کالم

آئین فطرت سے سیکھیں !

کیا پیسہ اور عہدہ انسان کو سکون دیتا ہے یا وہ ذات یہ سب کچھ بعض لوگوں کو سزا کے طور پر دیتی ہے۔ جس کا اندازہ گزرتے وقت کے بعد ہوتا ہے۔ سیاسی حکمران وزرا، چیف جسٹس ججز صاحبان اور سپہ سالار صاحبان وہ جو گھر جا چکے ہیں اور کچھ دنیا سے گزر چکے ہیں ۔ ان میں بعض وہ بھی ہیں جھنیں اقتدار کے دوران اور بعد میں بھی برے القابات سے نوازا جاتا رہا وہ جب عمرہ ادائیگی کیلئے جاتے ہیں مگر وہاں بھی برے القابات انکا پیچھا کرتے رہے۔ جیسے سابق وزیراعظم اور وزرا کو عمرے کے دوران دیکھا گیا ۔ایسا ہی منظر سابق چیف جسٹس کیساتھ دیکھا جا چکا ہے جب یہ حاضر سروس بنچ چلا ر ہے تھے ۔پھر ریٹارڈ ہونے کے بعد ایک شادی ایونٹ میں انہیں ایک وکیل کی طرف سے ڈیم فنڈز کی بابت تلخ فقروں سے نوازا گیا !! ۔ جناب نے جواب بھی دیسی زبان میں دیا ۔ جس پر شرمندہ دلہن دولہا والوں کے ساتھ باراتی بھی ہوئے۔ ایسے ہی ایک سابق چیف ریٹارمنٹ کے بعد دیار غیر میں گھر کی سیڑھی پر بیٹھے سستا رہے تھے کہ” شیطان” پہنچ گیا وڈیو بنائی ، برے القابات سے انہیں نوازا۔اگر یہ فیملی پیرس کی گلی میں کسی گھر کی سیڑھی پر بیٹھنے کے بجائے یہاں کے کسی دیہات میں بیری کے درخت کے نیچے بیٹھتی تو بیر کھاتے گالیاں نہ کھاتے ۔اپنے لوگ دیکھ کر انہیں تازہ لسی کا گلاس پیش کرتے ۔یہ لسی پیتے انجائے کرتے مگر قدرت کا اپنا نظام ہے کہ انسان کو اس کے غلط کاموں کی سزا اسے اسی دنیا میں بھی دیتا ہے ۔کبھی کبھی سزا دینے کے لئے انہیں غیروں کے پاس بھیج دیتا ہے جو کچھ ان بڑے لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے انہیں دیکھ کر عام انسان شکر ادا کرتا ہے کہ اچھا ہوا مجھے بڑے عہدے سے نہیں نواز گیا توں نے مجھے نارمل رکھا ورنہ میرے ساتھ بھی آج یہی سلوک ہو رہا ہوتا۔ مجھے بھی یہ سزا ملتی اور برے القابات سے میں بھی نوازا جاتا ۔ سچ کہا ہے جزا و سزا انسان کو اس کے اعمال کی بنا پر اسی جہاں میں بھی ملتی ہے ، یقینا اگلے جہاں میں بھی ملیگی۔ لہذا بے چین رہنا اپنی نیندیں حرام کرنا ناجائز طریقے سے پیسے بنانا شہرت لینا اور اس کے لئے دن رات کام کرنا بند کریں ۔یہ سوچنا ہو گا کہ ہمیں پیسوں عہدوں کے پیچھے بھاگنا چاہیے یا اپنی صحت اور عزت کا خیال رکھنا چاہیے۔ فطرت کہتی ہے اے انسان تم دن رات کام نہیں کر سکتے ہو۔ مگر ہم پھر بھی کرتے ہیں ۔دنیا میں ایک ریسرچ کے بعد یہ طے ہو چکا ہے کہ انسان کو آٹھ گھنٹے کے کام میں وقفہ لینا لازم ہے۔ انسانی جسم مسلسل کام کرنے کا بوجھ برداشت نہیں کر سکتا۔ اسے آرام کی بھی ضرورت ہے۔فطرت میں وقفے کی منظم ترتیب ہے۔سورج کو دیکھیں، ہر صبح طلوع ہوتاہے غروب ہوتاہے، پھر رات کے بعد سویرا ہوتا ہے۔ جو بھی انسان فطرت کے اس اصول پرجس قدر کاربند ہوگا،اسی قدر وہ خوش صحت مند اور کامیاب بھی ہوگا۔ یہ کہنا غلط ہے کہ زندگی میں بس کام ، کام اور کام ہی کرتے رہنا چاہے۔دنیا ساری میں آٹھ گھنٹے کے کام میں وقفہ دیا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے دنیا کی سب سے بڑی کمپنی گوگل اپنے دفاتر میں قیلولہ کرنے کے لئے نیب پوڈزجگہ فراہم کرتی ہے جس کی بدولت ملازمین کو کام کے دوران قیلولہ کرنے میں سہولت ملتی ہے۔ سب سے بڑی سفری سہولیات فراہم کرنے والی کمپنی نے ہیڈکوارٹر میں کثیرتعداد میں قیلولہ گاہیں نیب روم بنا رکھے ہیں جہاں ملازمین مختصر نیند لیتے ہیں۔اسی طرح جاپانی کمپنیوں میں قیلولہ کے لیے باقاعدگی سے وقفہ دیا جاتا ہے۔سپین میں ایک طویل عرصے سے ”سیسٹا” کا تصور موجود ہے۔وہاں دوپہر میں کاروبار کچھ گھنٹوں کے لیے بند کر دیاجاتاہے اور دن ڈھل جانے کے بعد لوگ واپس کام پر تازہ دم ہو کر پھر سے آتے ہیں۔چین میں بھی ملازمین کام کے دوران ہی مختصر نیند لیتے کی سہولت میسر ہے اوراسے ”دوپہر کی جھپکی” کہاجاتاہے ۔اٹلی میں اسے ”ریپوسو”کانام دیا گیا۔اسی طرح میکسیکو، برازیل اورارجنٹائن سمیت لاطینی امریکہ کے کئی ممالک میں کام کے دوران نیپ لینے کا باقاعدہ رواج ہے؟کیوں کہ وہ اس چیزکے فوائد جانتے ہیں۔ وقفہ لینے سے انسان کاذہنی دباﺅ کافی حدتک کم ہوجاتا ہے۔فرش ہو جاتا ہے پھر وہ بہتر کام کرنے لگتا ہے تو اس کی تخلیقی صلاحیت بڑھ جاتی ہے، اس کا ذہن تیز ہوجاتاہے اور وہ بہترین انداز میں اپنے کاموں کو سرانجام دیتا ہے۔وقفہ لینے سے انسان ذہنی سکون حاصل کرلیتا ہے اور مسلسل کام کی وجہ سے اس کے اندر جو بے چینی اور بیزاری پیدا ہوچکی ہوتی ہے ،وہ ختم ہوجاتی ہوتی ہے۔نیپ لینے سے انسان کی قوت ارتکاز بڑھ جاتی ہے اور پھر وہ اپنے کام پر پوری توجہ دیتا ہے جس سے کام کا معیار بہترین ہوجاتاہے جبکہ ہم نیپ لینے کے بجائے وقفہ ملنے پر کھانا کھانے پر زور دیتے ہیں جس سے جب کام پر دوبارہ واپس آتے ہیں تو اونگھ رہے ہوتے ہیں۔سرکاری دفاتر میں کرسی پر سو کر خراٹے مار کر گزار دیتے ہیں ہم دوسروں کے تجربات سے فائدہ اٹھانے کے بجائے اپنے تجربات کرتے ہیں۔ یہ زندگی بہت ہی قیمتی ہے ۔اسے صرف پیسے کمانے یااونچامقام پانے کی خاطر ضائع مت کریں ۔ اپنی صحت کا خیال بھی رکھا کریں ۔عہدوں کے دوران پیسے اکٹھے کرتے ہیں اور ریٹائرمنٹ پر اس پیسے کو سنبھالنے پر لگ پڑتے ہیں جس سے صحت اور عزت خراب کر لیتے ہیں ۔صحت کی کوئی فکر نہیں، اپنے بنک بیلنس کی فکر کرتے ہیں جبکہ اردگرد دیکھیں تو کتنی زیادہ نعمتیں بکھری پڑی ہیں،ان سے لطف اندوز ہوں اور زندگی کوحقیقی معنوں میں گزارنا شروع کریں ۔زندگی کی خوب صورتی کے متعلق رابن شرما اپنی کتاب میں کہتا ہے:”زندگی کی چھوٹی چھوٹی خوشیوں کو نظر انداز کرکے اور بڑی خوشیوں کاپیچھا کرکے خودکو مت مارو۔ہر دن بھرپور انداز میں گزارو۔ مادی خوشیاں حاصل کرنے کےلئے اپنی روح کو مت فروخت کرو ۔ تمہارے بینک اکاﺅنٹ، پیسہ ، بنگلے اور گاڑیوں سے خوشیوں اور اطمینان بھری زندگی کا کوئی تعلق نہیں ۔ سب جانتے ہیں یہ دنیا بہت سے بے اطمینان کروڑ پتیوں سے بھری پڑی ہے ۔لہٰذا کہا یہ جاتا ہے کہ زندگی میں اپنے لئے آسانیاں پیدا کریں اور دوسروں کے کام آیا کریں ۔ فطرت کے قریب رہا کریں نیچرکو دیکھ کر انجوائے کریں ۔اپنے اردگرد لوگوں کی غمی خوشی میں شامل ہوا کریں۔یہ سچ ہے کہ پیسے بنانے والے اپنے اندر کا ٹیلنٹ ضائع کر دیتے ہیں اور انجوائے نہیں کر پاتے۔ جتنا پیسوں عہدوں کا خیال رکھتے ہیں کاش اتنا خیال اپنی صحت اور عزت کا بھی رکھیں۔ قربان علی سالک یاد آگئے
تنگ دستی اگر نا ہو سالک
تندرستی ہزار نعمت ہے
٭٭٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے