئینی ترمیمی مسودہ پاس کروانے کی پوری کوشش کرینگے ۔ آریاپارکایہ کھیل کھیلنا ان کی مجبوری بھی ہے اور ضروری بھی ہے کہ حکم ہی ایسا آیاہے کہ ٹالنامشکل ہے اور پھر بات یہ بھی ہے کہ ان کی سیاسی بقاءبھی اسی میں ہے کہ آئینی ترمیمی مسودہ ہر صورت پاس ہو جائے۔ آپ اسے سادہ لفظوں میں یوں سمجھئے کہ آئینی ترمیمی مسودہ وہ طوطا ہے جس میں ان کی جان اٹکی ہوئی ہے اگر پاس کروالیتے ہیں تو کچھ دن اور جی لیں گے ورنہ مرنا لازمی ہے او ران کی یہ موت کس سیاسی گگلی کھیل تماشے سے کیسے ہوگی جلد اندازہ ہوجائے گا۔ یادرہے کہ یہ آئینی ترمیم ارکان پارلیمنٹ کیلئے اتنی اہم نہیں ہے جتنی ان زرداریوں ،شریفوں ،نقویوں ،واڈ وں کیلئے اہمیت رکھتی ہے ۔ اقتدار ایک نشہ ہے جس کو بھی ہوتا ہے اترتانہیں ہے ۔ کوئی بھی شخص جب کرسی وزارت پر بیٹھتا ہے تو اس کا پھر اترنے کو دل نہیں کرتا ہے ۔ وہ چاہتا ہے کہ وہ ہمیشگی کرسی پررہے اور یہ آئینی ترامیم ان کے اس خواب کو تقویت بخشے گی ۔ان کے راج کو تادیر قائم رکھنے کی ایک کوشش ہے اور ساتھ ساتھ اپنے دوستوں اور حواریوں کے بھی مزے کروادینے کا مکمل خیال ہے ۔ ظاہر ہے کہ یہ آئینی ترامیمی مسودہ ایک گریٹ رجیم چینج کھیل کا ایک اہم حصہ ہے ،اپنی اہمیت و افادیت کو جگائے گا ہی کہ سبھی ملکی وقار کا ستیاناس کئے ،بس تمام تر وسائل سے نظریں چرائے ، صرف آئینی ترامیم مسودہ کے ہی ہر طرف تذکرے ہیں کہ دوسرا اور کوئی خیال نہیں ہے ۔ حکومت وقت کے پاس ملکی سدھار کا کوئی ایجنڈا نہیں ہے ۔ محترمہ مریم نوازسے لے کر شہباز شریف تک ایسے لگتا ہے کہ یہ ملک چلانے کم اوربگاڑنے زیادہ آئے ہیں۔ ملکی ادارے چلانے کم اور بندکرنے کے مشن پر زیادہ عمل پیرا ہیں۔ نوجوانوں کو سرکاری نوکریاں دینے کی بجائے پہلے سے موجود افراد کی نوکریاں چھیننے کے درپے زیادہ ہیں ۔ ان کے پاس کوئی بھی جامع اور مثبت پالیسی نہیں ہے ۔ ملک پاکستان کو تباہ و برباد کرنے کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں اس میں سدھار لانا ان سے ناممکن ہے۔ جب سے یہ آئے ہیں کوئی خاص کام نہیں ہے بس اپنا آپ ہی سنوارنے کی کوشش میں ہیں ۔ان سے بہتر دﺅرتو عمران خاں اور عثمان بزدار کا تھا کہ معاملات پھر بھی کنٹرول میں تھے ۔اتنے خراب حالات تو کرونا میں بھی نہ تھے جتنے اب ہیں ۔ اب تو صورتحال یہ ہے کہ نوجوان بیروزگار ہیں اور ڈھونڈنے سے بھی نوکریاں نہیںمل رہی ہیں۔ یہ صورتحال انتہائی خراب ہے ،عوام انتہائی پریشان حال ہے اور حکمران طبقہ چین کی بانسری بجارہا ہے ۔شاید کے احساس زیاں سے یکسر عاری ہیں کہ رعایا کا درد اپنا درد سمجھتے ہی نہیں ہیں۔کسان کی تکالیف کا ازالہ ان کے پروگرام کا حصہ ہی نہیں ہے ۔نہ جانے ہمارے حکمران کسی مہنگائی کو کم کردینے کے دعوے اور چاﺅ میں مبتلاءہیں کہ فخر سے اس پر پھولے نہیں سماتے ۔ بھلا یہ کہاں کا انصاف ہے کہ ایک کسان کی فصل پر لاگت 4/5ہزار روپے فی من ہو اور اس سے خریدی دو ڈھائی ہزار روپے میں جائے ۔ یہ کیسا مہنگائی کم فارمولا ہے ؟یہ مہنگائی کم فارمولا نہیں ، کسان مار صورتحال ہے جس کا آنےوالے دنوں میں سارے پاکستان کو اندازہ ہوجائیگا ۔ حکمرانوں کو اس پر ہوش کے ناخن لینے کی ضرورت ہے ۔ بات ہورہی تھی آئینی ترامیم مسودے کی تو صاحبو !یہ وہ چھبیسواں آئینی ترمیمی مسودہ ہے جو ہمارے ہمیشگی آقا امریکہ بہادر سے آیا ہے اور انہیں وصول ہوا ہے جو سب سے زیادہ ٹی وی پر شورمچاتے ہیںاور انہیں دےدیا گیا ہے جو سب پر بھاری کے لقب سے جانے پہچانے جاتے ہیں اور وہاں سے ایک انگلش اُردو میڈیم سیاستدان جب زیادہ بارش ہوتا ہے تو زیادہ پانی آتا ہے کے حوالے کردیاگیا ہے جو اِسے کبھی کسی در تو کبھی کسی در حال وبے حال سے لیے پھرتے ہیں اور سکون اک پل کو بھی نہیں ہے او ر اس آئینی ترمیمی مسودہ پر موسیقی ، دھنیں اور ساز محسن نقوی، خواجہ آصف اور فیصل واڈا جیسے لوگ دے رہے ہیں ،معاملہ اور کچھ بھی نہیں ہے آئینی ترمیمی مسودہ پاس کروانا ہے اور یہ ضروری بھی او رمجبوری بھی ہے ۔

